ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ایک بہت پرانی غزل احباب کی خدمت میں ۔ نومشقی کے زمانے کا اکثر کلام تو مسترد کرکے ضائع کرچکا ہوں سوائے دو تین غزلوں کے۔ اس غزل کو صرف اسی لئے محفوظ رکھا ہے کہ کچھ یادیں اس سے وابستہ ہیں ۔
ترکِ یقین کرکے اُس کو بھلا رہا ہوں
برسوں میں جس کی خاطر محوِ دعا رہا ہوں
شاید ملے دفینہ بنیاد میں کسی کی
میں قصرِ ذات کی ہر دیوار ڈھا رہا ہوں
عہدِ بہارِ رفتہ کی تازہ آرزو میں
گزرے ہوئے دنوں کو اب تک منارہا ہوں
اُس عشقِ رائیگاں سے حاصل یہی ہوا ہے
میں لوحِ دل سے حرفِ نفرت مٹا رہا ہوں
ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۹۸۸
ترکِ یقین کرکے اُس کو بھلا رہا ہوں
برسوں میں جس کی خاطر محوِ دعا رہا ہوں
شاید ملے دفینہ بنیاد میں کسی کی
میں قصرِ ذات کی ہر دیوار ڈھا رہا ہوں
عہدِ بہارِ رفتہ کی تازہ آرزو میں
گزرے ہوئے دنوں کو اب تک منارہا ہوں
اُس عشقِ رائیگاں سے حاصل یہی ہوا ہے
میں لوحِ دل سے حرفِ نفرت مٹا رہا ہوں
ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۹۸۸
آخری تدوین: