ترتیب

نوید ناظم

محفلین
کوئی بھی شے جب ترتیب میں آ جائے تو جاذبِ نظر ہو جاتی ہے۔ بے ترتیب بات میں معنی ہونے کے باوجود بھی لطف نہیں ہوتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شُعٙرا اپنے شعروں کو خوبصورت بنانے کے لیے کس طرح ترکیبیں استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ربط وہ رابطہ ہے جو زندگی کو خوب صورتی اور شائستگی کے ساتھ جوڑے رکھتا ہے۔ کوئی ترتیب جب ٹوٹتی ہے تو حادثہ کہلاتی ہے۔ نظامِ کائنات ایک ترتیب کے اندر اور ترتیب کےساتھ قائم ہے۔ ترتیب شدہ منظر، نظارہ کہلاتا ہے۔ زندگی جب ترتیب سے باہر نکلتی ہے تو تخریب میں داخل ہو جاتی یے اور یوں اس کا لطف اور ربط دونوں متاثر ہو جاتے ہیں۔ عناصر جب ظہور پذیر ہوتے ہیں تو زندگی جنم لیتی ہے اور جب بکھرتے ہیں تو زندگی کا شیرازہ بھی بکھرنے لگتا ہے۔ کسی ترتیب شدہ منظر کو دیکھنے سے جو کیفیت مُرتّب ہوتی ہے وہ دوسری کیفیات سے مختلف ہوتی ہے۔ اگر آپ کسی مسجد کے باہر جوتوں کو ترتیب کے ساتھ جُڑا ہوا دیکھ لیں تو اس سے آپ کی نماز کی کیفیت اور ہو سکتی ہے۔
مذاہب سے زندگی میں جو تبدیلیاں آتی ہیں ان میں سے ایک تبدیلی انسان کا ترتیب کو ماننا اور خود ترتیب کے اندر داخل ہونا بھی ہے۔ جس طرح چاند اور سورج اپنے مدار میں تیرتے ہیں اُسی طرح انسان اپنے مزاج میں تیرتا ہے، چاند، سورج، ستارے اپنی حد اور انسان اپنے قد سے باہر نہیں نکل سکتا، کیونکہ جب ایسا ہو تو ترتیب ٹوٹتی ہے اور ترتیب کا ٹوٹنا ہلاکت ہے۔ قیامت ہے۔
خیال میں ترتیب یکسوئی کے لیے مددگار ہے۔ لمحہ لمحہ بدلتا خیال عمل کو کمزور کر دیتا ہے۔ ایک انسان ایک جگہ جانے کا ارادہ کرتا ہے پھر کہتا ہے کہ دوسری جگہ چلتے ہیں اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ کہیں نہیں جانا چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے عمل ترتیب میں لانے سے ساری زندگی ترتیب میں آ جاتی ہے۔ انسان اپنے بستر کی سلوٹیں دور کرنا شروع کر دے تو اسی عمل سے زندگی کی گتھیاں سلجھنا شروع ہو سکتی ہیں۔ اصل میں کوئی عمل، عمل نہیں ہوتا بلکہ اپنے مزاج کا اظہار ہوتا ہے۔ پانی پینے کا مطلب ہے کہ انسان میں پیاس در آئی ہے۔ جب عمل کا مقصد معلوم نہ ہو تو اس عمل کا فائدہ ہو بھی تو کیا فائدہ۔
زندگی میں خوب صورتی کے لیے ترتیب کا ہونا ناگزیر ہے۔ انسانی چہرے ہی کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ترتیب سے کیسے حُسن پیدا ہوتا ہے۔ جس طرح ظاہر میں ترتیب متاثر ہونے سے حادثے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے اسی طرح باطن میں جب فکر، خیال اور نیّت کی ترتیب ادھر اُدھر ہونے لگے تو انسان اندر سے ٹوٹنا شروع ہو جاتا ہے۔ صبر کا دامن ہاتھ سے چلا جائے تو بندہ، بندر کی طرح اچھلنا کودنا شروع کر دیتا ہے۔ ہر شے سے گلہ اور بیزاری پیدا ہو جاتی ہے۔ دراصل اس جہان میں ہر شے کسی نہ کسی شے کے ساتھ ہی قائم ہے۔ ہر وجود کسی وجود سے جنم لیتا ہے اور جب ترتیب قائم نہ رہے تو وجود کا متاثر ہونا فطری ہے۔
ہمیں اپنے خیال اور عمل کو ترتیب میں قائم رکھنا ہو گا، اس سے ہم مضبوط رہیں گے۔ غم اپنے وقت پر آتا ہے اور اپنے وقت پر چلا جاتا ہے، اسی طرح خوشی اپنے وقت پر پیدا ہوتی ہے اور اپنے ہی وقت پر رخصت ہو جاتی ہے۔ کوئی شے جب ہمیشہ کے لیے ٹھہر جائے تو کیفیات کی ترتیب اُلٹ جاتی ہے اور پھر زندگی کا توازن قائم نہیں رہتا۔ انسان کو اپنی حسّیات پر قابو رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تا کہ زندگی میں توازن اور ترتیب قائم رہیں۔
 
Top