نور وجدان
لائبریرین
ترکِ وفا کی سر گزشت تیرے نام سے تھی
تحریر داستاں یہ منظر پہ عام سی تھی
ڈیرا مرا یہ کیسا اب تیرے شہر پھر سے
مانا کی جو محبت وہ بھی بے نام سی تھی
ہمدم رہا ترا سایہ بے خودی میں میری
اے ہم سفر تو چاہِ حسرت نا کام سی تھی
میں انتظار کرتی کیا تیری واپسی کا
سانسیں رکی رکی تھیں تحریک جام سی تھی
میں روم روم میں بس جاتی گلہ نہ ہوتا
چرچے نگر نگر یہ تو بات عام سی تھی
اے نورؔ وہ رفاقت بھی کیسی ساتھی پل کا
ہاں وہ کبھی کی قربت گامِ بہ گام سی تھی
آخری تدوین: