حسان خان
لائبریرین
سب سے پہلے محترمی محمد وارث کے بلاگ سے ابوسعید ابوالخیر کا مختصر تعارف:
"شیخ ابوسعید فضل اللہ بن ابوالخیر احمد بن محمد بن ابراہیم، چوتھی اور پانچویں صدی ہجری (دسویں و گیارہویں صدی عیسوی) کے ایک نامور عارف اور معروف شاعر ہیں۔ فارسی شاعری میں آپ کا مقام انتہائی بلند سمجھا جاتا ہے کہ آپ نے ہی فارسی شاعری میں تصوف کا پرچار کیا اور تصوف کی تعلیمات کو شاعری کے رنگ میں پیش کیا اور شاعری میں تصوف کی ایسی مضبوط بنیاد رکھی جس پر آج تک، ہزار سال گزرنے کے بعد بھی، بلند و بالا و پُر شکوہ عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں۔ شیخ ابوسعید ابوالخیر کو مشہور صوفی حضرت بایزید بسطامی اور منصور حلاج کی تعلیمات بہت پسند تھیں اور اپنی شاعری میں منصور کی تعریف جا بجا کی ہے۔ آپ کی شاعری کے اثرات بعد کے صوفی شعراء پر کافی گہرے ہیں جیسے شیخ فرید الدین عطار آپ کو اپنا روحانی استاد کہا کرتے تھے۔
شیخ ابوسعید، مشہور عالم ابنِ سینا کے ہم عصر تھے، ان دونوں کی ایک ملاقات بہت مشہور ہے جس میں دونوں حضرات تین دن تک تخلیے میں گفت و شنید کرتے رہے، ملاقات کے بعد ابنِ سینا کے شاگردوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے شیخ سے کیا حاصل کیا، انہوں نے کہا کہ میں جو کچھ بھی جانتا ہوں وہ اس کو دیکھ سکتے ہیں، دوسری طرف شیخ کے مریدین نے آپ سے سوال کیا کہ آپ نے ابنِ سینا سے کیا حاصل کیا آپ نے کہا کہ میں جو کچھ بھی دیکھ سکتا ہوں وہ اسے جانتا ہے۔ ایک صوفی اور ایک عالم کی ایک دوسرے کیلیے یہ کلمات آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔"
شاعری میں شیخ ابوسعید کی خاص پہچان انکی رباعیات ہیں، جو تصوف و عرفان و معرفت و حقیقت کے اسرار سے پر ہیں اور چہار دانگ شہرت حاصل کر چکی ہیں۔"
منبع
اُن کی یہ رباعی کافی مشہور ہے:
باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ
ایں درگۂ ما درگۂ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
واپس آ جاؤ، واپس آ جاؤ۔۔ تم جو بھی ہو، واپس آ جاؤ
چاہے کافر ہو، مجوسی ہو یا بت پرست ہو، واپس آجاؤ
یہ ہماری درگاہ ناامیدی کی درگاہ نہیں ہے
اگر سو بار توبہ توڑ چکے ہو تو بھی واپس آ جاؤ
==========================
مندرجہ ذیل تصاویر اور اُن کے کیپشن کے لیے ریڈیو فری یورپ کے ترکمن شعبے کا شکرگزار ہوں۔
یہ مقبرہ قدِیم مہنہ شہر میں گیارہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوا تھا۔ یہ مقبرہ ۹۶۷ سے ۱۰۴۹ عیسوی کے درمیان زندگی بسر کرنے والے صوفی شیخ اور عارف ابوسعید ابولخیر کی قبر کے اوپر تعمیر ہوا تھا۔ منہ بابا (ترکمن انہیں اسی طرح یاد کرتے ہیں) اپنی عمر دینی تعلیمات سکھانے میں صرف کی اور انجامِ کار اسلام کی ایک شاخ تصوف کی عظیم شخصیت بن گئے۔
مقبرے کا دروازہ
زائرین مقبرے کی جانب جا رہے ہیں۔
مقبرے کا عمومی منظر
مقبرے کے اندر کا حصہ
زائرین کے لیے بنی نماز کی جگہ
منہ بابا کی قبر
مقبرے کے قریب عربی نقاشی کا حامل پتھر
مقبرے کے سامنے موجود قبروں میں سے ایک
گنبد کا اندرونی حصہ
قدیم مسجد کا باقی ماندہ حصہ
طہارت کے لیے لوٹے
مقبرے سے گرے ہوئے پتھر
مقبرے کے پاس زائرین کے لیے معلومات
("منہ بابا کا گنبد
عجائبات میں شامل یہ عمارت عالمِ اسلام اور مشرقی ادبیات میں ابوسعید ابوالخیر کے نام سے مشہور عارف، استادِ سخن اور ہمارے پیر منہ بابا کی آرام گاہ ہے۔
ترکمن سلجوق سلطنت کی اساس رکھنے والے برادران طغرل بیگ اور چاغری بیگ کے لیے دعا کرنے والے ان عالی مرتبت انسان کے گنبد کی پوری ساخت میں بارہویں صدی عیسوی اور پندرہویں صدی عیسوی کی طرزِ تعمیر کے بے نظیر نمونے حاصل کر کے لگائے گئے تھے۔
یہ یادگار حکومت کے زیرِ تحفظ ہے۔")
منہ بابا کے نام سے جانے والے عارف اور استادِ سخن ابوسعید ابوالخیر کا مقبرہ
منبع
"شیخ ابوسعید فضل اللہ بن ابوالخیر احمد بن محمد بن ابراہیم، چوتھی اور پانچویں صدی ہجری (دسویں و گیارہویں صدی عیسوی) کے ایک نامور عارف اور معروف شاعر ہیں۔ فارسی شاعری میں آپ کا مقام انتہائی بلند سمجھا جاتا ہے کہ آپ نے ہی فارسی شاعری میں تصوف کا پرچار کیا اور تصوف کی تعلیمات کو شاعری کے رنگ میں پیش کیا اور شاعری میں تصوف کی ایسی مضبوط بنیاد رکھی جس پر آج تک، ہزار سال گزرنے کے بعد بھی، بلند و بالا و پُر شکوہ عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں۔ شیخ ابوسعید ابوالخیر کو مشہور صوفی حضرت بایزید بسطامی اور منصور حلاج کی تعلیمات بہت پسند تھیں اور اپنی شاعری میں منصور کی تعریف جا بجا کی ہے۔ آپ کی شاعری کے اثرات بعد کے صوفی شعراء پر کافی گہرے ہیں جیسے شیخ فرید الدین عطار آپ کو اپنا روحانی استاد کہا کرتے تھے۔
شیخ ابوسعید، مشہور عالم ابنِ سینا کے ہم عصر تھے، ان دونوں کی ایک ملاقات بہت مشہور ہے جس میں دونوں حضرات تین دن تک تخلیے میں گفت و شنید کرتے رہے، ملاقات کے بعد ابنِ سینا کے شاگردوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے شیخ سے کیا حاصل کیا، انہوں نے کہا کہ میں جو کچھ بھی جانتا ہوں وہ اس کو دیکھ سکتے ہیں، دوسری طرف شیخ کے مریدین نے آپ سے سوال کیا کہ آپ نے ابنِ سینا سے کیا حاصل کیا آپ نے کہا کہ میں جو کچھ بھی دیکھ سکتا ہوں وہ اسے جانتا ہے۔ ایک صوفی اور ایک عالم کی ایک دوسرے کیلیے یہ کلمات آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔"
شاعری میں شیخ ابوسعید کی خاص پہچان انکی رباعیات ہیں، جو تصوف و عرفان و معرفت و حقیقت کے اسرار سے پر ہیں اور چہار دانگ شہرت حاصل کر چکی ہیں۔"
منبع
اُن کی یہ رباعی کافی مشہور ہے:
باز آ باز آ ہر آنچہ ہستی باز آ
گر کافر و گبر و بت پرستی باز آ
ایں درگۂ ما درگۂ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ
واپس آ جاؤ، واپس آ جاؤ۔۔ تم جو بھی ہو، واپس آ جاؤ
چاہے کافر ہو، مجوسی ہو یا بت پرست ہو، واپس آجاؤ
یہ ہماری درگاہ ناامیدی کی درگاہ نہیں ہے
اگر سو بار توبہ توڑ چکے ہو تو بھی واپس آ جاؤ
==========================
مندرجہ ذیل تصاویر اور اُن کے کیپشن کے لیے ریڈیو فری یورپ کے ترکمن شعبے کا شکرگزار ہوں۔
یہ مقبرہ قدِیم مہنہ شہر میں گیارہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوا تھا۔ یہ مقبرہ ۹۶۷ سے ۱۰۴۹ عیسوی کے درمیان زندگی بسر کرنے والے صوفی شیخ اور عارف ابوسعید ابولخیر کی قبر کے اوپر تعمیر ہوا تھا۔ منہ بابا (ترکمن انہیں اسی طرح یاد کرتے ہیں) اپنی عمر دینی تعلیمات سکھانے میں صرف کی اور انجامِ کار اسلام کی ایک شاخ تصوف کی عظیم شخصیت بن گئے۔
مقبرے کا دروازہ
زائرین مقبرے کی جانب جا رہے ہیں۔
مقبرے کا عمومی منظر
مقبرے کے اندر کا حصہ
زائرین کے لیے بنی نماز کی جگہ
منہ بابا کی قبر
مقبرے کے قریب عربی نقاشی کا حامل پتھر
مقبرے کے سامنے موجود قبروں میں سے ایک
گنبد کا اندرونی حصہ
قدیم مسجد کا باقی ماندہ حصہ
طہارت کے لیے لوٹے
مقبرے سے گرے ہوئے پتھر
مقبرے کے پاس زائرین کے لیے معلومات
("منہ بابا کا گنبد
عجائبات میں شامل یہ عمارت عالمِ اسلام اور مشرقی ادبیات میں ابوسعید ابوالخیر کے نام سے مشہور عارف، استادِ سخن اور ہمارے پیر منہ بابا کی آرام گاہ ہے۔
ترکمن سلجوق سلطنت کی اساس رکھنے والے برادران طغرل بیگ اور چاغری بیگ کے لیے دعا کرنے والے ان عالی مرتبت انسان کے گنبد کی پوری ساخت میں بارہویں صدی عیسوی اور پندرہویں صدی عیسوی کی طرزِ تعمیر کے بے نظیر نمونے حاصل کر کے لگائے گئے تھے۔
یہ یادگار حکومت کے زیرِ تحفظ ہے۔")
منہ بابا کے نام سے جانے والے عارف اور استادِ سخن ابوسعید ابوالخیر کا مقبرہ
منبع