اشرف علی بستوی
محفلین
رجب طیب اردغان ترکی کے لیے نعمت ثابت ہوئے ہیں : یوسف کاراجا
ترک دانشور یوسف صالح کاراجا سے اشرف علی بستوی کی سے خصوصی ملاقات
یوسف کاراجا ترکی کے عالمی شہرت یافتہ اسکالر ہیں جنہوں نے مولانا مودودی کی تصنیف تفہیم القرآن، مولانا علی میاں ندوی کی کئی تصانیف، تبلیغی جماعت کی معروف کتاب فضائل اعمال سمیت درجنوں کتابوں کا ترجمہ اردو سے ترکی زبان میں کیا ہے۔ موصوف دسمبر کیاوائل میں شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ اتر پردیش کی صدی تقریبات میں شرکت کے لیے ہندوستان تشریف لائے تھے۔ دوران سفر دہلی میں ان کا قیام مرکز جماعت اسلامی ہند میں رہا۔ اس موقع پر اشرف علی بستوی نے ان سے ایک خصوصی ملاقات میں ترکی کی موجودہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورت حال پر گفتگو کی اوردور حاضر میں ترکی کو درپیش چیلنجوں اور ان سے نمٹنے کی موجودہ حکومت کی حکمت عملی کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ترک دانشور یوسف صالح کاراجا سے اشرف علی بستوی کی سے خصوصی ملاقات
یوسف کاراجا ترکی کی صدر رجب طیب اردغان کے ساتھ ٹھیک دائیں جانب ۔۔۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو
سوال : آپ نے پہلی بار ہندوستان کا سفر کب اور کس غرض سے کیا تھا نیز ہندوستان اور ترکی کے درمیان آپ کیا چیزیں مشترک پاتے ہیں ؟
جواب: سچ کہوں تو ترکی میرا مادر وطن اور ہندوستان میرا مادرعلمی ہے اس لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نصف ترکی اور نصف ہندوستانی ہوں ، ترکی میں جس کسی کو ہندوستان کے بارے میں کچھ جاننے سمجھنے کی خواہش ہوتی ہے مجھے رجوع کرتا ہے۔ میں حصول تعلیم کی غرض سے 1959میں ہندوستا ن آگیا تھا اور لکھنو شہر میں واقع اسلامی درس گاہ ندو ہ العلما ء4 میں تعلیم حاصل کی۔ اس طرح مجھے ہندوستان کو بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا نیز یہاں کی اہم ترین علمی شخصیات سے استفادہ کا شرف حاصل ہوا۔ ہندوستان اور ترکی کے درمیان تاریخی تعلقات رہے ہیں ، دونوں ملک اپنا شاندار ماضی رکھتے ہیں۔ میرے نزدیک ہندوستان کی تقسیم کا سانحہ بڑی غلطی تھی ، میرے خیال میں غیر منقسم ہندوستان میں مسلمان زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوتے اور سرکاری نظام میں مسلما نوں کی متناسب نمائندگی ہوتی۔ میرے خیال میں صحت مند اسلا می تصور اوراسلامی تعلیمات پر عمل کے معاملے میں ہندوستانی مسلمان پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں سے زیادہ بہتر ہیں۔
سوال: آپ نے ندو میں تعلیم پائی ہے اور علی میاں ندوی سے آپ کو براہ راست استفا دہ کا موقع ملا ہے ، کوئی یادگار لمحہ جو آپ کو اکثر یاد آتا ہو؟
جواب: علی میاں میرے والد کے مانند تھے اور انہوں نے بھی ہمیشہ اپنے بیٹے کی طرح میرا خیال رکھا۔ میں خود کو ان کے بہت قریب پاتا ، مجھے اردو لکھنے پڑھنے کی دل چسپی اور اس کا آسان طریقہ علی میاں نے ہی سکھایا تھا، اور میں نے بہت جلد سات ماہ میں ہی اردو بولنا سیکھ لیا تھا۔ ایک دن کی بات ہے مولانا عبدالماجد دریاآبادی علی میاں سے ملنے آئے مولانا نے جب ان سے میرا تعارف کرایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور پوچھا کہ اتنے کم وقت میں اردو زبان پر یہ قدرت کیسے آئی ؟ وہ مجھ سے اردو میں بات کرکے بہت خوش ہوئے۔
سوال: آپ ترکی کی اہم تعلیمی درسگا ہوں سے طویل عرصے تک وابستہ رہے، وزیر اعظم احمد داود اوغلو کو بھی پڑھایا ہے ، وہ کیسے طا لب علم تھے ؟ نیز ترکی میں اسلامی اقدار کے فروغ اوراسلامی تعلیم کی کیا صورت حال ہے ؟
جواب : میرا یہ شاگرد احمد داو اوغلو اسکول کے زمانے سے ہی بڑا ذہین اور متحرک تھا ، مجھے اس کی ذہانت اور تیزی پر اسی وقت یہ یقین ہو چکا تھا کہ یہ نوجوان آئندہ دنوں میں ضرور کوئی اہم کارنامہ انجام دے گا۔ احمد اوغلو اسی تعلیمی نظا م کی پیداوار ہیں جس متبادل نظام تعلیم کو ترکی کے اسلام پسندوں نے انتہائی مشکل دور میں شروع کیا تھا۔ قابل اطیمنان بات یہ ہے کہ ترکی کے موجودہ تعلیمی نظام میں اب اسلامی اقدار کے فروغ اوراس کے تحفظ کو کافی جگہ مل چکی ہے۔ موجودہ تعلیمی نطام ملک کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں اہم کردار نبھا رہا ہے ، ہماری بچیاں اب حجاب اوڑھ کر تعلیمی اداروں میں جا سکتی ہیں ، جسکی اب سے دو برس قبل تک اجازت نہیں تھی۔ ہمیں فخر ہے کہ اس وقت عدلیہ سمیت کئی اہم حکومتی اداروں میں باحجاب خواتین دکھائی دینے لگی ہیں۔ اس سے قبل یہاں حجاب کو بڑی حقارت کی نظروں سے دیکھا جتا تھا یہاں تک کہ پارلیامینٹ میں بھی حجاب پر مکمل پابندی تھی۔
سوال:کیا ترکی آنے والے دنوں میں مسلم دنیا کیلیے رول ماڈل بن سکتا ہےاورخود ترکی کو اس وقت کن چیلنجوں کا سامنا ہے ؟
جواب : یہ کہنا ابھی جلد بازی ہوگی کہ ترکی دوسرے مسلم ممالک کے لیے رول ماڈل کے طور پر ابھر رہا ہے ، یہ تقریبا ناممکن ہے کیوں کہ اسلام دشمن عالمی طاقتیں ترکی کی ترقی اور خوش حالی کو قطعی پسند نہیں کرتیں بلکہ ترکی میں سیاسی بحران کی فضا بنا نے اورعدم استحکام پیدا کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں ،کچھ لوگوں کو مادی فائدہ اور عہدے کی لالچ دیکر بہکا نے کا کام بھی کیا جا رہا ہے تاکہ ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کر دی جائے اس طرح ترکی کے امن و استحکام کو نقصان پہونچا نے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ لیکن تمام تر چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ترکی قدم بقدم آگے بڑھ رہا ہے ، اور ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ ترکی مسلم دنیا کے لیے رول ماڈل بنے گا۔
سوال: آپ اردو زبان پر قدرت رکھتے ہیں اور اردو کی کئی اہم کتابوں کا ترجمہ ترکی زبان میں کیا ہے اس لیے یہ بتائیں کہ کیا آپ نے ترکی میں اردو دوستوں کی کوئی انجمن قائم کی ہے ؟ یونیورسٹیوں میں اردو درس و تدریس کا کوئی نظم ہے ؟
جواب آج سے 25 برس قبل تک ترکی میں اردو کہیں بھی نہیں پڑھائی جاتی تھی ، لیکن آج استنبول یونیورسٹی سمیت کچھ دیگریونیورسٹیوں میں بھی اردو کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ یونیورسٹیوں میں عربی کے ساتھ ساتھ اردو شعبوں کے قیام کی بھی کوششیں کی جا رہی ہیں ، بلغاریہ کی سرحد کے قریب قائم ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے حالیہ دنوں میری بات ہوئی ہے وہ بھی وہاں اردو ڈپارٹمنٹ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ترکی میں اردو جاننے والے بہت کم ہیں۔ دراصل موجودہ دور میں لوگ اسی زبان کو سیکھنے کی جانب متوجہ ہورہے ہیں جس کا تعلق روزگار سے ہو۔ اگر مستقبل میں ہندوستان اور ترکی درمیان تجارتی تعلقات مزید وسیع ہو ئے تو دونوں ملکوں کے درمیان ترکی اور اردو جاننے والوں کے لیے مواقع پیدا ہوں سکیں گے۔
سوال: اپنے مادر علمی ندوہ کے لیے آپ کی کیا خدما ت ہیں ؟
جواب : اب سے 56 برس قبل تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے میں یہاں آیا ، یہاں کی فضاوں میں پرورش پائی۔ ایک بار مجھے محسوس ہوا کہ اپنے مادر علمی کو جس نے مجھے علم کی دولت سے نوازا اس کی کیا خدمت کروں۔ میں نے ندوہ کی انتظامیہ سے ان کی ضرورت دریافت کی اور طلبہ کے ایک ہاسٹل میں ایک ونگ الگ سے تعمیر کا ذمہ لیا جسے اپنے دیرینہ رفیق عبداللہ صاحب کے گراں قدر تعاون سے مکمل کیا ہے۔ اس وقت 600 طلبا یہاں قیام کرتے ہیں۔
سوال: ترکی کی موجودہ سیاسی صورت حال اور درپیش چیلنجو ں کے تعلق سے صدر رجب طیب اردغان کے حکمت عملی کیا ہے ؟
جواب: ترکی میں اقتدار کی تبدیلی خدا تعالی کی عطا کردہ ہے، میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ صدر رجب طیب اردغان ترکی کے عوام کے لیے خدا کی عطا کردہ نعمت ہیں ۔ اگر ترکی عوام یہ سمجھجنے سے قاصر رہے تو ہمیشہ کے لیے پچھتائیں گے۔ ترکی میں آنے والی اس خوش گوار سیاسی تبدیلی کو بیان کرنے کے لیے وقت درکا رہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ترکی نے ہر میدان میں بہتر پیش رفت کی ہے۔ ترکی 200 برس آگے نکل چکا ہے ، موجودہ ترکی اسپین اور اٹلی سے ہر میدان میں کافی اگے ہے ، اور اب توجرمنی ، فرانس اور انگلینڈ کے بہت قریب آپہونچا ہے۔ ترکی مستحکم معیشت اور معیاری تعلیم دونوں میدان میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
پہلے کوئی بھی ملک ترکی کو قرض نہیں دیتا تھا کیونکہ اس کی واپسی کی صورت نہیں بنتی تھی لیکن اب سب کچھ یکسر تبدیل ہو چکا ہے ، ترکی اب دوسروں کی مالی مدد کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے ، حال ہی میں ترکی نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کو 5 بلین امریکی ڈالر دیے ہیں ۔
سوال : ترکی میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کی صورت حال کیا ہے ؟
جواب: ترکی کے لوگوں میں اسلامی مزاج پیدا ہوا ہے اور اسلامی تعلیمات فروغ پا رہی ہیں ، لیکن تشویش ناک امر یہ بھی ہے کہ اس درمیان نوجوان طبقے میں دین بے زاری بھی پنپ رہی ہے ، حکومت اسلا می ذہن کو فروغ دینے
سوال: آپ ترکی کا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں ؟
جواب: خوش آئند بات یہ ہے کہ عوام کے دلوں میں صدر رجب طیب اردغان کے تئیں محبت و احترام کا جذ بہ ہے، انہیں اور ان کی پارٹی کو چاہنے والوں کی تعداد 60 فیصد سے کم نہیں ہے ، اس کے علاوہ ان کے سیاسی مخالفین کے درمیان میں بھی اردغان کے چاہنے والے موجود ہیں ، اگر ان سبھی کو یکجا کر لیں تو یہ تعداد 80 فیصد ہوجائے گی۔ مضبوط قوت ارادی ، ملک کی تعمیر و ترقی کے تئیں محنت و لگن اور ترک عوام میں بے پناہ مقبولیت سے اردغان نے دنیا کو متاثر کیا ہے۔
بشکریہ ایشیا ٹائمز
- See more at: http://www.asiatimes.co.in/urdu/Asia-Times-Special/2014/12/3021_#sthash.bwep8O5N.dpuf