تخلیقِ فن - ایک نامیاتی نظریہ

فن کی نوعیت اور عوام پر اس کے اثرات کی بحث گو معاشرے کے لیے نہایت سودمند ہے مگر فنکار عام طور پر اس سے تقریباً بےنیاز ہی رہتا ہے۔ البتہ ایک کانٹا اور ہے جو کبھی کبھی اس کے دل میں کھٹکتا ہے۔ میری مراد اس سوال سے ہے کہ تخلیقِ فن بذاتِ خود کیا شے ہے؟ اس کی نوعیت کیا ہے؟ کیفیت کیا ہے؟ کیا ہم اس تجربے کو کسی طور پر سمجھ سکتے ہیں؟ اگر ہاں، تو کیا ہم اسے دوسروں کو بھی سمجھا سکتے ہیں؟ یعنی جب ایک موسیقار ایک دھن ترتیب دے رہا ہوتا ہے یا ایک شاعر غزل کہہ رہا ہوتا ہے تو وہ عمل کیا ہے اور کیسا ہے جس کے نتیجے میں یہ تخلیقات وجود میں آتی ہیں؟
دراصل تخلیقِ فن کا عمل ایک ایسا وجدانی اور سیلانی قسم کا تجربہ ہے کہ گزر چکنے کے بعد اس کا تجزیہ تو ایک طرف، بازیافت بھی کماحقہٗ ممکن نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نوعیت یا کیفیت کو سمجھنے کی کوششیں ہمارے ذہن میں ایک مبہم اور بعض اوقات غلط سا خاکہ تو قائم کر دیتی ہیں مگر اس تجربے کا جوہر ہاتھ نہیں آ پاتا۔ میرا خیال ہے کہ ہم روایتی طور پر اس مسئلے کو غلط زاویۂِ نگاہ سے دیکھتے آئے ہیں۔ شاید ہمیں تخلیقِ فن کو اس کے نتائج و عواقب سے ماورا ہو کر خود فنکار کے محسوسات کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ممکن ہے عوام الناس کو وہ باتیں چونکا دیں جو میں کہنے جا رہا ہوں۔ مگر میرے مخاطب وہ نہیں ہیں۔ میرا خطاب دراصل فنکاروں سے ہے۔ یعنی ان لوگوں سے جو فنکارانہ تخلیق کے عمل سے گزر چکے ہیں یا گزرتے رہتے ہیں۔ باقی تمام لوگوں کے لیے یہ بحث فکر انگیز تو ہو سکتی ہے، معنیٰ خیز نہیں!
میرا تجربہ ہے کہ فنکار تخلیقِ فن سے قبل ایک عجیب قسم کے اضطراب سے گزرتا ہے جس میں بےانتہا کشش کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ یعنی جب ایک شاعر غزل کہتا ہے تو اس سے کچھ پہلے اس کی طبیعت میں ایک بےچینی پیدا ہو جاتی ہے جو رفتہ رفتہ بڑھتی جاتی ہے۔ یہ کیفیت اپنے اندر اسی قسم کا اضطرار رکھتی ہے جس طرح کا ایک مرد اپنی محبوبہ کی یاد آنے پر محسوس کرتا ہے۔ یعنی ابھی وہ یاد پوری طرح ذہن کے آئینے پر منعکس بھی نہیں ہوتی کہ عاشق کا دل ڈوبنے لگتا ہے۔ اور بالآخر وہ جذبے کی شدت بڑھنے کے ساتھ عقلی سطح پر بھی باور کر لیتا ہے کہ اسے دراصل محبوبہ کی یاد ستا رہی ہے۔
بالکل اسی طرح کی کیفیت شعر کہنے سے قبل شاعر پر گزرتی ہے اور اس کے دل و دماغ میں ایک ہیجان برپا ہوتا ہے۔ وہ بھی اس ہیجان سے ایک وابستگی اور کشش محسوس کرتا ہے جو اسے بےبس کر ڈالتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ وقت آ جاتا ہے کہ یہ اضطراب اپنے عروج کو جا پہنچتا ہے اور شاعر کے پاس قلم اٹھا لینے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔ گویا عاشق اپنی محبوبہ کے پاس جا پہنچا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں سے تخلیق کے عمل کا باقاعدہ طور پر آغاز ہوتا ہے۔ میں جہاں تک سمجھا ہوں یہ شاعر کا فطرت کے ساتھ وصال ہے۔ جس طرح عاشق اور معشوق دنیا و مافیہا سے بےخبر ہو کر ایک دوسرے میں گم ہو جاتے ہیں بعینہٖ اسی طرح شاعر ایک گونہ فریفتگی اور بےخودی کے عالم میں شعر کہنے شروع کرتا ہے۔
جنسی عمل اپنے اندر جس قسم کی والہانہ ازخود رفتگی اور نشہ رکھتا ہے بالکل وہی تخلیقی عمل کے دوران فنکار میں بھی مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں۔ پھر یہی نہیں، اس کی تکمیل کے بعد فنکار عاشق ہی کی طرح ایک ایسا خمار بھی محسوس کرتا ہے جس میں لطف اور تکان دونوں بدرجۂِ اتم موجود ہوتے ہیں۔ ایک سرور اسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے جس میں وہ پوری طرح یقین نہیں کر پاتا کہ وہ واقعی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اسی طرح اس کے لیے فوری طور پر دوبارہ اس عمل کی جانب متوجہ ہونا بھی ممکن نہیں ہوتا۔
اگر کسی عاشق کو اس کی محبوبہ بلاتردد مل جائے اور اسے وصال کے لیے کوئی کشٹ نہ بھوگنے پڑیں تو وہ اس درجے کا لطف کبھی نہیں اٹھا سکتا جو صدہا مصائب اور رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد ملنے پر نصیب ہوتا ہے۔ شاعر کا معاملہ بھی یہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس کی راہ ظالم سماج نہیں مارتا بلکہ قواعدِ فن اور عروضی پابندیاں اس کے پاؤں کی بیڑیاں بنتی ہیں۔ مگر جس قدر استقامت اور استقلال کے ساتھ وہ ان مزاحمتوں سے نمٹتا جاتا ہے اسی قدر اہتزاز تخلیق کے لمحوں میں اسے ارزانی ہوتا ہے۔
عملی نقطۂِ نگاہ سے دیکھا جائے تو شاید بات اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ عام آدمی کے مزاج میں فنکارانہ جوہر کا فقدان کم و بیش اسی قسم کے میکانکی طرزِ حیات کو جنم دیتا ہے جو ایک زاہدِ مرتاض کے ہاں تجرد کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ مگر فنکار اور عاشق کی زندگی ان مشینی رویوں کے برعکس ایک نامیاتی اور زندہ روش پر قائم رہتی ہے۔ یعنی ہر دو کے دل میں اکثر ایک تلاطم اور تموج ایسا برپا ہوتا رہتا ہے جو زندگی اور معاشرے کے جمود کا دشمن ہے۔
پھر یہ بھی طے ہے کہ جذبات کا مناسب نکاس انسان کی جسمانی سے لے کر روحانی صحت تک کا ضامن ہے۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ اظہارِ فن یا تخلیقِ فن کا سب سے بڑا وظیفہ ذاتی اور حیاتیاتی ہے۔ یعنی ہر بار سامنے نظر آتی ہوئی موت کا رخ موڑ کر فنکار کو ایک نئی زندگی بخشنا۔ دوسرے لفظوں میں، اگر تخلیقِ فن کے تمام راستے مسدود کر دیے جائیں تو یہ امر فنکار کے حق میں پیغامِ اجل کا حکم رکھتا ہے۔
گویا فنکار عاشق ہے اور فطرت معشوق۔ اور تخلیقِ فن عاشق و معشوق کے باہمی اختلاط کا عمل ہے۔ یہاں مجھے وہ پرانے لوگ یاد آ رہے ہیں جو یہ یقین رکھتے تھے کہ شاعروں کو شاعری کی دیوی الہام کے ذریعے سے تعلیم کرتی ہے۔ مجھے تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی بات میں بہرحال صداقت کا ایک بڑا عنصر موجود ہے۔ بلکہ ممکن ہے کہ وہ تخلیقی عمل کو کم و بیش اسی زاویے سے دیکھتے ہوں جس سے ہم آج اسے دیکھ رہے ہیں اور ان کی بات امتدادِ زمانہ کے سبب ہم تک پوری یا صحیح نہ پہنچ پائی ہو۔
 
آخری تدوین:

نوید ناظم

محفلین
بہت خوب!
جی اسی ضمن میں قبلہ واصف صاحب کا ایک پُر لطف جملہ یاد آیا، فرمایا۔۔۔۔" شاعر صرف جاگتا ہے، باقی کام رات خود کرتی ہے"
 

محمد وارث

لائبریرین
جب ایک شاعر غزل کہتا ہے تو اس سے کچھ پہلے اس کی طبیعت میں ایک بےچینی پیدا ہو جاتی ہے جو رفتہ رفتہ بڑھتی جاتی ہے۔ یہ کیفیت اپنے اندر اسی قسم کا اضطرار رکھتی ہے جس طرح کا ایک مرد اپنی محبوبہ کی یاد آنے پر محسوس کرتا ہے۔

اس کے دل و دماغ میں ایک ہیجان برپا ہوتا ہے۔ وہ بھی اس ہیجان سے ایک وابستگی اور کشش محسوس کرتا ہے جو اسے بےبس کر ڈالتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ وقت آ جاتا ہے کہ یہ اضطراب اپنے عروج کو جا پہنچتا ہے
دریدہ دہنی معاف حضور، لیکن آپ کے انتہائی سنجیدہ مضمون کو پڑھتے ہوئے درج بالا سطریں پڑھ کر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ :)

استاد داغ دہلوی اپنے شاگردوں میں بیٹھے اسی طرح کے کسی موضوع پر بات کر رہے تھے کہ ایک شاگرد فرمانے لگے:

اُستادِ محترم، مجھ سے تو بہت مشکل سے شعر بن پاتا ہے .کبھی حقہ پیتا ہوں، کبھی پلنگ پر کروٹیں بدلتا ہوں،کبھی بیٹھتا ہوں،کبھی اٹھتا ہوں، کبھی طبیعت پر زور ڈالتا ہوں تب جا کر کہیں ایک شعر ہوتا ہے۔

داغ مسکرا کر بولے، معاف کیجیے گا صاحب۔ "آپ شعر کہتے ہیں یا شعر جنتے ہیں"۔ :)
 

لاریب مرزا

محفلین
مضمون پڑھ کے ان عاشقوں سے ہمدردی ہو رہی ہے جو محبوبہ کی یاد آنے پر کاغذ قلم تو تھام لیں، لیکن ان کو عروض اور بحور نہ آتے ہوں۔ :)
 
دریدہ دہنی معاف حضور، لیکن آپ کے انتہائی سنجیدہ مضمون کو پڑھتے ہوئے درج بالا سطریں پڑھ کر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ :)

استاد داغ دہلوی اپنے شاگردوں میں بیٹھے اسی طرح کے کسی موضوع پر بات کر رہے تھے کہ ایک شاگرد فرمانے لگے:

اُستادِ محترم، مجھ سے تو بہت مشکل سے شعر بن پاتا ہے .کبھی حقہ پیتا ہوں، کبھی پلنگ پر کروٹیں بدلتا ہوں،کبھی بیٹھتا ہوں،کبھی اٹھتا ہوں، کبھی طبیعت پر زور ڈالتا ہوں تب جا کر کہیں ایک شعر ہوتا ہے۔

داغ مسکرا کر بولے، معاف کیجیے گا صاحب۔ "آپ شعر کہتے ہیں یا شعر جنتے ہیں"۔ :)
بجا فرمایا۔
آپ جانتے ہی ہوں گے کہ اس خیال کو ایک باقاعدہ نظریے کی حیثیت بھی حاصل ہے اور تخلیقی عمل کو بچہ جننے کے مماثل قرار دیا جاتا ہے۔ بلکہ غالباً تخلیق اور اس قبیل کے الفاظ خود بھی اسی نقطۂِ نظر سے یادگار ہیں۔ مجھے اختلاف بھی اسی سے ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ فنکار تخلیقی عمل کے دوران میں زچہ کی طرح کرب کی انتہا کو نہیں چھوتا بلکہ ایک تسکین اور تزکیہ کا سا خمار محسوس کرتا ہے جو دراصل جنسی عمل کے مشابہ ہے۔ گویا محولہ رائے کے مطابق ہیجان عملِ تخلیق میں عروج کو پہنچتا ہے جبکہ میرے خیال میں یہ انتہا تخلیقِ فن سے پیشتر چھو لی جاتی ہے اور تخلیق اس کرب کا مداوا کرتی ہے نہ کہ اس میں اضافہ۔
 

ربیع م

محفلین
مضمون پڑھ کے ان عاشقوں سے ہمدردی ہو رہی ہے جو محبوبہ کی یاد آنے پر کاغذ قلم تو تھام لیں، لیکن ان کو عروض اور بحور نہ آتے ہوں۔ :)
ان عروض و بحور سے ناواقف لوگوں سے ہمدردی کے بجائے ان سامعین سے ہمدردی کرنی چاہئے جنہیں مجبوراً وہ ملغوبہ سننا پڑے کیونکہ جب عاشق کے ہاتھ میں قلم آ جائے پھر رکتا تھوڑی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بجا فرمایا۔
آپ جانتے ہی ہوں گے کہ اس خیال کو ایک باقاعدہ نظریے کی حیثیت بھی حاصل ہے اور تخلیقی عمل کو بچہ جننے کے مماثل قرار دیا جاتا ہے۔ بلکہ غالباً تخلیق اور اس قبیل کے الفاظ خود بھی اسی نقطۂِ نظر سے یادگار ہیں۔ مجھے اختلاف بھی اسی سے ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ فنکار تخلیقی عمل کے دوران میں زچہ کی طرح کرب کی انتہا کو نہیں چھوتا بلکہ ایک تسکین اور تزکیہ کا سا خمار محسوس کرتا ہے جو دراصل جنسی عمل کے مشابہ ہے۔ گویا محولہ رائے کے مطابق ہیجان عملِ تخلیق میں عروج کو پہنچتا ہے جبکہ میرے خیال میں یہ انتہا تخلیقِ فن سے پیشتر چھو لی جاتی ہے اور تخلیق اس کرب کا مداوا کرتی ہے نہ کہ اس میں اضافہ۔
لیکن اب میں اور آپ اس عمل سے کماحقہ واقف نہیں ہو سکتے کہ بچہ جننا فقط کرب ہی کرب ہے یا اس میں کسی قسم کی کوئی تسکین یا تکمیل کا فخر بھی شامل ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مضمون پڑھ کے ان عاشقوں سے ہمدردی ہو رہی ہے جو محبوبہ کی یاد آنے پر کاغذ قلم تو تھام لیں، لیکن ان کو عروض اور بحور نہ آتے ہوں۔ :)
تو کیا آپ کے خیال میں صرف ان بحور و قوافی کی اڑچن سے عاشق لوگ رُک جاتے ہیں، حاشا و کلا :)
 
مضمون پر رائے کے لیے رسید اور صاحبِ مضمون کے لیے زبردست کا ٹیکہ حاضر ہے۔
تو کیا آپ کے خیال میں صرف ان بحور و قوافی کی اڑچن سے عاشق لوگ رُک جاتے ہیں، حاشا و کلا :)
لاریب بہن غالباً فیس بک استعمال نہیں کرتیں۔ :)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
زجاج کو حریف سنگ بننے کے مرحلہ ہائے شوق طے کرنے کی کیفیا ت کا ایسا ۔ ایکسپلسٹ :) ۔بیان پڑھ کر ان کیفیات کااعادہ ہوا جو آزاد کی نیرنگ خیال کا لطف لیتے ہوئے وارد ہوا کرتی تھیں ۔
 
زجاج کو حریف سنگ بننے کے مرحلہ ہائے شوق طے کرنے کی کیفیا ت کا ایسا ۔ ایکسپلسٹ :) ۔بیان پڑھ کر ان کیفیات کااعادہ ہوا جو آزاد کی نیرنگ خیال کا لطف لیتے ہوئے وارد ہوا کرتی تھیں ۔
یہ جملہ تین چار بار پڑھنے کے بعد سمجھ آیا۔
 
زجاج کو حریف سنگ بننے کے مرحلہ ہائے شوق طے کرنے کی کیفیا ت کا ایسا ۔ ایکسپلسٹ :) ۔بیان پڑھ کر ان کیفیات کااعادہ ہوا جو آزاد کی نیرنگ خیال کا لطف لیتے ہوئے وارد ہوا کرتی تھیں ۔
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ :)
قبلہ، صاف صاف بتائیں یہ ہجوِ ملیح تو نہیں ہے؟ :eek::eek::eek:
 

اے خان

محفلین
مضمون پڑھ تھوڑی دیر کے لیے خود کو بہت غمزدہ کیا لیکن افسوس ایک شعر بھی نہیں بن پایا.
ویسے یہ شاعر حضرات سچ میں غمزدہ غمزدہ رہتے ہیں. راتوں کو جاگ کر شعر لکھتے ہیں. اور یہاں تک سنا ہے کہ موسم بہار میں تو کچھ شاعر پاگل ہوجاتے ہیں.
 

محمد وارث

لائبریرین
مضمون پڑھ تھوڑی دیر کے لیے خود کو بہت غمزدہ کیا لیکن افسوس ایک شعر بھی نہیں بن پایا.
ویسے یہ شاعر حضرات سچ میں غمزدہ غمزدہ رہتے ہیں. راتوں کو جاگ کر شعر لکھتے ہیں. اور یہاں تک سنا ہے کہ موسم بہار میں تو کچھ شاعر پاگل ہوجاتے ہیں.
پس ثابت ہوا کہ صرف غمزدہ غمزدہ رہنے، راتوں کو جاگنے اور موسمِ بہار میں پاگل ہو جانے سے کوئی شاعر نہیں بن جاتا :)
 

محمد وارث

لائبریرین
تو پھر اپنے اشعار میں یہ کیفیات کیسے بیان کرتا ہے.؟
یہ شاعر کا فن ہوتا ہے۔ شاعر بھی ایک فن کار ہوتا ہے، اپنی کیفیات کو اس طرح بیان کر دینا کہ پڑھنے والا بھی یہی سمجھے کہ میری کیفیات ہیں، یہی اس کا فن ہے :)
 

آصف اثر

معطل
ویسے یہ شاعر حضرات سچ میں غمزدہ غمزدہ رہتے ہیں. راتوں کو جاگ کر شعر لکھتے ہیں. اور یہاں تک سنا ہے کہ موسم بہار میں تو کچھ شاعر پاگل ہوجاتے ہیں.
پہلے دو سے تو دوچار ہوئے (عاشق مزاج شاعر اگرچہ ہر دو کے مستقل شکار رہتے ہیں) البتہ تیسری ”سزا“ ابھی تک بھگتی نہیں ہے۔
 
Top