نمرہ
محفلین
تری آہٹ تھی یا باد صبا تھی
میانِ خواب کل شب رہنما تھی
ہجومِ زندگی میں ، کون سنتا
شکستِ خواب کی آواز کیا تھی
سر مژگاں ستارے تھے پہ لب پر
ترے آباد رہنے کی دعا تھی
پلٹ آئی ہے تنہائی کہ واحد
مرے ہر زاویے کی آشنا تھی
شب ہجراں ستارے بجھ گئے جب
کسی کی یاد سی جلوہ نما تھی
وفا کو دائمی سمجھا تھا، وہ بھی
سرِ ساحل مثالِ نقشِ پا تھی
چمن سے مستقل پیغام تھے، پر
ہمیں صحرا نوردی کی سزا تھی
غم ہستی کا مرہم ڈھونڈتے تھے
محبت کب کہاں کوئی دوا تھی
امید مرگ میں کٹتی رہی عمر
ہمیں شاید کسی کی بددعا تھی
میانِ خواب کل شب رہنما تھی
ہجومِ زندگی میں ، کون سنتا
شکستِ خواب کی آواز کیا تھی
سر مژگاں ستارے تھے پہ لب پر
ترے آباد رہنے کی دعا تھی
پلٹ آئی ہے تنہائی کہ واحد
مرے ہر زاویے کی آشنا تھی
شب ہجراں ستارے بجھ گئے جب
کسی کی یاد سی جلوہ نما تھی
وفا کو دائمی سمجھا تھا، وہ بھی
سرِ ساحل مثالِ نقشِ پا تھی
چمن سے مستقل پیغام تھے، پر
ہمیں صحرا نوردی کی سزا تھی
غم ہستی کا مرہم ڈھونڈتے تھے
محبت کب کہاں کوئی دوا تھی
امید مرگ میں کٹتی رہی عمر
ہمیں شاید کسی کی بددعا تھی