ترجیع بند در نوحہ سرائیِ وفاتِ جناب مرزا اسد اللہ خان غالب - مرزا قربان علی بیگ خان سالک

حسان خان

لائبریرین
ترجیع بند در نوحہ سرائیِ وفاتِ جناب استادی نجم الدولہ دبیر الملک میرزا اسد اللہ خان بہادر نظام جنگ غالب
شب کو اختر شمار ہونا تھا
روز آنکھوں میں تار ہونا تھا
اب کہاں گل فشانئ مضمون
خامہ حسرت نگار ہونا تھا
شب شبِ انتظار بننی تھی
روز روزِ شمار ہونا تھا
حشر برپا ہوا تو خوب ہوا
یہ بھی اے روزگار ہونا تھا
کیوں بر آئے میری کوئی امید
نا امیدی شعار ہونا تھا
نفسِ چند کیوں رہے باقی
دہر میں شرمسار ہونا تھا
ہر ستم میرے واسطے اے چرخ
خنجرِ آبدار ہونا تھا
تیغِ بیداد تیز ہونی تھی
اور مجھ پر ہی وار ہونا تھا
نغمہ سنجِ نشاط کیا ہونا
زیبِ لب بار بار ہونا تھا
رشکِ عرفی و فخرِ طالب مُرد
اسد اللہ خان غالب مُرد
اب نہیں ہوش میں رہا کوئی
کیا میرا حال پوچھتا کوئی
کوئی آزارِ چرخ کا گلہ مند
شاکئ بختِ نارسا کوئی
چشمِ تر سے ہے کوئی طوفاں خیز
ضبط سے ہے بھرا ہوا کوئی
ہے کسی کی فغاں شرر افشاں
سوزِ پنہاں سے جل گیا کوئی
جو نہ مانگے کبھی کوئی مہجور
لب پہ لاتا ہے وہ دعا کوئی
اپنے عالم میں مبتلا ہے جہاں
کوئی دشمن نہ آشنا کوئی
نہیں چھٹنے کے زندگانی تک
غم کی سمجھا نہ انتہا کوئی
راز اتنا تو کھول دے مجھ پر
نہیں اسرار داں ملا کوئی
اب یہ کیوں آسماں کو ہے گردش
فتنہ اس سے بھی ہے سوا کوئی
رشکِ عرفی و فخرِ طالب مُرد
اسد اللہ خان غالب مُرد
جس میں رہتا تھا ہائے جلوۂ یار
ہے وہی آنکھ غم سے طوفاں بار
تھا سکوں میں جو مرکزِ خاکی
نہیں اُس دل کو مثلِ برق قرار
جان لب پر کبھی نہ آئی تھی
اب لبوں سے بھی ہو گئی بیزار
اب وہ پیمانۂ حیات ہوا
زیبِ کف تھا جو ساغرِ سرشار
یک نفس زندگی محال ہوئی
کاش آساں ہو مردنِ دشوار
رات بدتر ہے روزِ ماتم سے
روزِ ظلمت میں غیرتِ شبِ تار
مرگ کا اب خدا سے طالب ہوں
پہلے کیا کیا تھی مانگنے میں عار
زہر کھانے میں خوف تھا کیا کیا
اب سمجھتا ہوں چارۂ آزار
سببِ گریہ پوچھتے ہیں لوگ
مجھ کو کہنا پڑا یہی ناچار
رشکِ عرفی و فخرِ طالب مُرد
اسد اللہ خان غالب مُرد
نہ کروں گا علاجِ دردِ جگر
زندگی موت سے نہیں بہتر
دلِ گم گشتہ کا کہوں کیا حال
کہ مجھے جان کی نہیں ہے خبر
سطحۂ خاک کی الٰہی خیر
آج رکتے نہیں ہیں دیدۂ تر
شمعِ بزمِ سخن کی خاموشی
دے گئی نالہ ہائے صور اثر
یہ کس آتش زباں کا مرنا آہ
کر گیا برق سے سوا مضطر
کشتِ امید ہو گئی تاراج
خرمنِ صبر پر چلی صرصر
نخلِ حرماں میں تازگی آئی
شجرِ آرزو ہوا بے بر
مجھ پہ سو بار حشر بھی گزرا
پر نہ اس حادثے سے تھا بڑھ کر
ہو گیا ہے مرا یہ تکیہ کلام
پہلے ہر بات سے یہ ہے لب پر
رشکِ عرفی و فخرِ طالب مُرد
اسد اللہ خان غالب مُرد
خضرِ راہِ سخن جہاں سے گیا
ہادئ راہ کارواں سے گیا
مرگ کا زندگی میں تھا کھٹکا
یہ بھی غم ہائے جاوداں سے گیا
شعلے ہر بات میں نکلتے ہیں
ضبط اب سوزشِ نہاں سے گیا
شکر ہے موت جلد اگر آ جائے
شکوہ اب مرگِ ناگہاں سے گیا
دہر ہے پر نہیں ہے رونقِ دہر
باعثِ زیبِ دہر یہاں سے گیا
گل ہیں لیکن نہیں بہارِ نظر
رنگ گویا کہ گلستاں سے گیا
دل ہے لیکن نہیں ہے دل کو قرار
صبر گویا کہ اپنی جاں سے گیا
خاک میں مل گیا عروجِ سخن
مہر معنی کے آسماں سے گیا
یاد ہے وہ عذوبتِ گفتار
اب سخن کا مزا زباں سے گیا
رشکِ عرفی و فخرِ طالب مُرد
اسد اللہ خان غالب مُرد
غمِ استاد ہے اگر یہ ہے
یا خدا کیونکہ زندگی ہوگی
مبتلائے الم ہوں کیا جانوں
عیش کیا شے ہے اور خوشی کیسی
دم بدم اپنے حال پر رونا
اور رونے پہ گاہ گاہ ہنسی
میں ہوں اور رنجِ بیکسی افسوس
وہ بھی دن تھے کہ خوش گزرتی تھی
ایک دن دہر میں مری فریاد
ہائے ہو جائے گی کہانی سی
آسماں گر پڑے تو گرنے دو
سر پر اک بوجھ اپنے یہ بھی سہی
شق اگر ہو تو زمیں ہو جائے
میں ہوں پیوند کاش جیتے جی
کیجئے نالہ اور مر رہئے
زندگی کی ہے کائنات یہی
کیا کہوں کون مر گیا سالک
آپ کہتے ہیں طالب و عرفی
رشکِ عرفی و فخرِ طالب مُرد
اسد اللہ خان غالب مُرد
(مرزا قربان علی بیگ خان سالک)
 
Top