تذکرہ محسن بھوپالی کا (خاورچودھری)

خاورچودھری

محفلین
تزکرہ محسن بھوپالی کا


میں اپنا شعری مجموعہ”ٹھنڈاسورج“ترتیب دے رہاتھا۔چاہتاتھاکہ اس مجموعے میں کسی نام ورادیب کی رائے شامل کروں ۔ ادبی رسالہ”تجدیدنو“کی مدیرہ محترمہ آپا عذرا اصغرصا حبہ کوفون کرکے اس حوالے سے مشورہ مانگاتوانھوں نے بلاتاخیردونام گنوائے۔پہلانام محسن بھوپالی صاحب کاتھااوردوسراجناب انورسدیدکا ۔پھرمیں نے فیصلہ کیاکہ ان دونوں شخصیات میں سے کسی ایک کاانتخاب کر لیا جائے ۔ بہت سوچنے کے بعداول الذکرپرسوئی آٹکی۔ یہ جنوری 2004ء ء کاکوئی یخ بستہ دن تھا۔میں نے کمپوزشدہ مسودہ کی ایک اہتمام سے جلدبندھوائی اور اپنا مختصر تعارف لکھ کرمحسن صاحب کی خدمت میں روانہ کردیا۔مجھے اُس وقت سخت حیرت ہوئی جب مجھے محسن صاحب کاجوابی خط موصول ہوا۔ انھوں نے کمال محبت سے لکھاکہ وہ”ٹھنڈاسورج“ پر ضرور رائے دیں گے۔میں اسی وقت انھیں شکریہ کاخط لکھنے بیٹھ گیا۔مہینہ بھرگزر گیا تھامگراُن کی طرف خاموشی تھی پھراچانک ایک روزان کاخط آیاجس نے ان کی بیماری کی بدخبری دی۔محسن صاحب نے لکھاتھاکہ اگرمجھے کتاب کی اشاعت میں جلدی ہے توکسی اورسے رائے لے لوں۔ تب میں نے کہامجھے کوئی جلدی نہیں دیباچہ آپ ہی لکھیں گے اورجب تک میں انتظار کر لوں گا۔
مارچ 2004ءء کے پہلے ہفتہ میں اپنے نام محسن صاحب کاپیکٹ پاکربہت مسرورہوا۔ ٹھنڈا سورج پررائے اپنی جگہ میرے لیے اہم توتھی ہی اس پرلطف انھوں نے اپنی دو کتابیں بھیج کر کیا۔ بغیرکسی تعارف اورتعلق کے ان کی طرف سے برتی گئی محبت مجھے ان کاگرویدہ بنا گئی ۔ یوں ان سے میرادلی واسطہ قائم ہوگیا۔میں اپنی ادارت میں شائع ہونے والے اخبار’ ’تیسرارُخ“ کا ادبی صفحہ ہفتہ واربھجوانے لگا اور وہ ہرباراپنی گراں قدررائے سے نوازتے رہے۔اس ہفتہ وار اخبار کے لیے جب میں نے ملک میں موجود سینئر لکھنے والوں کے انٹرویوزکاسلسلہ شروع کیاتوان سے بھی درخواست کی۔مگران کی بیماری ہمیشہ آڑے آتی رہی۔میری ہزارخواہش کے باوجودان کا انٹرویو تیسرارخ میں نہ چھپ سکا۔ یوں میرے افسوس کی کیفیت دوگناہوگئی۔مجھے مرحوم اشفاق احمد کا انٹرویولینے کابھی شوق تھااورمیں اس میں بھی ناکام ہو چکا تھا ۔ اخبارکی مصروفیات میں ٹھنڈاسورج کی اشاعت کا منصوبہ پسِ پشت ہوتاگیااوراُدھربھوپالی صاحب اپنے ہردوسرے خط میں اس کی اشاعت کے حوالے سے پوچھتے۔ میں ہرباریہی کہتابس ابھی اسے اشاعت کے لیے دیتے ہیں اورپھر اخبار میں اُلجھ جاتا۔محسن صاحب کی مسلسل”پوچھ گچھ “کے نتیجہ میں کتاب چھپنے کے لیے پریس میں دے دی گئی۔یہاں ظلم یہ ہواکہ پرنٹرنے کمپوزشدہ مسودہ اورٹائٹل(جسے ملک کی معروف مصورہ و ا دیبہ مسزشبہ طرازنے انتہائی خلوص سے بنایاتھا)ضائع کردیے۔یوں ایک بار پھر اس حوالے سے رکاوٹ آگئی۔اب جب بھی محسن صاحب کاخط آتامیں شرمندہ ہوجاتا۔مجھے اعتراف ہے کہ ٹھنڈاسورج کی اشاعت کی تیزترتحریک جناب محسن بھوپالی کے خطوط سے ہی ہوئی۔ یوں جنوری 2006ءء میں یہ کتاب چھپ کرآگئی۔جب کتاب انھیں بھجوائی گئی توان کا محبت اور خوشی سے لبریزخط سامنے پاکرساری تھکاوٹ اتر گئی ۔اگلے چنددنوں میں انھوں نے کچھ کتابیں مجھ سے منگواکرمختلف رسائل،ریڈیو،ٹیلی ویژن اوراخبارات کوبھجوائیں۔اس طرح میرا اورمیری کتاب کاتعارف ہوا۔انھوں نے لاہور کے معتبرادبی رسالے”ادب لطیف “ میں ”ٹھنڈاسورج“پربھرپورمضمون بھی لکھا۔مجھے حیرت انگیزخوشی اس وقت ہوتی جب وہ ٹھنڈاسورج پر چھپا ہوا تبصرہ ارسال فرماتے۔محسن بھوپالی صاحب کی محبت سے یہ کتاب کئی ادب شناسوں تک پہنچی۔ کبھی کبھی اس حوالے سے مجھے اپنی کاہلی اور لاپروائی پرندامت بھی ہوتی تھی۔۔ مگر اُس طرف سے کبھی کوئی ایساموقع نہیں پیداہوا۔میں سوچتاتھاان کایہ الطاف میرے لیے ہی خاص ہے مگر ہرہرنوواردنے ان سے والہانہ محبت کااظہارکیا۔گویاوہ ایک خوش بوکی مثال سب کے لیے اپنا من وارکھتے۔ مگر آج … آج وہ ہم میں نہیں ہیں۔ محبتیں بانٹنے والا،نئے لوگوں کوراہ دکھانے والا، حوصلہ افزائی کرنے والامحسن بھوپالی اس دنیاسے رخصت ہوگیاہے۔وہ ادب کی قدیم اورجدید تاریخ کاانوکھااوراکلوتامسافرتھا۔اُس نے روایت کوبھی نبھایااورجدت کوبھی اختیارکیا۔مغربی ادب کے تراجم بھی کیے اورجاپانی اصناف ہائیکو اور واکا بھی متعارف کروائے۔ نہ صرف خودان اصناف کوبرتابل کہ کئی لوگوں کواس جانب لانے والے وہی ہیں۔کراچی میں جاپانی سفارت خانے میں ہائیکوکے مشاعرے برپا کرنے میں ان کابہت بڑاحصہ ہوتاتھا۔ اب شاید ہائیکو اور ”واکا“کے لیے کوئی اتنی بلندآوازنہیں اُٹھاپائے گا۔محسن صاحب کی رحلت سے میرے لیے ادبی تحریک کاایک دروازہ بند ہوگیا ہے۔جس کامجھے بہت صدمہ ہے۔کراچی میں مقیم ایک دوست نے جب اس سانحہ کی خبردی توبے اختیارآنکھوں سے آنسوبہہ نکلے۔زندگی کے حوالے سے انھوں نے بہت پہلے کہاتھا:
زیست ہمسائے سے مانگا ہوا زیور تو نہیں
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کھو جانے کا
محسن بھوپالی صاحب کاخاندانی نام عبدالرحمان تھا۔وہ29ستمبر1932ءء کوبھوپال سے متصل ضلع ہوشنگ آبادکے قصبہ سہاگ پور میں پیداہوئے تھے۔مرحو م کے والد گرامی حاجی محمد عبدالرزاق محکمہ ڈاک وتارمیں ملازم تھے ۔اس لیے ان کاقرب وجوارمیں تبادلہ ہوتا رہتا تھا ۔ یوں محسن صاحب بھی ان علاقوں سے واقف ہوتے گئے۔مرحوم نے ابتدائی تعلیم حبیبیہ مڈل اسکول اور الیگزینڈرہائی اسکول بھوپال سے حاصل کی ۔ستمبر1947ءء میں پاکستان ہجرت کرآئے اور لاڑکانہ میں سکونت اختیارکرلی۔1951ءء میں گورنمنٹ ہائی اسکول لاڑکانہ سے میٹرک کیا۔ 1954ءء میں گورنمنٹ کالج لاڑکانہ سے انٹرکیا۔سہ سالہ ڈپلومہ انجینئرنگ این ای ڈی انجینئرنگ سے1957ءء میں کیا۔ایم اے اُردو جامعہ کراچی سے 1979ءء میں کیا۔ان کی اس رسمی تعلیم کے ساتھ ملازمت کاسلسلہ بھی جاری رہا۔وہ1952ءء میں ہی اوورسےئرکی حیثیت سے محکمہ تعمیرات سندھ سے وابستہ ہوگئے تھے اورپھربہ حیثیت ایگزیکٹوانجینئر28جولائی 1993ء ئکو ریٹائر ہوئے۔ محسن صاحب کاادبی سفرپاکستان آنے سے پہلے شروع ہوچکاتھاتاہم 1948ءء میں ساحر عباسی کے رسالے”بربط“کراچی میں ان کی پہلی غزل شائع ہوئی۔ محسن صاحب کاسیاسی شعور بہت پختہ تھا۔ 1954ءء میں ملک کاسیاسی ماحول دیکھاتوکہہ اُٹھے:
نیرنگئی سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
ان کایہ شعرضرب المثل بن گیا۔1956ءء میں پیرعلی محمدراشدی نے اسے قومی اسمبلی میں پڑھا اور ملک کے تمام اخبارات میں شائع ہوا۔اس سے اگلے دوسال کے دوران سردار عبدالرب نشتر نے یہ شعراس قت پڑھاجب ری پبلکن پارٹی کے ڈاکٹرخان نے مغربی پاکستان کابینہ تشکیل دی تھی ۔ اور اب یہ شعرہرکوئی اپنے مقاصدکے لیے استعمال کرتاہے۔محسن صاحب کی زندگی کا ایک دل چسپ واقعہ یہ بھی ہے جب1962ءء میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کامشاعرہ ہورہاتھامرحوم حیدر آباد سے بلائے گئے تھے۔حبیب انصاری سیکرٹری انجمن ترقی ارود مشرقی پاکستان ان کے برابربیٹھے ہوئے شعرا کولفافے دے رہے تھے توانھوں نے ایک شاعر سے پوچھاکہ اس میں کیاہے۔اُس شاعر نے انتہائی لاپروائی سے جواب دیاڈھاکہ میں مشاعرہ ہورہاہے اوریہ ہوائی جہازکاٹکٹ ہے۔ یہ سن کرمحسن صاحب توگویالال پیلے ہوگئے۔اُردونیوزجدہ کی بدھ 14 جون1995ءء کی اشاعت میں اس حوالے سے اپنی زبانی یوں کہا ”میں نے سوچایااللہ یہ کیااندھیرہے!جن کی شاعرانہ حیثیت مشکوک ہے وہ بلائے جارہے ہیں اورہم نظراندازہورہے ہیں۔خیر۔۔۔جب مشاعرہ پڑھاتوٹکٹ تقسیم کرنے والے صاحب میرے پاس آئے اورنام پتہ لکھ لیا۔بعدمیں اس مشاعرہ میں،میں بھی شریک ہوا۔“محسن صاحب صحافت سے بھی وابستہ رہے۔انجمن کے نام سے جنگ میں ادبی کالم لکھتے رہے۔مختلف اداروں کی طرف سے اعزازت اورتعارفی اسنادحاصل کیں۔ لگ بھگ بیس کتابیں تصنیف کیں اورسات درجن سے زایدکتابوں کے دیباچے یاپیش لفظ لکھے۔”نظمانہ“ کے نام سے انھوں نے ادبی صنف متعارف کرائی ۔اسی صنف کاایک نظمانہ دیکھیے جس کاعنوان”نئی پود“ہے
سلمیٰ۔۔۔۔۔میں توٹونی کو
کہتے کہتے ہارگیاہوں۔۔۔۔تم بھی کوشش کردیکھو
بیٹااپنی مرضی سے گرشادی کی تو
دودھ نہ بخشوں گی
۔۔۔۔۔ ممی وہ کیاہوتاہے؟
محسن صاحب کے حوالے سے علامہ نیازفتح پوری نے1962ءء میں کہاتھا”محسن بھوپالی کے ہاں شعرمحض فن نہیں بل کہ اشارئہ صداقت بھی ہے۔“نام ورنقادڈاکٹرسلیم اختر نے 1975ءء میں کہاتھا”محسن تلخ طنزکاشاعرہے اوریہ اچھاہی ہے کہ اس تلخی سے قاری کتھارسس کرتا ہے۔“ مرحوم احمدندیم قاسمی یوں گویاہوئے”یہ اعزازصرف محسن بھوپالی کاہے کہ انھوں نے مختصرنظم کے امکانات کواتنی ناقابل یقین وسعتیں دی ہیں۔“بہ قول انورسدید”محسن بھوپالی جب بھوپال سے روانہ ہواتواس کے کاندھوں پرغزل کاپھٹاہوالبادہ تھااورمنزل دشوار تھی لیکن جب وہ کراچی میں واردہواتواس کاذہن نئے جذبے سے معمورتھااورآنکھوں میں مستقبل سے ٹکرانے کا عزم۔ کچھ عرصے اس نے غزل کی وادی کی خراماں خراماں سیرکی اور پھر قطعے کے چھوٹے سے قصر میں داخل ہوگیا۔“سحرانصاری صاحب نے کہا”محسن کاطنزبہت تیکھا، تیز اور متاثرکن ہوتاہے اور خاص بات یہ ہے کہ ان کے طنزمیں تلخی یازہرناکی نہیں ہوتی۔“ محسن بھوپالی صاحب خوش قسمت تھے کہ انھیں پروفیسر سحر انصاری، سلطان جمیل نسیم،حسن ظہیر،شوکت عابدی جیسی شخصیات کاساتھ حاصل تھا۔ان تمام کے درمیان گہری اورانمٹ محبت تھی۔مگرآج ان کا ساتھ سب سے چھوٹ چکا ہے وہ جوکہتاتھا:
تمھیں آسائشِ منزل مبارک
ہمیں گردِ مسافت ہی بہت ہے
آخری منز ل کوروانہ ہوچکاہے۔زندگی کی فریب اورکھردراہٹ سے پوری طرح واقف اوراس کے گدازپن اورحقیقتیں کاشناسایوں کہہ گیا:
ایک لمحے کو معطل نہیں تپنے کا عمل
زندگی جلتے دیے پر ہے ہتھیلی کی طرح

جو بوالہوس کے تصرف میں لالہ زار آئے
بتاوٴ اہل چمن کیسے پھر بہار آئے

ہزاروں دیپ جلا کر جو آپ بجھ جائے
ہم اس چراغ کے بجھنے کا غم نہیں کرتے
یقینامحسن صاحب نے ہزاروں چراغ جلائے ہیں جن کی لوہمیشہ ان کی یاددلاتی رہے گی۔محسن صاحب75برس کی عمرمیں رخصت ہوگئے ہیں اور بیوہ،چاربیٹوں اوردوبیٹیوں سمیت ہزاروں چاہنے والوں کواپنے لیے آنسوبہانے والوں میں شامل کرگئے ہیں۔جب تک یہ سطریں شائع ہوں گی وہ منوں مٹی اوڑھ چکے ہوں گے۔محبتیں لٹانے والے اس شخص کی قبرپراللہ رحمت کرے۔



(روزنامہ”اسلام“19جنوری2007ء)
 

فر حان

محفلین
واہ صاحب خوب لکھا ہے محسن بھوپالی جیسے شاعر بہت کم ہوتے ہیں میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جس نے محسن صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ہے کوئی 7 سال قبل ڈیفنس کراچی کے ایک آفس میں آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا گرچے وہ وہاں کسی اور سے ملاقات کے ارادے سے تشریف لائے تھے پر میں نے مصافحے کے فورا بعد ان کا ایک شعر سنا دیا بڑے تعجب سے انہوں نے مجھے دیکھا پھر فرمایا تم شعری پڑہتے ہو میں نے کہا ہاں کہنے لگے مجھے کہاں پڑھا ہے میں نے بتایا کے انٹرنیٹ پر کافی سائیٹس پر آپ کا کلام موجود ہے پھر فرمانے لگے اچھا مجھے بتاو کون کون سی سائیٹس پر میں نے ان کو دو تین سائیٹس کا حوالہ دیا تو خود کہنے لگے ہاں میں نے ان کو خود حقوق دئیے ہیں بحرحال میری 15 سے 20 منٹ کی ملاقات ہی کیا تھی میں نے ان کو ایک مکمل انسان پایا بات کا انداز سنے کا انداز واہ ان دنوں آپ کی طبیعت اتنی اچھی نہ تھی اور گلے میں شدید تکلیف تھی پھر بھی میرے اصرار پر انہوں نے دو مصرے مجھے سنائے اور میری پیٹ تھپ تھپا کر آگے چلے گئے میری دعا ہے اللہ ان کو اپنے جوارے رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین۔
 

خاورچودھری

محفلین
جناب آپ خوش نصیب ہیں‌جو اتنے بڑے آدمی سے ملاقات کر بیٹھے۔۔۔۔۔ایسے لوگوں کو دیکھ اور سن لیا بھی خوش بختی ہے
 

باذوق

محفلین
خاور چودھری صاحب ، بلاشبہ آپ نے عمدہ خراج تحسین پیش کیا ہے۔
محسن بھوپالی صاحب سے میری ملاقات ایک مشہور ادارے کے دفتر میں (جہاں وہ جزوقتی کام کیا کرتے تھے) آج سے کوئی آٹھ دس سال قبل اس وقت ہوئی تھی جب میں ان کے کلام سے زیادہ واقف نہ تھا، لہذا ملاقات بھی سرسری رہی۔ بعد کے دور میں جب میں‌ نے انہیں پڑھنا شروع کیا تو افسوس ہوا کہ کس قدر معروف و مقبول شاعر سے یادگار ملاقات کے موقع پر بھی میں نے ان کا آٹوگراف لینا فراموش کر دیا۔ مزید افسوس کہ اس پہلی ملاقات کے بعد دوسری ملاقات کا موقع ہی نہیں آیا اور وہ اس جہاں سے رخصت ہو گئے انا للہ وانا الیہ راجعون
 
Top