فارسی شاعری ترسم کہ اشک درِ غم ما بردہ در شود از حافظ شیرازی

یاز

محفلین
ترسم کہ اشک درِ غم ما بردہ در شود
ویں رازِ سر بمہر بعالم سمر شود

مجھے خوف ہے کہ آنسو میرے غم کی پرورش کریں گے، اور یہ سر بستہ راز دنیا میں قصہ بن جائے گا۔

گویند سنگ لعل شود در مقامِ صبر
آرے شود و لیک بخونِ جگرشود

کہتے ہیں کہ صبر کے مقام میں پتھر لعل بن جاتا ہے، ہاں ہو جاتا ہے لیکن جگر کے خون سے ہوتا ہے۔

خواہم شدن بمیکدہ گریان و داد خواہ
کز دستِ غم خلاصِ دل آنجا مگر شود

روتا ہوا اور داد چاہتا ہوا شراب خانہ میں جانا چاہتا ہوں، شاید غم کے ہاتھ سے وہاں دل چھٹکارا پا جائے۔

ایں سرکشی کہ در سرِ سروِ بلندِ تست
کہ باتو دستِ کو تہِ ما در کمر شود

یہ سرکشی جو تیرے بلند سرو کے سر میں ہے، ہمارا کوتاہ ہاتھ کب تیری کمر میں ہو سکتا ہے۔

ایں قصرِ سلطنت کہ تواش ماہِ منظری
سر ہا بر آستانہء او خاکِ در شود

یہ سلطنت کا محل جس کا تو ماہِ منظر بنا ہوا ہے، بہت سے سر اس کی چوکھٹ پر دروازے کی خاک ہوں گے۔

از ہر کنار تیرِ دعا کردہ ام رواں
باشد کزیں میانہ یکے کارگر شود

ہر جانب سے میں نے دعا کے تیر روانہ کئے ہیں، ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی کارگر ہو جائے۔

از کیمیائے مہرِ تو زر گشت روئے من
آ رے بیمُن ہمتِ تو خاک زر شود

تیری محبت کی کیمیا کی وجہ سے میرا چہرہ سونا بن گیا ہے، سچ ہے کہ تیری توجہ کی برکت سے خاک سونا بن جاتی ہے۔

اے دل حدیثِ ما برِ دلدار عرضہ کن
لیکن چناں مکن کہ صبا را خبر شود

اے دل! ہمارا قصہ دلدار کو سنا دے، لیکن ایسا نہ کر کہ صبا کو خبر ہو جائے۔

روزے اگرغمے رسدت تنگدل مباش
رو شکر کن مباد کہ از بد بتر شود

اگر کسی دن تجھے غم پہنچے تو دل چھوٹا نہ کر، جا شکر کر ایسا نہ ہو کہ بد سے بدتر ہو جائے۔

اے دل صبور باش و مخور غم کہ عاقبت
از شام صبح گرد دو از شب سحر شود

اے دل! صابر رہ اور غم نہ کر کہ بالآٓخر، شام سے صبح اور رات سے سحر ہو جاتی ہے۔

در تنگنائے حیرتم از نخوتِ رقیب
یا رب مباد آنکہ گدا معتبر شود

رقیب کے تکبر کی وجہ سے میں تنگنائے حیرت میں ہوں، اے خدا! ایسا نہ ہو کہ گدا صاحبِ اعتبار بنے۔

بس نکتہ غیر حسن بباید کہ تا کسے
مقبولِ طبع مردمِ صاحبِ نظر شود

حسن کے علاوہ اور نکتہ بھی چاہئے تاکہ کوئی، کسی صاحبِ نظر کی طبیعت کو پسند آئے۔

مہرِ تو در درونم و عشقِ تو در سرم
با شیر در دروں شد و باجاں بدر شود

تیری محبت میرے اندر ہے اور تیرا عشق میرے سر میں ہے، جو دودھ کے ساتھ اندر گیا ہے اور جان کے ساتھ باہر آئے گا۔

اے مردمانِ دیدہ مگریید بعد ازیں
پائے خیالِ دوست مبادا کہ تر شود

اے آنکھ کی پتلیو! اس کے بعد نہ رونا، ایسا نہ ہو کہ دوست کے خیال کا پیر تر ہو جائے۔

ایدل چو نافہء سرزلفش بدستِ تست
دم در کش ار نہ بادِ صبا را خبر شود

اے دل! اس کی زلف کے سرے کا نافہ ترے ہاتھ میں ہے، سانس کھینچ لے ورنہ بادِ صبا کو خبر ہو جائے گی۔

حافظ سر از لحد بدر آرد بپائے بوس
گر خاکِ او بپائے شمالے سپر شود

حافظ پیر چومنے کے لئے لحد سے سر نکالے گا، اگر اس کی خاک، آپ کے پیر سے پائیمال ہو گی

(حافظ شیرازی)۔
 

حسان خان

لائبریرین
بسیار خوب! آپ کے انتخاب پر آفرین!
ترسم کہ اشک درِ غم ما بردہ در شود
ترسم که اشک در غمِ ما پرده‌در شود
کہ باتو دستِ کو تہِ ما در کمر شود
کَی با تو۔۔۔
حافظ سر از لحد بدر آرد بپائے بوس
حافظ سر از لحد بدر آر و به پای بوس
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یہاں اِس غزل میں چند ایسے اشعار شامل ہیں جو حافظ شیرازی کے بیشتر تصحیح و شائع شدہ متداول نسخوں میں موجود نہیں ہیں، لیکن دیوانِ حافظ کے جو نسخے پاکستان میں رائج ہیں، اُن میں وہ حافظ سے منسوب ملتے ہیں۔ مثلاً یہ شعر خواجو کرمانی کا ہے:
اے دل صبور باش و مخور غم کہ عاقبت
از شام صبح گرد دو از شب سحر شود

اے دل! صابر رہ اور غم نہ کر کہ بالآٓخر، شام سے صبح اور رات سے سحر ہو جاتی ہے۔
خواجو کرمانی اور حافظ شیرازی کا اسلوبِ شاعری ایک ہی ہے۔
 
آخری تدوین:
خواجو کرمانی اور حافظ شیرازی کا اسلوبِ شاعری ایک ہی ہے۔

استادِ غزل سعدی ست پیشِ همه کس اما
دارد سخنِ حافظ طرزِ سخنِ خاجو
(حافظ شیرازی)

سب کی نظر میں سعدی غزل کا استاد ہے، لیکن حافظ کا کلام خاجو کے کلام کا انداز رکھتا ہے۔
مترجم:قاضی سجاد حسین
 
Top