تری بے رخی جو دیکھی، غم دہر کو پکارا

نمرہ

محفلین
تری بے رخی جو دیکھی، غم دہر کو پکارا
کسی طور مانگتا تھا دل سوختہ سہارا
مری زندگی کی شب میں ہے الگ ہی تیرگی کچھ
نہ مہ وصال آئے، نہ فراق کا ستارا
نہ ٹھہر کے تو نے دیکھا، نہ مری سمجھ میں آیا
مرا زیر لب تبسم، تری آنکھ کا اشارا
وہی غم رفیق دل تھے جو رہے ہیں ساتھ میرے
کوئی ہم نفس ملا تو وہ نہ مل سکا دوبارا
تھی ہماری کج ادائی کہ جہاں کی کم نگاہی
نہ رہے ہیں ہم کسی کے، نہ ہوا کوئی ہمارا
مری بے دلی کے مارے، مرے ذوق جستجو میں
نہ بھنور ہی راس آئے، نہ ملا مجھے کنارا
جو جنوں کو تھامے رکھا تو خرد کو بھی نہ چھوڑا
گہے دشت میں پھرے ہم، گہے زلف کو سنوارا
نہیں تھا عزیز تر کچھ ہمیں آبروئے دل سے
کیا ہم نے اس کی خاطر ہی قبول ہر خسارا
لب آرزو جو وا ہو تو کہاں ہو اور کیوں ہو
ہمیں ایک دل بہت ہے غم آرزو کا مارا
 
مگر کیوں ؟ :) مثبت تنقید تو شاذو نادر ہی ہوتی ہے کہیں اور۔
یہ بات تو درست ہے۔
اسے اپنی غزل پر میری رائے سمجھ لیجیے کہ غزل اصلاح سے ماورا ء ہے :)
ورنہ عیب نکالنا ہی مقصد ہو تو میر و غالب میں بھی نکل آتا ہے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ واہ!!!! سبحان اللہ سبحان اللہ! بہت اعلیٰ! بہت اچھی غزل ہے!!!
شروع کے چند اشعار تو بہت ہی کمال ہیں !! بہت داد آپ کے لئے نمرہ صاحبہ!

بس اس شعر پر نظر کچھ ٹھٹکتی ہے :
مری بے دلی کے مارے، مرے ذوق جستجو میں
نہ بھنور ہی راس آئے ، نہ ملا مجھے کنارا

یہاں اگر ’’ ذوقِ جستجو میں‘‘ کے بجائے ’’ذوقِ جستجو کو ‘‘ ہو تو بہتر ہوگا ۔ اگر یوں کرلیا جائے تو پھر نتیجتاً دوسرے مصرع میں ’’مجھے کنارا ‘‘کے بجائے ’’کوئی کنارا‘‘ لانا ہوگا ۔ نیز ، بے دلی کے مارے بھی کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑ رہا ۔ یہاں ذرا سا طنزیہ ہونے میں کوئی برائی نہیں ۔
مری بے دلی کے صدقے! مرے ذوق جستجو کو
نہ بھنور ہی راس آئے ، نہ ملا کوئی کنارا
اگرچہ موجودہ صورت میں بھی شعر درست ہے لیکن میری دانست میں ایسا کرنے سے پہلا مصرع دوسرے مصرع سے اور زیادہ پیوست ہوجائے گا ۔ یہ محض میری ناقص رائے ہے اور آپ اپنے شعر کو مجھ سے بہتر جانتی ہیں ۔

ساتویں شعر میں ٹائپو ہوگیا ہے ۔ گہے کو گہِ کرلیجئے ۔

ایک بار پھر بہت سی داد آپ کے لئے ۔ جتنی غزلیں آپ کی اب تک نظر سے گزری ہیں ان میں یہ غزل سب سے زیادہ پسند آئی ہے ! کیا پختگی نمایاں ہے!
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
 

نمرہ

محفلین
واہ واہ واہ!!!! سبحان اللہ سبحان اللہ! بہت اعلیٰ! بہت اچھی غزل ہے!!!
شروع کے چند اشعار تو بہت ہی کمال ہیں !! بہت داد آپ کے لئے نمرہ صاحبہ!

بس اس شعر پر نظر کچھ ٹھٹکتی ہے :
مری بے دلی کے مارے، مرے ذوق جستجو میں
نہ بھنور ہی راس آئے ، نہ ملا مجھے کنارا

یہاں اگر ’’ ذوقِ جستجو میں‘‘ کے بجائے ’’ذوقِ جستجو کو ‘‘ ہو تو بہتر ہوگا ۔ اگر یوں کرلیا جائے تو پھر نتیجتاً دوسرے مصرع میں ’’مجھے کنارا ‘‘کے بجائے ’’کوئی کنارا‘‘ لانا ہوگا ۔ نیز ، بے دلی کے مارے بھی کچھ اچھا تاثر نہیں چھوڑ رہا ۔ یہاں ذرا سا طنزیہ ہونے میں کوئی برائی نہیں ۔
مری بے دلی کے صدقے! مرے ذوق جستجو کو
نہ بھنور ہی راس آئے ، نہ ملا کوئی کنارا
اگرچہ موجودہ صورت میں بھی شعر درست ہے لیکن میری دانست میں ایسا کرنے سے پہلا مصرع دوسرے مصرع سے اور زیادہ پیوست ہوجائے گا ۔ یہ محض میری ناقص رائے ہے اور آپ اپنے شعر کو مجھ سے بہتر جانتی ہیں ۔

ساتویں شعر میں ٹائپو ہوگیا ہے ۔ گہے کو گہِ کرلیجئے ۔

ایک بار پھر بہت سی داد آپ کے لئے ۔ جتنی غزلیں آپ کی اب تک نظر سے گزری ہیں ان میں یہ غزل سب سے زیادہ پسند آئی ہے ! کیا پختگی نمایاں ہے!
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
داد کے لیے بہت شکریہ۔ پختگی پر میں یوں بھی خوش ہو سکتی ہوں کہ یہ کافی تازہ کلام ہے۔
ذوق جستجو میں، میری نظر میں بھی ذرا مشکوک تھا مگر اس کا کوئی متبادل سمجھ میں نہیں آیا۔ اب دیکھتی ہوں۔ اس طرح دیکھیے:

مری بے دلی کے باعث مرے ذوق جستجو کو
نہ بھنور ہی راس آئے، نہ ملا کوئی کنارہ

ساتویں شعر میں تو عمدا غلطی ہے، میرا خیال تھا کہ اسے یونہی لکھا جاتا ہے۔ آئندہ صحیح لکھنا پڑے گا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اعجاز بھائی بہت شکریہ !
جس وقت غزل دیکھ رہا تھا تو نجانے کیا خیال ذہن میں تھا ۔ نمرہ صاحبہ ، اس شعر میں گہے کا ہی محل ہے ، گہِ کا تو محل ہی نہیں ہے ۔ اس کے لئے ازحد معذرت خواہ ہوں ۔
 

نمرہ

محفلین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
معنی میں کیا فرق ہے دونوں کے ؟
گہے مخفف ہے گاہے کا اور اس کے معنی ہیں کبھی یا کبھی کبھی ۔ جیسے میں وہاں گاہے گاہے چلاجاتا ہوں ۔
گہ مخفف ہے گاہ کا اور اس کے معنی ہیں جگہ ۔ جیسے کارگاہِ ہستی یا کارگہِ ہستی وغیرہ ۔

وہ شعر پڑھتے وقت کچھ التباس ہوگیا تھا ۔ اس کے لئے آپ سے معذرت خواہ ہوں ۔
 
Top