یوسف سلطان
محفلین
تری باتوں میں چکنائی بہت ہے
کہ کم ہے دودھ، بالائی بہت ہے
پُلس کیوں آپ منگوانے لگے ہیں
مجھے تو آپ کا بھائی بہت ہے
محبت کیوں محلے بھر سے کر لیں
ہمیں تو ایک ہمسائی بہت ہے
اسی خاطر ہے چھوٹی ناک اپنی
کہ ہم نے ناک کٹوائی بہت ہے
نشہ ٹوٹا نہیں ہے مار کھا کر
کہ ہم نے پی ہے کم، کھائی بہت ہے
وہ محبوبہ سے بیوی بن نہ جائے
مری ماں کو پسند آئی بہت ہے
تو باقی گالیاں محفوظ کر لے
مجھے اتنی پذیرائی بہت ہے
میں ان میں جھانکنے سے ڈر رہا ہوں
تری آنکھوں میں گہرائی بہت ہے
نہ پھینکو بجلیوں پر بجلیاں تم
ہمیں بس ایک انگڑائی بہت ہے
سنا تو تھا کہ بہروں کے نگر میں
عزیز احمد کی شنوائی بہت ہے
عزیز احمد۔
کہ کم ہے دودھ، بالائی بہت ہے
پُلس کیوں آپ منگوانے لگے ہیں
مجھے تو آپ کا بھائی بہت ہے
محبت کیوں محلے بھر سے کر لیں
ہمیں تو ایک ہمسائی بہت ہے
اسی خاطر ہے چھوٹی ناک اپنی
کہ ہم نے ناک کٹوائی بہت ہے
نشہ ٹوٹا نہیں ہے مار کھا کر
کہ ہم نے پی ہے کم، کھائی بہت ہے
وہ محبوبہ سے بیوی بن نہ جائے
مری ماں کو پسند آئی بہت ہے
تو باقی گالیاں محفوظ کر لے
مجھے اتنی پذیرائی بہت ہے
میں ان میں جھانکنے سے ڈر رہا ہوں
تری آنکھوں میں گہرائی بہت ہے
نہ پھینکو بجلیوں پر بجلیاں تم
ہمیں بس ایک انگڑائی بہت ہے
سنا تو تھا کہ بہروں کے نگر میں
عزیز احمد کی شنوائی بہت ہے
عزیز احمد۔