فاخر
محفلین
ترقی پسندانہ نظم گوئی میری نظر میں
تحریر: احمد پٹھان، نئی دہلی
ترقی پسندی خواہ وہ شاعری ہو یا پھر نثر نگاری ، ناول نگاری ہو یا پھر افسانہ نویسی اس تحریک کے زیر اثر رہ کر ایسے ایسے افکار و خیالات کا اظہار لازمی تھا جس کی بنیاد سجاد ظہیر کی معیت میں لندن میں رکھی گئی تھی ۔ اس تحریک کا ایک خاص مشن تھا ۔ وہ یہ کہ مقہور ، مظلوم، دبے کچلے ، بے سہارا افرادکی حمایت کی علاوہ ازیں سرمایہ دارانہ نظام مبینہ مذہبی تداخل و ’تصلب‘ جس کو ترقی پسند وں نے ’’فاشزم‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، کے خلاف مؤثر صدائے احتجاج بلند کی جائے ۔ سجاد ظہیر کے علاوہ ان کے ہم خیال دیگر زبان کے ادیب و شاعر نے اس کاز کی تبلیغ کی۔ہندوستان میں اس فکر و خیال کا سب سے زیادہ گہرا اثر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر پڑا ، یہا ں کے طلبہ جس میں علی سردار جعفری، مجازؔ ، کیفی ، عصمت ، منٹو وغیرہم تھے ، اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ متاثر ہونے کے اسباب و علل خواہ جو بھی ہوں ۔ حریت کے جوش کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف احتجاج بھی فروغ پاگیا ۔ علی سردار جعفری نے اپنی کتاب میں جن اصول کو بیان کیا ہے ، ا س کے تئیں تمام ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعراء و ادبا کو پابند ہونا پڑا کہ وہ اس مخصوص نظریہ کو زبان و قلم کے ذریعہ فروغ دیں، تاہم اس وقت اور بھی شعراء تھے جنہوں نے اس تحریک سے خود کو آزاد ہی رکھا جیسے شورش کاشمیری وغیرہ ۔
الغرض یہ سوال اب ہوتا ہے کہ اس سے نظم گوئی کی ہیئت ، اسلوب اور موضوعات میں کیا تجربے ہوئے ، لب و لہجے کی ساخت میں کیسا انقلاب آیا ۔موضوعات میں کیسے تجربات کئے گئے ؟اس ذیل میں یہ بات اولاًترقی پسندوں کے نظریات کو ملحوظ رکھنا ہوگا او رعلی سردار جعفری کی کتاب مذکورہ اصولوں کو مدنظر رکھنا ہوگا ۔ علی سردار جعفری نے لکھا کہ :
’’ہماری انجمن کا مقصد ادب اور آرٹ کو ان رجعت پرست طبقوں کے چنگل سے نجات دلاناہے جو اپنے ساتھ ادب اور فن کو بھی انحطاط کے گڑھوں میں ڈھکیل دینا چاہتے ہیں ۔ ہم ادب کو عوام کے قریب لانا چاہتے ہیں اور اسے زندگی کی عکاسی اور مستقبل کی تعمیر کا مؤثر ذریعہ بنانا چاہتے ہیں ، ہم اپنے آپ کو ہندوستانی تہذیب کی بہترین روایات کا وارث سمجھتے ہیں اور ان روایات کو اپنا تے ہوئے ہم اپنے ملک میں ہر طرح کی رجعت پسندی کے خلاف جد و جہد کریں گے جو ہمارے وطن کو ایک نئی اور بہتر ز ندگی کی راہ دکھائے ۔ اس کام میں ہم اپنے اور غیر ملکوں کے تہذیب و تمدن سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے بنیادی مسائل کو اپنا موضوع بنائے ۔ یہ بھوک ، افلاس سماجی پستی اور غلامی کے مسائل ہین ، ہم ان تمام آثار کی مخالفت کریں گے جو ہمیں لاچاری ، سستی ، اور توہم پرستی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ ہم ان تمام باتوں کو جو ہماری قوت تنقید کو ابھارتی ہیں اوررسموں اور اداروں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتی ہیں ، تغیراور ترقی کا ذریعہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں ‘‘۔
(ترقی پسند ادب ، علی سردار جعفری ص 24)
مذکورہ بالا اقتباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گویا رجعت پسندی(دینی تصلب ) بھوک ، افلاس، سماجی پستی ، ذہنی غلامی اور توہم پرستی کے خلاف آواز بلند کیا جانا عین اصول ہے اور اس ذیل میں ترقی پسندتحریک نے کامیابی بھی حاصل کی۔جوشؔ ، فراقؔ گورکھپوری، فیضؔ ، علی سردار جعفری ، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی ، مجروح سلطان پور ی وغیرہم نے اس کے تئیں کامیابی بھی حاصل کی ہے ۔ اس ذیل میں سرحد پار کے بھی شعراء کافی متحرک رہے ہیں حبیب جالبؔ اور قتیل شفائی کا نام بھی آتا ہے ۔ نظم گوئی کی وہ راہ جس کی تخلیق و بنیاد مولانا حالیؔ ، آزادؔکی کامل سعی ٔ پیہم سے ہوئی اور پھر جس قصر رفیع الشان کی آرزومولانا حالیؔ نے کی تھی ، ترقی پسند تحریک نے آگے بڑھ کر اس آرزو کی تکمیل کی ۔اس کی وجہ اور دلیل یہ بھی ہے کہ حقیقت سے ہم آہنگ شاعری کو نظم گوئی کے ذریعہ استوار کیا ۔ اسلوب ، ہیئت ، موضوع میں نئے نئے تجربات کئے گئے جس کی مثال دیگر تحریکات میں نہیں ملتی ،البتہ اس تحریک کا جو قابل گرفت پہلو جو ہے (اور شاید آگے بھی آنے والے شعراء میں رہے )وہ مذہب کو فاشزم کہہ کر مذہب بیزاری ہے ۔ اس سے الحاد کے دروازے کھلتے ہیں ، جب کہ حالیؔ اور آزادؔ کے تصور میں بھی یہ بات نہیں ہوگی کہ شاعری کے ذریعہ الحاد کی تبلیغ ہو؛بلکہ حالیؔ نے خدا بیزاری سے قوم کو متنبہ کیا ہے ، مسدس حالیؔ میں اسی غم کا رونا رویا ہے کہ قو م میں بیداری آئے ۔ دن بدن بڑھتی ہوئی مذہب بیزاری قوم کے لیے تباہ کن ثابت ہورہی ہے ۔تاہم ترقی پسند تحریک نے عوام کو خدا بیزار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی حتیٰ کہ قتیل شفائی نے گداگر سے خطاب میں خدا بیزاری کی تمام سرحدیں عبور کرڈالی اس کے چند شعر یہاں بطور تمثیل کے پیش کئے جاتے ہیں ؎
اے گداگر مجھے ایمان کی سوغات نہ دے
مجھ کو ایمان سے اب کوئی سروکار نہیں
میں نے دیکھا ہے ان آنکھوں میں مروت کا مآل
مجھ کو اب مہرو محبت سے کوئی پیار نہیں
میں نے انسان کو چاہا بھی تو کیا پایا ہے
اب مرا کفر خدا کا بھی طلب گار نہیں
جا کسی اور سے ایمان کا سودا کرلے
میں تری نیک دعاؤں کا خریدار نہیں
(انتخاب از کلام قتیل شفائی ، ناشر الحمد پبلی کیشنز ، لاہور ص 169)
یہ چند اشعار قتیل شفائی کے ہیں اس میں خدا بیزاری اور الحاد کے نمونے ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں ۔ ’’ اب مرا کفر خدا کا بھی طلب گار نہیں ‘‘ ایسے اعلانات بطور شاعر اور ذمہ دار فرد ہونے کے شایاں نہیں ہیں ۔ ان امور سے سوا یہ کہ ترقی پسند شاعری کی نظم گوئی میں موضوعات ، ہیئت کے تجربات پر کافی دقتیں صرف کی ہیں ، ہی وجہ ہے کہ مجروح سلطان پور ی کو غزل گوئی کی وجہ سے ترقی پسند تحریک کے شعرا ء قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، البتہ جب مجروح نے اپنی غزلوں میں ترقی پسندانہ افکار کا اظہار کیا تو پھر ترقی پسندوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ ترقی پسندوں کی نظم گوئی میں واضح طور پر موضوعات میں مثبت تجربے کئے۔فیض احمد فیضؔ سے لے کر قتیل شفائی تک اور علی سردار جعفری سے لے کر دیگر ترقی پسند شعراء تک ہیئت اور موضوع میں کافی تجربے کئے ۔فیض کہیں جوش انقلاب میں اطمینان سے کہتے ہیں ؎
چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
حاکم شہر بھی مجمع عام بھی
تیر الزام بھی سنگ دشنام بھی
صبح ناشاد بھی روز ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہر جاناں میں اب با صفا کون ہے
دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو
نسخہ وفا ص 338
تو کہیں اسی’ انقلاب‘ سے مایوس ہوکر اضمحلال میں یہ بھی کہنے میں گریز نہیں کرتے ؎
یہ داغ داغ اْجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جاکے رکے گا سفینۂ غمِِ دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیارِ حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں بانہیں بدن بلاتے ہیں
بہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن
یہ چند مثالیں ہیں ۔ ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ نظم گوئی کے باب میں انقلاب کا بار با راعادہ کیا گیا جو کسی نہ کسی طور زریں اضافہ کہا جاسکتا ہے ۔ لب و لہجہ میں نئے تجربے اور نئی تکنیک کا یوں استعمال کیا گیابسا اوقات معلوم یہ ہوتا تھا کہ توڑ پھوڑ اور اشتعال و ہیجان کی شاعری بن کر رہ گئی ہے ؛لیکن اس کے پس پردہ مقصد یہ تھا کہ محکوم و مغلوب اور مقہور مزدور کو بیدا رکیا جائے ۔ جیسا کہ خود ساحر لدھیانوی کی طویل نظم سے اخذ ہوتا ہے ۔
آج سے میں اپنے گیتوں میں آتش پارے بھردوں گا
مدھم ، لچکیلی تانوں میں جیوٹ دھارے بھردوں گا
جیون کے اندھیارے پتھ پر مشعل لے کر نکلوں گا
دھرتی کے پھیلے آنچل میں سرخ ستارے بھردوں گا
آج سے اے مزدور ! کسانو! میرے راگ تمہارے ہیں
فاقہ کش انسانو! میرے جوگ بہاگ تمہارے ہیں
جب تک تم بھوکے ننگے ہو، یہ شعلے خاموش نہ ہوں گے
جب تک بے آرام ہوتم ، یہ نغمے راحت کوش نہ ہوں گے
مجھ کو اس کا رنج نہیں ہے ، لوگ مجھے فن کار نہ مانیں
فکرو سخن کے تاجر میرے شعروں کو اشعار نہ مانیں
میرا فن ، میری امیدیں ، آج سے تم کو ارپن ہیں
آج سے میرے گیت تمہارے دکھ اور سکھ کا درپن ہیں
تم سے قوت لے کر ، اب میں تم کو راہ دکھاؤں گا
تم پرچم لہرانا ساتھی، میں بربط پر گاؤں گا
آج سے میرے فن کا مقصد زنجیریں پگھلانا ہے
آج سے میں شبنم کے بدلے انگارے برساؤں گا
تلخیاں ، ص 152
اور اس کی ضرورت بھی تھی ؛کیوں کہ پست خوردہ ذہن کے لیے ہمت دلانا بھی ضروری تھی ورنہ تو پھر وہ طبقہ جو صدیوں سے جاگیر دارانہ نظام کے تحت پستے ہوئے اور ستم کوشی کے شکار ہوتے چلے آرہے تھے وہ بیدا رنہ ہوتے ۔اسی طرح علی سردار جعفری کا اعلان ’’ بغاوت میرا مذہب ہے ‘‘ اور للکار ’’ایشیا سے بھاگ جاؤ‘‘ بھی ہے اور اس کی ضرورت بھی تھی ؎
بغاوت میرا مذہب ہے ، بغاوت دیوتا میرا
بغاوت میرا پیغمبر ، بغاوتا ہے خدا میرا
بغاوت رسم چنگیزی سے ، تہذیب تتاری سے
بغاوت جبر و استبداد سے سرمایہ داری سے
بغاوت سرسوتی سے ، لکشمی سے ، بھیم و ارجن سے
بغاوت دیویوں سے اور دیوتاؤں کے تمدن سے
بغاوت وہم کی پابندیوں سے ، قید ملت سے
بغاوت آدمی کو پیسنے والی مشیت سے
بغاوت عزت و پندار و نخوت کی اداؤں سے
بغاوت بوالہوس ابلیس سیرت پارساؤں سے
بغاوت زر گری کے مسخ مذہب کے ترانوں سے
بغاوت عہد پارینہ کی رنگیں داستانوں سے
بغاوت اپنی آزادی کی نعمت کھونے والوں سے
بغاوت عظمت رفتہ کے اوپر رونے والوں سے
بغاوت دور حاضر کی حکومت سے ریاست سے
بغاوت سامراجی نظم و قانون و سیاست سے
کلیات سردار جعفری حصہ اول ص 53
اب سے ہوگا ، ایشیا پر ایشیاوالوں کا راج
دست محنت سے ملے گا دست محنت سے خراج
زندگی بدلی ہے ، بدلا ہے زمانے کا مزاج
پھوڑ دیں گے ہم یہ آنکھیں ہم کو مت دکھاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ہم نے دیکھے ہیں بہت ظلم و ستم قہر و عتاب
نوچ لیں گے ہم تمہای سلطنت کا آفتاب
ہم بھی دیں گے تم کو اب جوتے سے جوتے کا جواب
ہاں بڑے آئے کہیں کے لاٹ صاحب جاؤ جاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
لد گئے وہ دن کہ جب آقاتھے تم اور ہم غلام
ہم وہ بے حس تھے کہ تم کو جھک کے کرتے تھے سلام
آج ہم ہیں بددماغ و بدزبان و بدلگام
سیر کا بدلہ ہے سیر اور پاؤ کا بدلہ ہے پاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
کلیات سردار جعفری حصہ دوم ص 22
ان اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ترقی پسند تحریک نے نظم گوئی ہیئت ، موضوعات اور اسلوب میں نت نئے تجربے کرکے اس کے سرمایہ میں قیمتی اور بیش بہا اضافے کئے ہیں جن سے نظم گوئی کے اس ’’قصر رفیع الشان ‘‘ کی تعمیر ہوتی ہے جس کا خواب مولانا حالیؔ نے دیکھا تھا ۔
٭٭٭
نوٹ : کسی اسکالر کی لکھی ہوئی تحریر تھی جس کو افادہ عام کے لیے یہاں پوسٹ کردیا۔
تحریر: احمد پٹھان، نئی دہلی
ترقی پسندی خواہ وہ شاعری ہو یا پھر نثر نگاری ، ناول نگاری ہو یا پھر افسانہ نویسی اس تحریک کے زیر اثر رہ کر ایسے ایسے افکار و خیالات کا اظہار لازمی تھا جس کی بنیاد سجاد ظہیر کی معیت میں لندن میں رکھی گئی تھی ۔ اس تحریک کا ایک خاص مشن تھا ۔ وہ یہ کہ مقہور ، مظلوم، دبے کچلے ، بے سہارا افرادکی حمایت کی علاوہ ازیں سرمایہ دارانہ نظام مبینہ مذہبی تداخل و ’تصلب‘ جس کو ترقی پسند وں نے ’’فاشزم‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، کے خلاف مؤثر صدائے احتجاج بلند کی جائے ۔ سجاد ظہیر کے علاوہ ان کے ہم خیال دیگر زبان کے ادیب و شاعر نے اس کاز کی تبلیغ کی۔ہندوستان میں اس فکر و خیال کا سب سے زیادہ گہرا اثر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر پڑا ، یہا ں کے طلبہ جس میں علی سردار جعفری، مجازؔ ، کیفی ، عصمت ، منٹو وغیرہم تھے ، اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ متاثر ہونے کے اسباب و علل خواہ جو بھی ہوں ۔ حریت کے جوش کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف احتجاج بھی فروغ پاگیا ۔ علی سردار جعفری نے اپنی کتاب میں جن اصول کو بیان کیا ہے ، ا س کے تئیں تمام ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعراء و ادبا کو پابند ہونا پڑا کہ وہ اس مخصوص نظریہ کو زبان و قلم کے ذریعہ فروغ دیں، تاہم اس وقت اور بھی شعراء تھے جنہوں نے اس تحریک سے خود کو آزاد ہی رکھا جیسے شورش کاشمیری وغیرہ ۔
الغرض یہ سوال اب ہوتا ہے کہ اس سے نظم گوئی کی ہیئت ، اسلوب اور موضوعات میں کیا تجربے ہوئے ، لب و لہجے کی ساخت میں کیسا انقلاب آیا ۔موضوعات میں کیسے تجربات کئے گئے ؟اس ذیل میں یہ بات اولاًترقی پسندوں کے نظریات کو ملحوظ رکھنا ہوگا او رعلی سردار جعفری کی کتاب مذکورہ اصولوں کو مدنظر رکھنا ہوگا ۔ علی سردار جعفری نے لکھا کہ :
’’ہماری انجمن کا مقصد ادب اور آرٹ کو ان رجعت پرست طبقوں کے چنگل سے نجات دلاناہے جو اپنے ساتھ ادب اور فن کو بھی انحطاط کے گڑھوں میں ڈھکیل دینا چاہتے ہیں ۔ ہم ادب کو عوام کے قریب لانا چاہتے ہیں اور اسے زندگی کی عکاسی اور مستقبل کی تعمیر کا مؤثر ذریعہ بنانا چاہتے ہیں ، ہم اپنے آپ کو ہندوستانی تہذیب کی بہترین روایات کا وارث سمجھتے ہیں اور ان روایات کو اپنا تے ہوئے ہم اپنے ملک میں ہر طرح کی رجعت پسندی کے خلاف جد و جہد کریں گے جو ہمارے وطن کو ایک نئی اور بہتر ز ندگی کی راہ دکھائے ۔ اس کام میں ہم اپنے اور غیر ملکوں کے تہذیب و تمدن سے فائدہ اٹھائیں گے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے بنیادی مسائل کو اپنا موضوع بنائے ۔ یہ بھوک ، افلاس سماجی پستی اور غلامی کے مسائل ہین ، ہم ان تمام آثار کی مخالفت کریں گے جو ہمیں لاچاری ، سستی ، اور توہم پرستی کی طرف لے جاتے ہیں ۔ ہم ان تمام باتوں کو جو ہماری قوت تنقید کو ابھارتی ہیں اوررسموں اور اداروں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتی ہیں ، تغیراور ترقی کا ذریعہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں ‘‘۔
(ترقی پسند ادب ، علی سردار جعفری ص 24)
مذکورہ بالا اقتباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گویا رجعت پسندی(دینی تصلب ) بھوک ، افلاس، سماجی پستی ، ذہنی غلامی اور توہم پرستی کے خلاف آواز بلند کیا جانا عین اصول ہے اور اس ذیل میں ترقی پسندتحریک نے کامیابی بھی حاصل کی۔جوشؔ ، فراقؔ گورکھپوری، فیضؔ ، علی سردار جعفری ، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی ، مجروح سلطان پور ی وغیرہم نے اس کے تئیں کامیابی بھی حاصل کی ہے ۔ اس ذیل میں سرحد پار کے بھی شعراء کافی متحرک رہے ہیں حبیب جالبؔ اور قتیل شفائی کا نام بھی آتا ہے ۔ نظم گوئی کی وہ راہ جس کی تخلیق و بنیاد مولانا حالیؔ ، آزادؔکی کامل سعی ٔ پیہم سے ہوئی اور پھر جس قصر رفیع الشان کی آرزومولانا حالیؔ نے کی تھی ، ترقی پسند تحریک نے آگے بڑھ کر اس آرزو کی تکمیل کی ۔اس کی وجہ اور دلیل یہ بھی ہے کہ حقیقت سے ہم آہنگ شاعری کو نظم گوئی کے ذریعہ استوار کیا ۔ اسلوب ، ہیئت ، موضوع میں نئے نئے تجربات کئے گئے جس کی مثال دیگر تحریکات میں نہیں ملتی ،البتہ اس تحریک کا جو قابل گرفت پہلو جو ہے (اور شاید آگے بھی آنے والے شعراء میں رہے )وہ مذہب کو فاشزم کہہ کر مذہب بیزاری ہے ۔ اس سے الحاد کے دروازے کھلتے ہیں ، جب کہ حالیؔ اور آزادؔ کے تصور میں بھی یہ بات نہیں ہوگی کہ شاعری کے ذریعہ الحاد کی تبلیغ ہو؛بلکہ حالیؔ نے خدا بیزاری سے قوم کو متنبہ کیا ہے ، مسدس حالیؔ میں اسی غم کا رونا رویا ہے کہ قو م میں بیداری آئے ۔ دن بدن بڑھتی ہوئی مذہب بیزاری قوم کے لیے تباہ کن ثابت ہورہی ہے ۔تاہم ترقی پسند تحریک نے عوام کو خدا بیزار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی حتیٰ کہ قتیل شفائی نے گداگر سے خطاب میں خدا بیزاری کی تمام سرحدیں عبور کرڈالی اس کے چند شعر یہاں بطور تمثیل کے پیش کئے جاتے ہیں ؎
اے گداگر مجھے ایمان کی سوغات نہ دے
مجھ کو ایمان سے اب کوئی سروکار نہیں
میں نے دیکھا ہے ان آنکھوں میں مروت کا مآل
مجھ کو اب مہرو محبت سے کوئی پیار نہیں
میں نے انسان کو چاہا بھی تو کیا پایا ہے
اب مرا کفر خدا کا بھی طلب گار نہیں
جا کسی اور سے ایمان کا سودا کرلے
میں تری نیک دعاؤں کا خریدار نہیں
(انتخاب از کلام قتیل شفائی ، ناشر الحمد پبلی کیشنز ، لاہور ص 169)
یہ چند اشعار قتیل شفائی کے ہیں اس میں خدا بیزاری اور الحاد کے نمونے ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں ۔ ’’ اب مرا کفر خدا کا بھی طلب گار نہیں ‘‘ ایسے اعلانات بطور شاعر اور ذمہ دار فرد ہونے کے شایاں نہیں ہیں ۔ ان امور سے سوا یہ کہ ترقی پسند شاعری کی نظم گوئی میں موضوعات ، ہیئت کے تجربات پر کافی دقتیں صرف کی ہیں ، ہی وجہ ہے کہ مجروح سلطان پور ی کو غزل گوئی کی وجہ سے ترقی پسند تحریک کے شعرا ء قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، البتہ جب مجروح نے اپنی غزلوں میں ترقی پسندانہ افکار کا اظہار کیا تو پھر ترقی پسندوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ ترقی پسندوں کی نظم گوئی میں واضح طور پر موضوعات میں مثبت تجربے کئے۔فیض احمد فیضؔ سے لے کر قتیل شفائی تک اور علی سردار جعفری سے لے کر دیگر ترقی پسند شعراء تک ہیئت اور موضوع میں کافی تجربے کئے ۔فیض کہیں جوش انقلاب میں اطمینان سے کہتے ہیں ؎
چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
حاکم شہر بھی مجمع عام بھی
تیر الزام بھی سنگ دشنام بھی
صبح ناشاد بھی روز ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہر جاناں میں اب با صفا کون ہے
دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو
نسخہ وفا ص 338
تو کہیں اسی’ انقلاب‘ سے مایوس ہوکر اضمحلال میں یہ بھی کہنے میں گریز نہیں کرتے ؎
یہ داغ داغ اْجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جاکے رکے گا سفینۂ غمِِ دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیارِ حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں بانہیں بدن بلاتے ہیں
بہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن
یہ چند مثالیں ہیں ۔ ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ نظم گوئی کے باب میں انقلاب کا بار با راعادہ کیا گیا جو کسی نہ کسی طور زریں اضافہ کہا جاسکتا ہے ۔ لب و لہجہ میں نئے تجربے اور نئی تکنیک کا یوں استعمال کیا گیابسا اوقات معلوم یہ ہوتا تھا کہ توڑ پھوڑ اور اشتعال و ہیجان کی شاعری بن کر رہ گئی ہے ؛لیکن اس کے پس پردہ مقصد یہ تھا کہ محکوم و مغلوب اور مقہور مزدور کو بیدا رکیا جائے ۔ جیسا کہ خود ساحر لدھیانوی کی طویل نظم سے اخذ ہوتا ہے ۔
آج سے میں اپنے گیتوں میں آتش پارے بھردوں گا
مدھم ، لچکیلی تانوں میں جیوٹ دھارے بھردوں گا
جیون کے اندھیارے پتھ پر مشعل لے کر نکلوں گا
دھرتی کے پھیلے آنچل میں سرخ ستارے بھردوں گا
آج سے اے مزدور ! کسانو! میرے راگ تمہارے ہیں
فاقہ کش انسانو! میرے جوگ بہاگ تمہارے ہیں
جب تک تم بھوکے ننگے ہو، یہ شعلے خاموش نہ ہوں گے
جب تک بے آرام ہوتم ، یہ نغمے راحت کوش نہ ہوں گے
مجھ کو اس کا رنج نہیں ہے ، لوگ مجھے فن کار نہ مانیں
فکرو سخن کے تاجر میرے شعروں کو اشعار نہ مانیں
میرا فن ، میری امیدیں ، آج سے تم کو ارپن ہیں
آج سے میرے گیت تمہارے دکھ اور سکھ کا درپن ہیں
تم سے قوت لے کر ، اب میں تم کو راہ دکھاؤں گا
تم پرچم لہرانا ساتھی، میں بربط پر گاؤں گا
آج سے میرے فن کا مقصد زنجیریں پگھلانا ہے
آج سے میں شبنم کے بدلے انگارے برساؤں گا
تلخیاں ، ص 152
اور اس کی ضرورت بھی تھی ؛کیوں کہ پست خوردہ ذہن کے لیے ہمت دلانا بھی ضروری تھی ورنہ تو پھر وہ طبقہ جو صدیوں سے جاگیر دارانہ نظام کے تحت پستے ہوئے اور ستم کوشی کے شکار ہوتے چلے آرہے تھے وہ بیدا رنہ ہوتے ۔اسی طرح علی سردار جعفری کا اعلان ’’ بغاوت میرا مذہب ہے ‘‘ اور للکار ’’ایشیا سے بھاگ جاؤ‘‘ بھی ہے اور اس کی ضرورت بھی تھی ؎
بغاوت میرا مذہب ہے ، بغاوت دیوتا میرا
بغاوت میرا پیغمبر ، بغاوتا ہے خدا میرا
بغاوت رسم چنگیزی سے ، تہذیب تتاری سے
بغاوت جبر و استبداد سے سرمایہ داری سے
بغاوت سرسوتی سے ، لکشمی سے ، بھیم و ارجن سے
بغاوت دیویوں سے اور دیوتاؤں کے تمدن سے
بغاوت وہم کی پابندیوں سے ، قید ملت سے
بغاوت آدمی کو پیسنے والی مشیت سے
بغاوت عزت و پندار و نخوت کی اداؤں سے
بغاوت بوالہوس ابلیس سیرت پارساؤں سے
بغاوت زر گری کے مسخ مذہب کے ترانوں سے
بغاوت عہد پارینہ کی رنگیں داستانوں سے
بغاوت اپنی آزادی کی نعمت کھونے والوں سے
بغاوت عظمت رفتہ کے اوپر رونے والوں سے
بغاوت دور حاضر کی حکومت سے ریاست سے
بغاوت سامراجی نظم و قانون و سیاست سے
کلیات سردار جعفری حصہ اول ص 53
اب سے ہوگا ، ایشیا پر ایشیاوالوں کا راج
دست محنت سے ملے گا دست محنت سے خراج
زندگی بدلی ہے ، بدلا ہے زمانے کا مزاج
پھوڑ دیں گے ہم یہ آنکھیں ہم کو مت دکھاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
ہم نے دیکھے ہیں بہت ظلم و ستم قہر و عتاب
نوچ لیں گے ہم تمہای سلطنت کا آفتاب
ہم بھی دیں گے تم کو اب جوتے سے جوتے کا جواب
ہاں بڑے آئے کہیں کے لاٹ صاحب جاؤ جاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
لد گئے وہ دن کہ جب آقاتھے تم اور ہم غلام
ہم وہ بے حس تھے کہ تم کو جھک کے کرتے تھے سلام
آج ہم ہیں بددماغ و بدزبان و بدلگام
سیر کا بدلہ ہے سیر اور پاؤ کا بدلہ ہے پاؤ
ایشیا سے بھاگ جاؤ
کلیات سردار جعفری حصہ دوم ص 22
ان اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ترقی پسند تحریک نے نظم گوئی ہیئت ، موضوعات اور اسلوب میں نت نئے تجربے کرکے اس کے سرمایہ میں قیمتی اور بیش بہا اضافے کئے ہیں جن سے نظم گوئی کے اس ’’قصر رفیع الشان ‘‘ کی تعمیر ہوتی ہے جس کا خواب مولانا حالیؔ نے دیکھا تھا ۔
٭٭٭
نوٹ : کسی اسکالر کی لکھی ہوئی تحریر تھی جس کو افادہ عام کے لیے یہاں پوسٹ کردیا۔
مدیر کی آخری تدوین: