ثناءاللہ
محفلین
زبان دو طرح کی ھوتی ھے۔ ايک وہ زبان ھے جو خالق نے ھمارے منہ ميں رکھ دی ھے۔ اور دوسری وہ جو بولی جاتی ھے۔ اول الذکر ہمارے علاوہ جانوروں ميں بھی پا ئی جا تی ھےليکن ان کی بولياں سمجھنا ہر آدمی کے بس کی بات نھیں ہاں اگر آپ دعویٰ کرتے ھيں تو ھميں آپ کا دعوٰی "قبولنے" ميں کوئی تامل نھيں۔ ھو سکتا ھےکھ آپ حيوان ناطق ھونے کے ساتھ ساتھ دوسرے گروہ حيوانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہرحال يہ آپ کا اور خالق کا تعلق ھے۔ اس ميں ھم بارہ نھيں چودہ پتھر ھيں
اب آتے ھيں مؤخر الذکرکی طرف اس کو بھی حضرت انسان نےمختلف حصوں يا گروھوں ميں بانٹ ديا ھے۔ جس کا ايک دفعہ پہلے ذکر کر چکا ھوبہرحال اس نے قوموں کی ترقی ميں بہت اہم قردار ادا کيا ھے۔ اگر اس چيز کو سمجھنا ھوتواپنی بچاری اردوکی حالت زار کے ساتھ ساتھ ترقی يافتہ اقوام کی طرف بھی ديکھنا ھو گا۔ پہلے ھم ترقی يافتھ اقوام کو ديکھتے ھيں کہ وہ کون کون سی ھيں ميرے نقطہ نظر سے يورپ کے تمام ممالک نھیں تونوے فيصد اس ميں شامل ہيں۔ شمالی امريکہ ميں کينڈا اور يو ايس اے ، ايشياء ميں چين، روس، جنوبی کوريا، جاپان، تائيوان، سنگا پور، اور ملائشيا شامل ہيں۔ اب ان ممالک کا اگر بغور مطالعہ کيا جائے اور يہ سوال سامنےرکھا جائےکہ انہوں نے اپنے تحقيقی کام کس زبان ميں سر انجام ديے ھيں؟ توايک ھی جواب آئے گا اپنی زبان ميں، ميرے خيال ميں آج تک ايک ملک بھی ايسا نھیں جس نے کسی اجنبی زبان کواپنی ترقی کی سيڑھی بنايا ھو۔
کوريا سے کچھ سياح پاکستان آئے تو ان کے ساتھ مترجم کے فرائض ميرے ايک دوست سر انجام دے رھے تھے۔کورين احباب کے ساتھ بارہا مرتبہ ملاقات اور گفت و شنيد ھوئی جب ھم برصغير اور بلخصوص پاکستان کے متعلق ان کی معلومات ميں اضافہ کر رھے تھے تو ان کی حيرانی آسمان کو چھؤ رہی تھی۔ کہ " آپ کے ہاں شرح خواندگی شرم ناک حد تک کم يعنی حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ٣٥ فيصد تک اور اس ميں انگريزی زبان سمجھنے والے ايک فيصد سے بھی کم اور اس کے باوجود آپ کی سرکاری زبان انگريزی، آپ کا عدالتی نظام انگريزی، آپ کا تمام دفتری نظام انگريزی اور سب سے بڑھ کرآپ کا بينکنگ نظام انگريزی ميں اور اس سے بھی بڑھ کر آپ کا تحقيقی نظام ( ريسرچ ورک) انگريزی ميں مجھے سمجھ نھیں آتی کے ترقی کرنا تو دور کی بات آپ اس دور ميں زندہ کيسے ھيں"۔ شائد کہ وہ حضرت آئی ٹی کے متعلق کہنا بھول گے تھے۔ ھماری جو تھوڑی بہت عزت رہ گئی تھی وہ بھی ھوا کی خوشبوکی طرح اڑ جاتی خير عزت آنی جانی چیز ھم بھی ہار ماننے والے نہ تھے ھم نے جوابی وار کيا اور اپنے تائيں ان کوآئينہ ديکھانا چاہا تو انھوں نے ھمارے دانت توڑے تو نھيں مگر کھٹے ضرور کر ديئے کہ " ہمارے تمام نظام اپنی کورين زبان ميں ہيں حتٰی کہ تمام سوفٹ ويئر اور ويب سائٹس بھی اپنی مادری زبان ميں ھيں" اس جوابی حملہ سے ہماری توعقل بھی گھاس چرنے چلی گئی اور شرم کے مارے ہمارے سر نہ اٹھ سکے۔
اب ميں نے باقی تمام ترقی يافتہ ممالک کو اس بحث ميں گھسيٹ ليا تو بہت طوالت کا شکار ھو جاھوں گا۔ مختصراً ايشياء کے چيتوں (ايشين ٹائيگرز ) کی بات کروں گا۔ جو حالات و واقعات ميں ھم جيسے بلکہ کچھ پيچھے بھی ھوں گے مگر ترقی ميں کہيں آگے۔ جن ميں جاپان، کوريا، چين اور ملائشيا کو ہی لے ليں، ان ممالک کی جتنی بھی ترقی ھوئی ہے اپنی زبان کو اپنا کر کی ہے۔ کيونکہ جب چھوٹا بچہ سيکھنے کے مراحل ميں ھوتا ھے۔ تو وہ وھی کچھ سيکھتا ھے۔ جو اسے گھر اور گلی محلے کا ماحول سيکھائے گا۔ کيسی بچے کو جتنا مرضی اچھے سے اچھے مدرسے ميں تعليم دلوايئے مگر بچہ زيادہ متاثر ماحول سے ھوگا جواس کو گھر اور محلہ دے گا۔ آپ صرف دو بچوں کو ليں ان ميں صرف اتنا فرق کرليں کے ايک بچے کو پيدل سکول بھیجيں اور دوسرے کو گاڑی ميں ان دونوں بچوں کے رويئے کو ديکھيں سيکھنے کے حوالے سے واضح فرق ھو گا۔ اسی طرح اگر تعليمی نظام کو ديکھيں تو بچے کے اوپر دو زبانوں بلکہ تين زبانوں کا بہت زيادہ بوجھ ھے۔ جس کے وجہ سے بچہ آدھا تيتر اور آدھا بٹير نظر آتا ھے۔ اور اس وجہ سےبرصغيرميں بسنے والوں کا حال "کوا چلا ھنس کی چال اور اپنی بھی بھول گيا" کے مصداق ھے۔
اگر بچے کے اسی بوجھ کو ھم کم کر کے ايک زبان ميں لے آئيں تو يہ ھو ہی نہيں سکتا کہ ھم ترقی يافتہ ممالک سے پيچھے رہيں۔ چاھے آپ مکمل طور کسی بھی زبان کا انتخاب کر ليں چاہے وہ انگريزی ہي کيوں نہ ھو۔ ليکن ايک شرط کے ساتھ کے آپ کے ماحول ميں وہ اس طرح رچ بس جائے کہ معاشرہ اسے مکمل طور پر قبول کر لے۔ اور زبان ميں طبقاتی نظام ختم ھو جائے۔ يہ بندہ ناچيز کی طرف سے ايک حل ہے ليکن اس بات کو ياد رکھيں کہ "خودی نہ بيچ غريبی ميں نام پيدا کر"
گو زبانيں اور ثقافتيں باہم مل جاتيں ہيں ليکن اس طرح نھيں کے ايک فيصد سے بھی کم لوگ دوسری زبان کو اپنانے کی بات کريں۔
(اگر اس میں کوئی غلطی نظر آئے تو برائے مہربانی اصلاح کے لیے لکھ دیجئے گا کیونکہ ایک پتھر کو تراش خراش کے بعد ہی ہیرا کہا جاتا ہے)
بہرحال يہ آپ کا اور خالق کا تعلق ھے۔ اس ميں ھم بارہ نھيں چودہ پتھر ھيں
اب آتے ھيں مؤخر الذکرکی طرف اس کو بھی حضرت انسان نےمختلف حصوں يا گروھوں ميں بانٹ ديا ھے۔ جس کا ايک دفعہ پہلے ذکر کر چکا ھوبہرحال اس نے قوموں کی ترقی ميں بہت اہم قردار ادا کيا ھے۔ اگر اس چيز کو سمجھنا ھوتواپنی بچاری اردوکی حالت زار کے ساتھ ساتھ ترقی يافتہ اقوام کی طرف بھی ديکھنا ھو گا۔ پہلے ھم ترقی يافتھ اقوام کو ديکھتے ھيں کہ وہ کون کون سی ھيں ميرے نقطہ نظر سے يورپ کے تمام ممالک نھیں تونوے فيصد اس ميں شامل ہيں۔ شمالی امريکہ ميں کينڈا اور يو ايس اے ، ايشياء ميں چين، روس، جنوبی کوريا، جاپان، تائيوان، سنگا پور، اور ملائشيا شامل ہيں۔ اب ان ممالک کا اگر بغور مطالعہ کيا جائے اور يہ سوال سامنےرکھا جائےکہ انہوں نے اپنے تحقيقی کام کس زبان ميں سر انجام ديے ھيں؟ توايک ھی جواب آئے گا اپنی زبان ميں، ميرے خيال ميں آج تک ايک ملک بھی ايسا نھیں جس نے کسی اجنبی زبان کواپنی ترقی کی سيڑھی بنايا ھو۔
کوريا سے کچھ سياح پاکستان آئے تو ان کے ساتھ مترجم کے فرائض ميرے ايک دوست سر انجام دے رھے تھے۔کورين احباب کے ساتھ بارہا مرتبہ ملاقات اور گفت و شنيد ھوئی جب ھم برصغير اور بلخصوص پاکستان کے متعلق ان کی معلومات ميں اضافہ کر رھے تھے تو ان کی حيرانی آسمان کو چھؤ رہی تھی۔ کہ " آپ کے ہاں شرح خواندگی شرم ناک حد تک کم يعنی حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ٣٥ فيصد تک اور اس ميں انگريزی زبان سمجھنے والے ايک فيصد سے بھی کم اور اس کے باوجود آپ کی سرکاری زبان انگريزی، آپ کا عدالتی نظام انگريزی، آپ کا تمام دفتری نظام انگريزی اور سب سے بڑھ کرآپ کا بينکنگ نظام انگريزی ميں اور اس سے بھی بڑھ کر آپ کا تحقيقی نظام ( ريسرچ ورک) انگريزی ميں مجھے سمجھ نھیں آتی کے ترقی کرنا تو دور کی بات آپ اس دور ميں زندہ کيسے ھيں"۔ شائد کہ وہ حضرت آئی ٹی کے متعلق کہنا بھول گے تھے۔ ھماری جو تھوڑی بہت عزت رہ گئی تھی وہ بھی ھوا کی خوشبوکی طرح اڑ جاتی خير عزت آنی جانی چیز ھم بھی ہار ماننے والے نہ تھے ھم نے جوابی وار کيا اور اپنے تائيں ان کوآئينہ ديکھانا چاہا تو انھوں نے ھمارے دانت توڑے تو نھيں مگر کھٹے ضرور کر ديئے کہ " ہمارے تمام نظام اپنی کورين زبان ميں ہيں حتٰی کہ تمام سوفٹ ويئر اور ويب سائٹس بھی اپنی مادری زبان ميں ھيں" اس جوابی حملہ سے ہماری توعقل بھی گھاس چرنے چلی گئی اور شرم کے مارے ہمارے سر نہ اٹھ سکے۔
اب ميں نے باقی تمام ترقی يافتہ ممالک کو اس بحث ميں گھسيٹ ليا تو بہت طوالت کا شکار ھو جاھوں گا۔ مختصراً ايشياء کے چيتوں (ايشين ٹائيگرز ) کی بات کروں گا۔ جو حالات و واقعات ميں ھم جيسے بلکہ کچھ پيچھے بھی ھوں گے مگر ترقی ميں کہيں آگے۔ جن ميں جاپان، کوريا، چين اور ملائشيا کو ہی لے ليں، ان ممالک کی جتنی بھی ترقی ھوئی ہے اپنی زبان کو اپنا کر کی ہے۔ کيونکہ جب چھوٹا بچہ سيکھنے کے مراحل ميں ھوتا ھے۔ تو وہ وھی کچھ سيکھتا ھے۔ جو اسے گھر اور گلی محلے کا ماحول سيکھائے گا۔ کيسی بچے کو جتنا مرضی اچھے سے اچھے مدرسے ميں تعليم دلوايئے مگر بچہ زيادہ متاثر ماحول سے ھوگا جواس کو گھر اور محلہ دے گا۔ آپ صرف دو بچوں کو ليں ان ميں صرف اتنا فرق کرليں کے ايک بچے کو پيدل سکول بھیجيں اور دوسرے کو گاڑی ميں ان دونوں بچوں کے رويئے کو ديکھيں سيکھنے کے حوالے سے واضح فرق ھو گا۔ اسی طرح اگر تعليمی نظام کو ديکھيں تو بچے کے اوپر دو زبانوں بلکہ تين زبانوں کا بہت زيادہ بوجھ ھے۔ جس کے وجہ سے بچہ آدھا تيتر اور آدھا بٹير نظر آتا ھے۔ اور اس وجہ سےبرصغيرميں بسنے والوں کا حال "کوا چلا ھنس کی چال اور اپنی بھی بھول گيا" کے مصداق ھے۔
اگر بچے کے اسی بوجھ کو ھم کم کر کے ايک زبان ميں لے آئيں تو يہ ھو ہی نہيں سکتا کہ ھم ترقی يافتہ ممالک سے پيچھے رہيں۔ چاھے آپ مکمل طور کسی بھی زبان کا انتخاب کر ليں چاہے وہ انگريزی ہي کيوں نہ ھو۔ ليکن ايک شرط کے ساتھ کے آپ کے ماحول ميں وہ اس طرح رچ بس جائے کہ معاشرہ اسے مکمل طور پر قبول کر لے۔ اور زبان ميں طبقاتی نظام ختم ھو جائے۔ يہ بندہ ناچيز کی طرف سے ايک حل ہے ليکن اس بات کو ياد رکھيں کہ "خودی نہ بيچ غريبی ميں نام پيدا کر"
گو زبانيں اور ثقافتيں باہم مل جاتيں ہيں ليکن اس طرح نھيں کے ايک فيصد سے بھی کم لوگ دوسری زبان کو اپنانے کی بات کريں۔
(اگر اس میں کوئی غلطی نظر آئے تو برائے مہربانی اصلاح کے لیے لکھ دیجئے گا کیونکہ ایک پتھر کو تراش خراش کے بعد ہی ہیرا کہا جاتا ہے)