تربت کہاں لوحِ سرِ تربت بھی نہیں ہے
اب تو تمھیں پھولوں کی ضرورت بھی نہیںہے
وعدہ تھا یہیں کا جہاں فرصت بھی نہیں ہے
اب آگے کوئی اور قیامت بھی نہیں ہے
اظہارِ محبّت پہ بُرا مان گئے وہ
اب قابلِ اظہار محبّت بھی نہیں ہے
کس سے تمھیں تشبیہہ دوں یہ سوچ رہا ہوں
ایسی تو جہاں میں کوئی صوُرت بھی نہیں ہے
تم میری عیادت کے لئے کیوں نہیں آتے
اب تو مجھے تم سے یہ شکایت بھی نہیں ہے
اچھا مجھے منظور قیامت کا بھی وعدہ
اچھا کوئی اب دور قیامت بھی نہیں ہے
باتیں یہ حسینوں کی سمجھتا ہے قمر خوب
نفرت وہ جسے کہتے ہیں نفرت بھی نہیں ہے
استاد قمر جلالوی
رشکِ قمر ۔
اب تو تمھیں پھولوں کی ضرورت بھی نہیںہے
وعدہ تھا یہیں کا جہاں فرصت بھی نہیں ہے
اب آگے کوئی اور قیامت بھی نہیں ہے
اظہارِ محبّت پہ بُرا مان گئے وہ
اب قابلِ اظہار محبّت بھی نہیں ہے
کس سے تمھیں تشبیہہ دوں یہ سوچ رہا ہوں
ایسی تو جہاں میں کوئی صوُرت بھی نہیں ہے
تم میری عیادت کے لئے کیوں نہیں آتے
اب تو مجھے تم سے یہ شکایت بھی نہیں ہے
اچھا مجھے منظور قیامت کا بھی وعدہ
اچھا کوئی اب دور قیامت بھی نہیں ہے
باتیں یہ حسینوں کی سمجھتا ہے قمر خوب
نفرت وہ جسے کہتے ہیں نفرت بھی نہیں ہے
استاد قمر جلالوی
رشکِ قمر ۔