ضیاء حیدری
محفلین
تخت یا تختہ مقدر کا کھیل ہوتا ہے،
مگر اس میں ایمپائر کی انگلی کا کمال ہوتا ہے۔
ایک عنصر مرشد کی تربیت کا بھی ہوتا ہے،
جیسا بتایا جائے، ویسا ہی چلنا ہوتا ہے۔
ورنہ ستاروں کی چال پلٹ سکتی ہے،
خلاؤں میں تبدیلی کا فیصلہ اگر ہوجائے،
تو پھر تقدیر بھی بدل جاتی ہے،
اور بندہ وزیر اعظم ہاؤس سے نکل کر سیدھا بندی خانے روانہ ہوجاتا ہے۔
اج کل ایک اور صاحب کی روحانی تربیت شروع ہونے والی ہے،
مگر پہلے اسے عثمان بزدار بننا پڑے گا۔
اگر اس میں کامیاب ہوگیا،
تو پھر وزیر اعظم نہ سہی،
چیرمین تو بن ہی جائے گا۔
ابپے انداز میں یہ قصہ سنایا ہے،
تقدیر کے کھیل کا یہ عجب تماشا دکھایا ہے۔
کہیں ہیرے موتی چننے کو ملتے ہیں،
کہیں توشہ خانہ کا حساب لیتے ہیں۔
ایک دن جو تاج پہنتا ہے،
دوسرے دن وہی ننگے پاؤں پھرتا ہے۔
یہ زندگی کا سفر بھی کیا عجیب ہے،
کبھی خوشی کبھی غم کا نصیب ہے۔
یہ سب قصے کہانیاں ہیں،
مگر سچائی کی گواہیاں ہیں۔
جو آج عرش پر ہے، کل فرش پر ہوسکتا ہے۔
مگر اس میں ایمپائر کی انگلی کا کمال ہوتا ہے۔
ایک عنصر مرشد کی تربیت کا بھی ہوتا ہے،
جیسا بتایا جائے، ویسا ہی چلنا ہوتا ہے۔
ورنہ ستاروں کی چال پلٹ سکتی ہے،
خلاؤں میں تبدیلی کا فیصلہ اگر ہوجائے،
تو پھر تقدیر بھی بدل جاتی ہے،
اور بندہ وزیر اعظم ہاؤس سے نکل کر سیدھا بندی خانے روانہ ہوجاتا ہے۔
اج کل ایک اور صاحب کی روحانی تربیت شروع ہونے والی ہے،
مگر پہلے اسے عثمان بزدار بننا پڑے گا۔
اگر اس میں کامیاب ہوگیا،
تو پھر وزیر اعظم نہ سہی،
چیرمین تو بن ہی جائے گا۔
ابپے انداز میں یہ قصہ سنایا ہے،
تقدیر کے کھیل کا یہ عجب تماشا دکھایا ہے۔
کہیں ہیرے موتی چننے کو ملتے ہیں،
کہیں توشہ خانہ کا حساب لیتے ہیں۔
ایک دن جو تاج پہنتا ہے،
دوسرے دن وہی ننگے پاؤں پھرتا ہے۔
یہ زندگی کا سفر بھی کیا عجیب ہے،
کبھی خوشی کبھی غم کا نصیب ہے۔
یہ سب قصے کہانیاں ہیں،
مگر سچائی کی گواہیاں ہیں۔
جو آج عرش پر ہے، کل فرش پر ہوسکتا ہے۔