راحیل فاروق
محفلین
فن کی نوعیت اور عوام پر اس کے اثرات کی بحث گو معاشرے کے لیے نہایت سودمند ہے مگر فنکار عام طور پر اس سے تقریباً بےنیاز ہی رہتا ہے۔ البتہ ایک کانٹا اور ہے جو کبھی کبھی اس کے دل میں کھٹکتا ہے۔ میری مراد اس سوال سے ہے کہ تخلیقِ فن بذاتِ خود کیا شے ہے؟ اس کی نوعیت کیا ہے؟ کیفیت کیا ہے؟ کیا ہم اس تجربے کو کسی طور پر سمجھ سکتے ہیں؟ اگر ہاں، تو کیا ہم اسے دوسروں کو بھی سمجھا سکتے ہیں؟ یعنی جب ایک موسیقار ایک دھن ترتیب دے رہا ہوتا ہے یا ایک شاعر غزل کہہ رہا ہوتا ہے تو وہ عمل کیا ہے اور کیسا ہے جس کے نتیجے میں یہ تخلیقات وجود میں آتی ہیں؟
دراصل تخلیقِ فن کا عمل ایک ایسا وجدانی اور سیلانی قسم کا تجربہ ہے کہ گزر چکنے کے بعد اس کا تجزیہ تو ایک طرف، بازیافت بھی کماحقہٗ ممکن نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نوعیت یا کیفیت کو سمجھنے کی کوششیں ہمارے ذہن میں ایک مبہم اور بعض اوقات غلط سا خاکہ تو قائم کر دیتی ہیں مگر اس تجربے کا جوہر ہاتھ نہیں آ پاتا۔ میرا خیال ہے کہ ہم روایتی طور پر اس مسئلے کو غلط زاویۂِ نگاہ سے دیکھتے آئے ہیں۔ شاید ہمیں تخلیقِ فن کو اس کے نتائج و عواقب سے ماورا ہو کر خود فنکار کے محسوسات کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ممکن ہے عوام الناس کو وہ باتیں چونکا دیں جو میں کہنے جا رہا ہوں۔ مگر میرے مخاطب وہ نہیں ہیں۔ میرا خطاب دراصل فنکاروں سے ہے۔ یعنی ان لوگوں سے جو فنکارانہ تخلیق کے عمل سے گزر چکے ہیں یا گزرتے رہتے ہیں۔ باقی تمام لوگوں کے لیے یہ بحث فکر انگیز تو ہو سکتی ہے، معنیٰ خیز نہیں!
میرا تجربہ ہے کہ فنکار تخلیقِ فن سے قبل ایک عجیب قسم کے اضطراب سے گزرتا ہے جس میں بےانتہا کشش کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ یعنی جب ایک شاعر غزل کہتا ہے تو اس سے کچھ پہلے اس کی طبیعت میں ایک بےچینی پیدا ہو جاتی ہے جو رفتہ رفتہ بڑھتی جاتی ہے۔ یہ کیفیت اپنے اندر اسی قسم کا اضطرار رکھتی ہے جس طرح کا ایک مرد اپنی محبوبہ کی یاد آنے پر محسوس کرتا ہے۔ یعنی ابھی وہ یاد پوری طرح ذہن کے آئینے پر منعکس بھی نہیں ہوتی کہ عاشق کا دل ڈوبنے لگتا ہے۔ اور بالآخر وہ جذبے کی شدت بڑھنے کے ساتھ عقلی سطح پر بھی باور کر لیتا ہے کہ اسے دراصل محبوبہ کی یاد ستا رہی ہے۔
بالکل اسی طرح کی کیفیت شعر کہنے سے قبل شاعر پر گزرتی ہے اور اس کے دل و دماغ میں ایک ہیجان برپا ہوتا ہے۔ وہ بھی اس ہیجان سے ایک وابستگی اور کشش محسوس کرتا ہے جو اسے بےبس کر ڈالتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ وقت آ جاتا ہے کہ یہ اضطراب اپنے عروج کو جا پہنچتا ہے اور شاعر کے پاس قلم اٹھا لینے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔ گویا عاشق اپنی محبوبہ کے پاس جا پہنچا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں سے تخلیق کے عمل کا باقاعدہ طور پر آغاز ہوتا ہے۔ میں جہاں تک سمجھا ہوں یہ شاعر کا فطرت کے ساتھ وصال ہے۔ جس طرح عاشق اور معشوق دنیا و مافیہا سے بےخبر ہو کر ایک دوسرے میں گم ہو جاتے ہیں بعینہٖ اسی طرح شاعر ایک گونہ فریفتگی اور بےخودی کے عالم میں شعر کہنے شروع کرتا ہے۔
جنسی عمل اپنے اندر جس قسم کی والہانہ ازخود رفتگی اور نشہ رکھتا ہے بالکل وہی تخلیقی عمل کے دوران فنکار میں بھی مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں۔ پھر یہی نہیں، اس کی تکمیل کے بعد فنکار عاشق ہی کی طرح ایک ایسا خمار بھی محسوس کرتا ہے جس میں لطف اور تکان دونوں بدرجۂِ اتم موجود ہوتے ہیں۔ ایک سرور اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جس میں وہ پوری طرح یقین نہیں کر پاتا کہ وہ واقعی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اسی طرح اس کے لیے فوری طور پر دوبارہ اس عمل کی جانب متوجہ ہونا بھی ممکن نہیں ہوتا۔
اگر کسی عاشق کو اس کی محبوبہ بلاتردد مل جائے اور اسے وصال کے لیے کوئی کشٹ نہ بھوگنے پڑیں تو وہ اس درجے کا لطف کبھی نہیں اٹھا سکتا جو صدہا مصائب اور رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد ملنے پر نصیب ہوتا ہے۔ شاعر کا معاملہ بھی یہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس کی راہ ظالم سماج نہیں مارتا بلکہ قواعدِ فن اور عروضی پابندیاں اس کے پاؤں کی بیڑیاں بنتی ہیں۔ مگر جس قدر استقامت اور استقلال کے ساتھ وہ ان مزاحمتوں سے نمٹتا جاتا ہے اسی قدر اہتزاز تخلیق کے لمحوں میں اسے ارزانی ہوتا ہے۔
عملی نقطۂِ نگاہ سے دیکھا جائے تو شاید بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ عام آدمی کے مزاج میں فنکارانہ جوہر کا فقدان کم و بیش اسی قسم کے میکانکی طرزِ حیات کو جنم دیتا ہے جو ایک زاہدِ مرتاض کے ہاں تجرد کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ مگر فنکار اور عاشق کی زندگی ان مشینی رویوں کے برعکس ایک نامیاتی اور زندہ روش پر قائم رہتی ہے۔ یعنی ہر دو کے دل میں اکثر ایک تلاطم اور تموج ایسا برپا ہوتا رہتا ہے جو زندگی اور معاشرے کے جمود کا دشمن ہے۔
پھر یہ بھی طے ہے کہ جذبات کا مناسب نکاس انسان کی جسمانی سے لے کر روحانی صحت تک کا ضامن ہے۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اظہارِ فن یا تخلیقِ فن کا سب سے بڑا وظیفہ ذاتی اور حیاتیاتی ہے۔ یعنی ہر بار سامنے نظر آتی ہوئی موت کا رخ موڑ کر فنکار کو ایک نئی زندگی بخشنا۔ دوسرے لفظوں میں، اگر تخلیقِ فن کے تمام راستے مسدود کر دیے جائیں تو یہ امر فنکار کے حق میں پیغامِ اجل کا حکم رکھتا ہے۔
گویا فنکار عاشق ہے اور فطرت معشوق۔ اور تخلیقِ فن عاشق و معشوق کے باہمی اختلاط کا عمل ہے۔ یہاں مجھے وہ پرانے لوگ یاد آ رہے ہیں جو یہ یقین رکھتے تھے کہ شاعروں کو شاعری کی دیوی الہام کے ذریعے سے تعلیم کرتی ہے۔ مجھے تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی بات میں بہرحال صداقت کا ایک بڑا عنصر موجود ہے۔ بلکہ ممکن ہے کہ وہ تخلیقی عمل کو کم و بیش اسی زاویے سے دیکھتے ہوں جس سے ہم آج اسے دیکھ رہے ہیں اور ان کی بات امتدادِ زمانہ کے سبب ہم تک پوری یا صحیح نہ پہنچ پائی ہو۔
دراصل تخلیقِ فن کا عمل ایک ایسا وجدانی اور سیلانی قسم کا تجربہ ہے کہ گزر چکنے کے بعد اس کا تجزیہ تو ایک طرف، بازیافت بھی کماحقہٗ ممکن نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نوعیت یا کیفیت کو سمجھنے کی کوششیں ہمارے ذہن میں ایک مبہم اور بعض اوقات غلط سا خاکہ تو قائم کر دیتی ہیں مگر اس تجربے کا جوہر ہاتھ نہیں آ پاتا۔ میرا خیال ہے کہ ہم روایتی طور پر اس مسئلے کو غلط زاویۂِ نگاہ سے دیکھتے آئے ہیں۔ شاید ہمیں تخلیقِ فن کو اس کے نتائج و عواقب سے ماورا ہو کر خود فنکار کے محسوسات کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ممکن ہے عوام الناس کو وہ باتیں چونکا دیں جو میں کہنے جا رہا ہوں۔ مگر میرے مخاطب وہ نہیں ہیں۔ میرا خطاب دراصل فنکاروں سے ہے۔ یعنی ان لوگوں سے جو فنکارانہ تخلیق کے عمل سے گزر چکے ہیں یا گزرتے رہتے ہیں۔ باقی تمام لوگوں کے لیے یہ بحث فکر انگیز تو ہو سکتی ہے، معنیٰ خیز نہیں!
میرا تجربہ ہے کہ فنکار تخلیقِ فن سے قبل ایک عجیب قسم کے اضطراب سے گزرتا ہے جس میں بےانتہا کشش کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ یعنی جب ایک شاعر غزل کہتا ہے تو اس سے کچھ پہلے اس کی طبیعت میں ایک بےچینی پیدا ہو جاتی ہے جو رفتہ رفتہ بڑھتی جاتی ہے۔ یہ کیفیت اپنے اندر اسی قسم کا اضطرار رکھتی ہے جس طرح کا ایک مرد اپنی محبوبہ کی یاد آنے پر محسوس کرتا ہے۔ یعنی ابھی وہ یاد پوری طرح ذہن کے آئینے پر منعکس بھی نہیں ہوتی کہ عاشق کا دل ڈوبنے لگتا ہے۔ اور بالآخر وہ جذبے کی شدت بڑھنے کے ساتھ عقلی سطح پر بھی باور کر لیتا ہے کہ اسے دراصل محبوبہ کی یاد ستا رہی ہے۔
بالکل اسی طرح کی کیفیت شعر کہنے سے قبل شاعر پر گزرتی ہے اور اس کے دل و دماغ میں ایک ہیجان برپا ہوتا ہے۔ وہ بھی اس ہیجان سے ایک وابستگی اور کشش محسوس کرتا ہے جو اسے بےبس کر ڈالتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ وقت آ جاتا ہے کہ یہ اضطراب اپنے عروج کو جا پہنچتا ہے اور شاعر کے پاس قلم اٹھا لینے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔ گویا عاشق اپنی محبوبہ کے پاس جا پہنچا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں سے تخلیق کے عمل کا باقاعدہ طور پر آغاز ہوتا ہے۔ میں جہاں تک سمجھا ہوں یہ شاعر کا فطرت کے ساتھ وصال ہے۔ جس طرح عاشق اور معشوق دنیا و مافیہا سے بےخبر ہو کر ایک دوسرے میں گم ہو جاتے ہیں بعینہٖ اسی طرح شاعر ایک گونہ فریفتگی اور بےخودی کے عالم میں شعر کہنے شروع کرتا ہے۔
جنسی عمل اپنے اندر جس قسم کی والہانہ ازخود رفتگی اور نشہ رکھتا ہے بالکل وہی تخلیقی عمل کے دوران فنکار میں بھی مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں۔ پھر یہی نہیں، اس کی تکمیل کے بعد فنکار عاشق ہی کی طرح ایک ایسا خمار بھی محسوس کرتا ہے جس میں لطف اور تکان دونوں بدرجۂِ اتم موجود ہوتے ہیں۔ ایک سرور اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جس میں وہ پوری طرح یقین نہیں کر پاتا کہ وہ واقعی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اسی طرح اس کے لیے فوری طور پر دوبارہ اس عمل کی جانب متوجہ ہونا بھی ممکن نہیں ہوتا۔
اگر کسی عاشق کو اس کی محبوبہ بلاتردد مل جائے اور اسے وصال کے لیے کوئی کشٹ نہ بھوگنے پڑیں تو وہ اس درجے کا لطف کبھی نہیں اٹھا سکتا جو صدہا مصائب اور رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد ملنے پر نصیب ہوتا ہے۔ شاعر کا معاملہ بھی یہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس کی راہ ظالم سماج نہیں مارتا بلکہ قواعدِ فن اور عروضی پابندیاں اس کے پاؤں کی بیڑیاں بنتی ہیں۔ مگر جس قدر استقامت اور استقلال کے ساتھ وہ ان مزاحمتوں سے نمٹتا جاتا ہے اسی قدر اہتزاز تخلیق کے لمحوں میں اسے ارزانی ہوتا ہے۔
عملی نقطۂِ نگاہ سے دیکھا جائے تو شاید بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ عام آدمی کے مزاج میں فنکارانہ جوہر کا فقدان کم و بیش اسی قسم کے میکانکی طرزِ حیات کو جنم دیتا ہے جو ایک زاہدِ مرتاض کے ہاں تجرد کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ مگر فنکار اور عاشق کی زندگی ان مشینی رویوں کے برعکس ایک نامیاتی اور زندہ روش پر قائم رہتی ہے۔ یعنی ہر دو کے دل میں اکثر ایک تلاطم اور تموج ایسا برپا ہوتا رہتا ہے جو زندگی اور معاشرے کے جمود کا دشمن ہے۔
پھر یہ بھی طے ہے کہ جذبات کا مناسب نکاس انسان کی جسمانی سے لے کر روحانی صحت تک کا ضامن ہے۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اظہارِ فن یا تخلیقِ فن کا سب سے بڑا وظیفہ ذاتی اور حیاتیاتی ہے۔ یعنی ہر بار سامنے نظر آتی ہوئی موت کا رخ موڑ کر فنکار کو ایک نئی زندگی بخشنا۔ دوسرے لفظوں میں، اگر تخلیقِ فن کے تمام راستے مسدود کر دیے جائیں تو یہ امر فنکار کے حق میں پیغامِ اجل کا حکم رکھتا ہے۔
گویا فنکار عاشق ہے اور فطرت معشوق۔ اور تخلیقِ فن عاشق و معشوق کے باہمی اختلاط کا عمل ہے۔ یہاں مجھے وہ پرانے لوگ یاد آ رہے ہیں جو یہ یقین رکھتے تھے کہ شاعروں کو شاعری کی دیوی الہام کے ذریعے سے تعلیم کرتی ہے۔ مجھے تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی بات میں بہرحال صداقت کا ایک بڑا عنصر موجود ہے۔ بلکہ ممکن ہے کہ وہ تخلیقی عمل کو کم و بیش اسی زاویے سے دیکھتے ہوں جس سے ہم آج اسے دیکھ رہے ہیں اور ان کی بات امتدادِ زمانہ کے سبب ہم تک پوری یا صحیح نہ پہنچ پائی ہو۔
آخری تدوین: