بہت خوب یہ ہماری بہت پسندیدہ شخصیت ۔۔۔تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے ہم شہزادی زیب النساء اور مہر النساء ( ملکہ نورجہاں ) کے بہت بڑے فین ہیں ۔۔۔
اورنگ زیب کے زیر عتاب آنے کے باوجود اس عہد کے خواص کے دل میں شہزادی زیب النساء کے درجات جس قدر بلند تھے اس کا اندازہ ان القابات سے لگایا جاسکتا ہے جو محمد نقش بند ثانی نے اپنے خطوط میں لکھے ہیں۔ وہ اسے ’’صاحبۂ عالم… عالی تبارا… رفیع القدرا… عزیزۂ من… فاطمۂ زماں…‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ ان چند خطوط میں زیب النساء بیگم بادشاہ زادی دختربادشاہ اورنگ زیب کے ان سوالات کا جواب دیا گیا ہے جو اس نے دربیان مدحِ دردوغم دریافت کیے تھے۔
یہ ایک المناک بات ہے کہ ایرانی اس کی شاعری پر نازکرتے ہیں اور اسے فخرِ ایران قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح افغانیوں سے اس کا تذکرہ ہوتو وہ اسے رابعہ بلخی کے بعد دری کی سب سے بڑی شاعرہ کہتے ہیں، اس کا کلام سرپر رکھ کر پھرتے ہیں لیکن ہندوستان جہاں وہ پیدا ہوئی، جہاں وہ ’’پادشاہ بیگم‘‘ کہلائی‘ وہاں اس کے باپ کے عہد کے اکثر وقایع نگار اس کے شاعر ہونے سے ہی انکاری ہیں۔ وہ اس کی شاعرانہ محفلوں کا ذکرکرتے ہیں۔اس کی کنیز ارادت فہم کے ہاتھوں اس کی بیاض حوض میں گرجانے کا ذکر ہر تذکرے میں موجود ہے۔ اس کے کہے ہوئے فی البدیہہ اشعار بھی لکھ دیتے ہیں، لیکن اردو میں شایع ہونے والے تذکروں میں بہ اصرار اور بہ تکرار یہی لکھا ہے کہ:
’’عام طور پر مشہور ہے کہ وہ مخفی تخلص کرتی تھی اور دیوان مخفی جو چھپ کر شایع ہوا ہے، اسی کا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ کسی تاریخ یا تذکرے میں اس کے تخلص یا دیوان کا ذکر نہیں۔ مولوی آزاد ’’یدبیضا‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ ایں دوبیت از نامِ اُو مسموع شدہ‘‘ پھر دو شعر نقل کیے ہیں۔ دیوان ہوتا تو صرف دو شعرکا ذکر کیوں کرتے۔‘‘ یوں اس بادشاہ زادی کی شاعری کا کام تمام کیا گیا اورکیوں نہ کیا جاتا کہ اورنگ زیب ایسے متشرع اور متدین بادشاہ کی بیٹی کے اس ’’گناہ‘‘ پر اسی طرح پردہ ڈالا جاسکتا تھا۔
سلیم گڑھ کے زنداں میں زیب النساء کی زندگی کے بیس برس گزارے اوروہ کبھی اپنے باپ سے معافی کی طلبگار نہیں ہوئی اور نہ اس سے کسی طرح کی مہربانی کی درخواست کی۔ 1702میں جب وہ دنیا سے رخصت ہوئی تو متشرع اور متدین شہنشاہ کو اطلاع بھیجی گئی تب اسے یاد آیا کہ اس کی ایک بیٹی بھی تھی جو 63 برس کی ہوچکی تھی اور جس کی نظر بندی پر 20 برس گزر چکے تھے۔ اس نے زیب النساء کے لیے دعائے مغفرت کی‘ اس کے نام پر خیرات کا حکم ہوا۔ اینی کری نیکی فرانسیسی مستشرق خاتون نے لکھا ہے کہ شاعروں نے اس کا مرثیہ نہیں لکھا، وہ جانتے تھے کہ شہنشاہ کے قیدیوں کی موت پر مرثیہ لکھنا جرم ہے۔ ۔۔۔۔افسوس صد افسوس