تری بزمِ ناز میں تھا جو دل کبھی شمعِ روشنِ آرزو - رضا علی وحشت

کاشفی

محفلین
غزل
(رضا علی وحشت)

تری بزمِ ناز میں تھا جو دل کبھی شمعِ روشنِ آرزو
ستمِ زمانہ سے بن گیا وہی آج مدفنِ آرزو

مرا دل ازل کا فسردہ ہے مجھے شوق سے سروکار کیا
نہ ہو اے میکدہء ہوس نہ دماغِ گلشنِ آرزو

وہ اُمیدیں خاک میں مل گئیں وہ تمام نشہ اُتر گیا
نظر اس نے کی جو عتاب کی، ہوئی برقِ خرمن آرزو

گئی یک بیک مری خستگی ہوئی دور ساری شکستگی
کبھی آئی بھول کے سوئے دل جو نسیمِ گلشنِ آرزو

نہ خدنگِ ناز نے رُخ کیا کبھی جانبِ دلِ بے نوا
نہ گل مراد سے پُر ہوا کبھی اپنا دامنِ آرزو

مجھے یاد آتا ہے اپنا دل کہ بہار جس سے تھی منفعل
وہ نہالِ تازہء رنگ و بو وہ چراغِ روشنِ آرزو

نہ کوئی ہوس ہے نہ ولولہ یہ ہے حال وحشتِ خستہ کا
ہے فریب خوردہء آرزو، وہ بنا ہے دشمنِ آرزو
 

کاشفی

محفلین
فاتح صاحب
-
سخنور صاحب
-
سید محمد نقوی صاحب

آپ تینوں احباب کا بیحد شکریہ - خوش رہیں
 
Top