حسان خان
لائبریرین
('مرو' افغانستان اور ایران کی سرحد پر واقع علاقے کا نام ہے جو تاریخی خراسانِ بزرگ کا جز مانا جاتا تھا۔ اس علاقے کی تاریخی حیثیت مسلّم ہے اور قرونِ وسطیٰ کی کئی اہم شخصیات نے اسی علاقے میں اپنی آنکھیں کھولی اور بند کی ہیں۔ اس صوبے کے مرکز کا نام بھی 'مرو' ہی ہے جسے یونیسکو نے اپنی تاریخی حیثیت کی بنا پر عالمی میراث کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ اس کا درست تلفظ marv ہے۔)
مرو صوبے کے شہر ترکمن قلعہ کے اطراف میں واقع 'تازہ دیہان' نامی اشتراکی کھیت دو حصوں سے عبارت ہے۔ اس کے ایک حصے میں ترکمن، جبکہ دوسرے حصے میں بلوچ زندگی بسر کرتے ہیں۔
ترکمنستان کے نژادی بلوچ زیادہ تر مرو صوبے کے بایرام علی اور یولؤتن نامی علاقوں میں رہتے ہیں۔
اس علاقے کے بلوچ اساساً زراعت اور مویشی پروری کے ذریعے کسبِ معاش کرتے ہیں۔
'تازہ دیہان' نامی اشتراکی کھیت میں ایک جگہ کا منظر
'تازہ دیہان' نامی اشتراکی کھیت کا ایک بلوچ نشیں کوچہ
مکتب کی طرف جاتے ہوئے بلوچ بچے
اگر دسترس میں موجود اعداد و شمار پر تکیہ جائے تو ترکمنستان کے بلوچوں کی تعداد ۱۹۹۷ء میں ۳۸ ہزار سے ۴۸ ہزار کے درمیان تھی۔
ان بلوچوں کی اکثریت گذشتہ صدی کے آغاز میں افغانستان کے صوبے نیمروز کے علاقے چخانسور کے آس پاس سے ہجرت کر کے ترکمنستان میں آئی تھی۔
(متن اور تصاویر کا منبع: ترکمن اخبار 'آزاد خبر')
زبیر مرزا تلمیذ محمود احمد غزنوی
مرو صوبے کے شہر ترکمن قلعہ کے اطراف میں واقع 'تازہ دیہان' نامی اشتراکی کھیت دو حصوں سے عبارت ہے۔ اس کے ایک حصے میں ترکمن، جبکہ دوسرے حصے میں بلوچ زندگی بسر کرتے ہیں۔
ترکمنستان کے نژادی بلوچ زیادہ تر مرو صوبے کے بایرام علی اور یولؤتن نامی علاقوں میں رہتے ہیں۔
اس علاقے کے بلوچ اساساً زراعت اور مویشی پروری کے ذریعے کسبِ معاش کرتے ہیں۔
'تازہ دیہان' نامی اشتراکی کھیت میں ایک جگہ کا منظر
'تازہ دیہان' نامی اشتراکی کھیت کا ایک بلوچ نشیں کوچہ
مکتب کی طرف جاتے ہوئے بلوچ بچے
اگر دسترس میں موجود اعداد و شمار پر تکیہ جائے تو ترکمنستان کے بلوچوں کی تعداد ۱۹۹۷ء میں ۳۸ ہزار سے ۴۸ ہزار کے درمیان تھی۔
ان بلوچوں کی اکثریت گذشتہ صدی کے آغاز میں افغانستان کے صوبے نیمروز کے علاقے چخانسور کے آس پاس سے ہجرت کر کے ترکمنستان میں آئی تھی۔
(متن اور تصاویر کا منبع: ترکمن اخبار 'آزاد خبر')
زبیر مرزا تلمیذ محمود احمد غزنوی