مرزا عبدالعلیم بیگ
محفلین
رُوح کے ویراں زمانوں سے کہیں
رات چُپکے چُپکے سفر کرتی
تری سُہاؤنی خوشبو چلی آتی ہے
دلِ وحشی کا تلاطم ٹھہر جاتا ہے
نیند درخشاں ستارے کی طرح
آنکھ سے دُور آسمانوں میں اٹک جاتی ہے
اور پھر پھیلتا جاتا ہے لفظوں کا فسوں
خوابوں کی دستک کا انتظار
آوارہ ہواؤں کی صدائیں
گزرے لمحوں کی یادیں
اور پھر ساری صدائیں سبھی یادیں
تری سُہاؤنی خوشبو میں ڈھل جاتی ہیں
چُپکے چُپکے سفر کرتی
میں جہاں کہیں بھی ہوں
شہر در شہر سفر کرتی
تری سُہاؤنی خوشبو مجھ سے ملنے چلی آتی ہے
رات چُپکے چُپکے سفر کرتی
تری سُہاؤنی خوشبو چلی آتی ہے
دلِ وحشی کا تلاطم ٹھہر جاتا ہے
نیند درخشاں ستارے کی طرح
آنکھ سے دُور آسمانوں میں اٹک جاتی ہے
اور پھر پھیلتا جاتا ہے لفظوں کا فسوں
خوابوں کی دستک کا انتظار
آوارہ ہواؤں کی صدائیں
گزرے لمحوں کی یادیں
اور پھر ساری صدائیں سبھی یادیں
تری سُہاؤنی خوشبو میں ڈھل جاتی ہیں
چُپکے چُپکے سفر کرتی
میں جہاں کہیں بھی ہوں
شہر در شہر سفر کرتی
تری سُہاؤنی خوشبو مجھ سے ملنے چلی آتی ہے