فرحان محمد خان
محفلین
تذکرہ ساقی کا جس میں ہو، نہ پیمانے کا نام
کوئی کیا رکھے گا ایسے خشک افسانے کا نام
گرد لوگوں نے کدورت کی اڑائی جس قدر
اور بھی چمکا جہاں میں تیرے دیو انے کا نام
وہ مَسل کر بھیجتا ہے پھول میرے واسطے
ذکر کرتا ہے مرا وہ لے کے بیگانے کا نام
تشنگی کے زخم جل اٹھتے ہیں جب احساس میں
گھول کر پانی میں پی لیتا ہوں میخانے کا نام
خیر ہو اے ملتِ نو تیرے حسنِ فکر کی
رکھ دیا تہذیب تو نے ناچنے، گانے کا نام
نازؔ تم پہ بھی عیاں ہیں دوستوں کی نیتیں
مفت میں بدنام کیوں کرتے ہو بیگانے کا نام
نازؔ خیالوی
آخری تدوین: