ترکیب برائے حصولِ انصاف

عاطف بٹ

محفلین
انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت کی جانب سے شاہزیب قتل کیس کے دو ملزمان، شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور، کو سزائے موت اور دو ملزمان، سجاد علی تالپور اور مرتضیٰ لاشاری، کو عمر قید سنائے جانے کا فیصلہ خوش آئند ہے کہ بہرطور کسی بھی جرم کا ارتکاب کرنے والے کو کیفرِ کردار تک پہنچنا چاہئے۔ یہ مقدمہ تقریباً ساڑھے پانچ مہینے کے عرصے میں فیصل ہوگیا۔ اس کیس کے حوالے سے میڈیا کی لاجواب کوریج، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بےمثال مستعدی اور باکمال عدالتی کارروائی دیکھ کر ہمیں تو کئی بار ایسا محسوس ہوا کہ جیسے کراچی میں 24 دسمبر 2012ء کی رات کو شاہ رخ جتوئی کے ہاتھوں شاہزیب نہیں بلکہ قابیل کے ہاتھوں ہابیل کا قتل ہوگیا تھا کہ انسانی تاریخ کے اس پہلے قتل کا ارتکاب کرنے والے کو سزا دلوائے بغیر نہ تو میڈیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چین آنا تھا اور نہ ہی اسے سزا دئیے بغیر عدالت کے وجود کا کوئی جواز باقی بچتا۔
پاکستان میں کوئی اخبار کسی خبر کو چھاپتے یا کوئی ٹیلیویژن اسے نشر کرتے ہوئے کتنی غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتا ہے اس امر سے واقفیت کے لئے آئن سٹائن جیسی ذہانت و فطانت درکار نہیں ہے۔ یہاں جرائم کے انسداد کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے ادارے کس حد تک اپنا کردار دیانتداری سے ادا کرتے ہیں یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ کسی عدالت میں چھوٹے سے چھوٹے مقدمے کا فیصلہ بھی کتنے عرصے میں ہوتا ہے اس کا اندازہ بھی تقریباً ہر شہری کو ہے۔
ان تمام عناصر کو سامنے رکھتے ہوئے اگر شاہزیب قتل کیس اور اس کے حوالے سے میڈیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مستقبل میں قتل ہونے والے تمام پاکستانیوں سے یہ گزارش کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اگر آپ واقعی اپنے قاتل کو سزا دلوانا چاہتے ہیں تو اپنے قتل سے پہلے اپنے والدِ محترم کو کم از کم ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے منصبِ جلیل پر فائز کروائیے اور پھر انہیں کہیے کہ اس حد تک دولت کمالیں کہ ملک کے کسی بھی بڑے شہر کے پوش علاقے میں کم از کم ایک بڑی سی کوٹھی اور چند ایک گاڑیاں ان کی ملکیت ہوں۔ علاوہ ازیں، آپ کا ایک رشتہ دار نبیل گبول جتنا طاقتور سیاستدان بھی ہونا چاہئے۔ بس جب اس ترکیب کے مذکورہ تمام اجزاء پورے ہوجائیں تو پھر آپ سہولت سے قتل ہوسکتے ہیں کہ اب آپ کے قتل کے فوراً بعد میڈیا آپ پر ہونے والے ظلم کو اس حد تک جانفشانی کے ساتھ منظر عام پر لائے گا کہ قانون کے نفاذ پر مامور فرض کی انجام دہی کو بےچین افسران و اہلکاران بیرونِ ملک سے بھی جا کر آپ کے قاتل کو پکڑ لائیں گے اور پھر ہر لمحہ عدل و انصاف بانٹتی عدالتیں چند ہی مہینوں میں اس ظالم کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لئے فیصلہ صادر فرما دیں گی۔
 
ایک اور چیز کی ضرورت ہے
اپ کی پشت پر ایم کیو ایم جیسی تنظیم بھی ہو
یعنی نبیل گبول بھی ہو ساتھ میں اور ایم کیوا یم بھی
ورنہ کراچی کی سڑکوں پر مرتے رہو کوئی پوچھنے والانہیں
 

نایاب

لائبریرین
میڈیا ۔۔۔۔۔ عدالتیں ۔ سیاستدان ہی کیا ہم سب پاکستانی " کرپشن " کی انتہا پر ہیں ۔
آثار کچھ ایسے ہیں کہ ان کی سزا پر کچھ ہی دنوں میں " لسانی " مفادات کی جنگ شروع ہوگی ۔
اور ہم دامے درمے سخنے اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے ۔۔۔۔۔۔۔
 

سید زبیر

محفلین
اب دیکھنا ہے اس پر عمل بھی ہوتا ہے کہ نہیں

سرکار !ابھی اس میں کم از کم تیس سال لگیں گے ۔ جہاں خلع کے مقدمے کا فیصلہ بائیس سالوں میں ہوتا ہے تو ایسا مقدمہ کا فیصلہ تو تیس سے پہلے نا ممکن ہے ۔ وہ بھٹو ہی مقدمہ تھا جہاں انصاف نے سرعت کا مظاہرہ کیا تھا
 

سید زبیر

محفلین
بھائی کیاملٹری کا عہدہ نہیں چلے گا؟ صرف پولیس کا ہی چلے گا؟:grin:

ملٹری کا عہدہ نہیں چلے گا سر ! ارسلان افتخار ، حسین حقانی کو ایف آئی اے اور پولیس کے چکروں سے ملٹری نے نہیں سول نے چھڑایا تھا۔ اب سول لا مافیا چلے گا ۔جیسے بھٹو سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے تھے ۔ یہی سلطانیِ جمہور ہے
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ٹھیک کہا عاطف بٹ ۔ ویسے چاہے بااثر والدین یا رشتہ داروں کے دباؤ کی وجہ سے ہی فیصلہ جلدی ہو گیا ہو ، آج ٹیلی ویژن پر ان نونہالوں کو پولیس کی گاڑی سے نکلتے اور واپس بیٹھتے ہوئے دیکھ کر میں کوشش کے باوجود ان کے چہروں پر شرمندگی یا پریشانی کا کوئی تاثر تلاش نہیں کر سکی۔ جس طرح گاڑی میں موجود مجرم سگریٹ سلگا کر بیٹھا تھا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ بااثر رشتہ داروں کو وقتی طور پر چپ کروایا گیا ہے اور مجرم مزے میں chill کر رہے ہیں۔ جیسے انہیں یقین ہے کہ انہیں کچھ نہیں ہو گا۔
اور اگر ایسا ہوا تو مجھے انتہائی افسوس ہو گا کیونکہ مجھے حقیقتاً شاہ رخ جتوئی کی حرکت پر شدید غصہ تھا اور اب بھی ہے۔
 
ٹھیک کہا عاطف بٹ ۔ ویسے چاہے بااثر والدین یا رشتہ داروں کے دباؤ کی وجہ سے ہی فیصلہ جلدی ہو گیا ہو ، آج ٹیلی ویژن پر ان نونہالوں کو پولیس کی گاڑی سے نکلتے اور واپس بیٹھتے ہوئے دیکھ کر میں کوشش کے باوجود ان کے چہروں پر شرمندگی یا پریشانی کا کوئی تاثر تلاش نہیں کر سکی۔ جس طرح گاڑی میں موجود مجرم سگریٹ سلگا کر بیٹھا تھا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ بااثر رشتہ داروں کو وقتی طور پر چپ کروایا گیا ہے اور مجرم مزے میں chill کر رہے ہیں۔ جیسے انہیں یقین ہے کہ انہیں کچھ نہیں ہو گا۔
اور اگر ایسا ہوا تو مجھے انتہائی افسوس ہو گا کیونکہ مجھے حقیقتاً شاہ رخ جتوئی کی حرکت پر شدید غصہ تھا اور اب بھی ہے۔
بے شرمی کی انتہا ہے کہ اب کرپشن یا قتل کے کیسز میں سزا پنے والے مجرم عدالتوں سے نکل کر وکٹری کے نشان ایسے بناتے ہیں جیسے کوئی آزادی کی تحریک کاہیرو آزادی کی جدوجہد کے نتیجے میں عدالت سے موت کی سزا پاکر فخر کا اظہار کرتا ہے۔۔۔اوپر سے دانت بھی نکال رہے ہیں:thumbsdown2:
 

عسکری

معطل
ملٹری کا عہدہ نہیں چلے گا سر ! ارسلان افتخار ، حسین حقانی کو ایف آئی اے اور پولیس کے چکروں سے ملٹری نے نہیں سول نے چھڑایا تھا۔ اب سول لا مافیا چلے گا ۔جیسے بھٹو سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے تھے ۔ یہی سلطانیِ جمہور ہے
لو اب دوبارہ سے شروع کرنا ہو گا :(
 

قیصرانی

لائبریرین
ابھی تو پہلی اپیل ہوگی، پھر دوسری پھر تیسری، پھر سزا پر عمل درآمد جب ہوگا، تب تک شاید مجرم بھی زندہ ہو
 
Top