تری معصوم صورت کو نگاہوں میں بسایا ہے--برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
----------
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
-----------
تری تصویر کو میں نے نگاہوں میں چھپایا ہے
بھری دنیا سے کہتا ہوں تجھے اپنا بنایا ہے
---------------
مطلع ثانی
تری معصوم صورت کو نگاہوں میں بسایا ہے
تجھے اپنا بناؤں گا یہی سودا سمایا ہے
-------------------
ترا معصوم چہرہ اور تری یہ جھیل سی آنکھیں
سحر سا کر دیا مجھ پر مجھے سب کچھ بھلایا ہے
------------
تری آواز دھیمی سی مجھے مسحور کرتی ہے
کسی نے پیار کا جیسے مجھے نغمہ سنایا ہے
-------------
نہیں ڈرتے وہ دنیا سے محبّت جن کے دل میں ہو
بزرگانِ محبّت نے یہی ہم کو سکھایا ہے
----------------
ہو پاکیزہ محبّت تو خدا بھی ساتھ ہوتا ہے
محبّت کا یہ پودہ جو اسی نے خود لگایا ہے
------------
نہیں ڈرتے وہ دنیا سے محبّت جن کے دل میں ہو
بزرگانِ محبّت نے یہی ہم کو سکھایا ہے
----------------
ہو پاکیزہ محبّت تو خدا بھی ساتھ ہوتا ہے
محبّت کا یہ پودہ جو اسی نے خود لگایا ہے
-----------------
بنے ہو آج میرے تم مرے پہلو میں بیٹھے ہو
کیا رب نے مقدّر میں مبارک دن یہ آیا ہے
---------یا
ہوا نازاں میں قسمت پر مجھے یہ دن دکھایا ہے
--------
سدا کوشش ہے ارشد کی مٹائے نفرتیں دل سے
زمانے بھر میں الفت کا سدا ہی گیت گایا ہے
--------------یا
مقدّر میں جو لکھا ہو وہی ملتا ہے دنیا میں
یہی ایمان ارشد نے سدا اپنا بنایا ہے
------------
نوٹ--عظیم بھائی آپ سے ایک درخواست ہے۔۔اپنے مجموعہ کلام کا نام اور کہاں میسّر ہے (اگر مناسب سمجھیں ) تاکہ رہنمائی حاصل کر سکوں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
تری تصویر کو میں نے نگاہوں میں چھپایا ہے
بھری دنیا سے کہتا ہوں تجھے اپنا بنایا ہے
---------------نگاہوں میں چھپایا درست نہیں لگ رہا ، بسایا بہتر ہوتا۔ اس کے علاوہ دو لخت بھی لگ رہا ہے، یعنی دونوں مصرعوں کا آپس میں کوئی ربط معلوم نہیں ہو رہا۔

مطلع ثانی
تری معصوم صورت کو نگاہوں میں بسایا ہے
تجھے اپنا بناؤں گا یہی سودا سمایا ہے
-------------------یہ مطلع پہلے سے بہتر لگ رہا ہے۔ بس سودا کہاں سمایا ہے اس کی بھی وضاحت ہونی چاہیے تھی۔ مثلاً دل وغیرہ میں۔ سودا کے ساتھ سمایا بھی فٹ محسوس نہیں ہو رہا۔

ترا معصوم چہرہ اور تری یہ جھیل سی آنکھیں
سحر سا کر دیا مجھ پر مجھے سب کچھ بھلایا ہے
------------'اور تری' ار تری تقطیع ہو رہا ہے۔ اچھا نہیں لگتا۔ 'اور تیری' کر لیں کہ 'یہ' کو لانے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔
'بھلایا ہے' کا یوں استعمال درست نہیں لگ رہا۔ اگر پہلے مصرع میں کہیں 'نے' ہوتا تو درست ہو سکتا تھا۔ یعنی تیرے معصوم چہرے اور چھیل سی آنکھوں نے مجھے سب کچھ بھلایا ہے۔ لیکن اس صورت میں بھی 'بھلایا ہوا ہے' درست لگتا ہے۔
الفاظ بدل کر دیکھیں

تری آواز دھیمی سی مجھے مسحور کرتی ہے
کسی نے پیار کا جیسے مجھے نغمہ سنایا ہے
-------------یہاں بھی ردیف کارگر ثابت نہیں ہو رہی، 'ہے' کی جگہ 'ہو' ہونا چاہیے تھا۔ مثلاً یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی نے پیار کا نغمہ سنایا ہو۔

نہیں ڈرتے وہ دنیا سے محبّت جن کے دل میں ہو
بزرگانِ محبّت نے یہی ہم کو سکھایا ہے
----------------درست ہے، دوسرا مصرع خوب لگا۔ پہلا بھی ٹھیک ہے مگر ذرا اور زور آور کر لیں تو اچھا شعر ہو جائے
مثلاً کہاں ڈرتے ہیں دنیا سے محبت جن کا پیشہ ہو
وغیرہ،

ہو پاکیزہ محبّت تو خدا بھی ساتھ ہوتا ہے
محبّت کا یہ پودہ جو اسی نے خود لگایا ہے
------------'تو' آپ ابھی بھی طویل ہی کھینچ جاتے ہیں۔ دونوں مصرعوں کا اختتام 'ہے' پر ہو رہا ہے۔ اور 'ہے' آپ کی ردیف بھی ہے۔ یہ چیز اچھی نہیں سمجھی جاتی۔
دونوں مصرعوں کا آپس میں ربط بھی کم ہے۔ مکمل شعر دوبارہ کہنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے

بنے ہو آج میرے تم مرے پہلو میں بیٹھے ہو
کیا رب نے مقدّر میں مبارک دن یہ آیا ہے
---------یا
ہوا نازاں میں قسمت پر مجھے یہ دن دکھایا ہے
--------پہلے میں کچھ اور الفاظ کی ضرورت ۔حسوس ہو رہی ہے۔ مثلا 'کہ' وغیرہ۔
دوسرا اصل ہی بہتر لگ رہا ہے

سدا کوشش ہے ارشد کی مٹائے نفرتیں دل سے
زمانے بھر میں الفت کا سدا ہی گیت گایا ہے
--------------یا
مقدّر میں جو لکھا ہو وہی ملتا ہے دنیا میں
یہی ایمان ارشد نے سدا اپنا بنایا ہے
------------دوسرا مقطع بہتر اور درست لگ رہا ہے

نوٹ--عظیم بھائی آپ سے ایک درخواست ہے۔۔اپنے مجموعہ کلام کا نام اور کہاں میسّر ہے (اگر مناسب سمجھیں ) تاکہ رہنمائی حاصل کر سکوں
۔۔۔میرا کوئی مجموعہ تو غیر نہیں ہے، یہیں محفل میں بابا (الف عین) سے آپ ہی کی طرح اپنی غزلوں پر اصلاح لیتا رہا ہوں۔ اور ان کاوشوں کو جمع کر دیا گیا تھا۔
یہ رہا لنک۔
اس کے علاوہ میرے کوائف نامے پر 'عظیم کی شروع کردہ تمام لڑیاں' دیکھیں گے تو وہاں بھی کچھ کاوشیں مل جائیں گی۔
 
عظیم
تری معصوم صورت کو نگاہوں میں بسایا ہے
تجھے اپنا بناؤں گا یہی دل میں سمایا ہے
-----------
ترا معصوم چہرہ اور تیری جھیل سی آنکھیں
کروں تعریف رب کی میں، تجھے جس نے بنایا ہے
-------------
تری آواز دھیمی سی مجھے مسحور کرتی ہے
یہی محسوس ہوتا ہے ،کسی نے گیت گایا ہے
----------------
کہاں ڈرتے ہیں دنیا سے، محبّت جن کا پیشہ ہو
بزرگانِ محبّت نے یہی ہم کو سکھایا ہے
------------
(متبادل تاکہ دونوں مصرعوں میں ،محبّت، نہ آئے)
کہاں ڈرتے ہیں دنیا سے خمارِ عشق جن پر ہو
----------
خدا کا ساتھ ملتا ہے اگر معصوم الفت ہو
محبّت ہم کو کرنا خود اسی رب نے سکھایا ہے
--------------
مرے پہلو میں بیٹھے ہو بنے محبوب میرے تم (تمہیں اپنا بنایا ہے ،تبھی پہلو میں بیٹھے ہو )
کیا رب نے مقدّر میں ، مبارک دن یہ آیا ہے
---------------
مقدّر میں جو لکھا ہو ،وہی ملتا ہے دنیا میں
یہی ایمان ارشد نے سدا اپنا بنایا ہے
-----------------
نوٹ---آپ کی چند غزلیں دیکھیں ۔ واقعی بہت خوبصورت ہیں اور سیکھنے کے لئے بہت سے نقطے اور بہت سے پہلو ہیں۔۔ شکریہ
 

عظیم

محفلین
تری معصوم صورت کو نگاہوں میں بسایا ہے
تجھے اپنا بناؤں گا یہی دل میں سمایا ہے
-----------تو کی طرح کو، جو وغیرہ کی واؤ گرانا بھی روانی کو بہتر رکھتا ہے۔ یہاں 'کو' طویل آ رہا ہے۔
یہی دل میں کیا سمایا ہے؟ صرف 'سمایا' سے کیسے بات بن سکتی ہے؟

ترا معصوم چہرہ اور تیری جھیل سی آنکھیں
کروں تعریف رب کی میں، تجھے جس نے بنایا ہے
-------------دو لخت لگ رہا ہے۔ دونوں مصرعوں کا آپس میں کوئی ربط سمجھ میں نہیں آ رہا۔

تری آواز دھیمی سی مجھے مسحور کرتی ہے
یہی محسوس ہوتا ہے ،کسی نے گیت گایا ہے
----------------ابھی بھی دونوں مصرعے 'ہے' پر ختم ہو رہے ہیں۔ تری آواز سن کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے کوئی گیت گایا ہے۔ اسطرح بات واضح ہوتی۔ مگر شعر میں یہ واضح نہیں ہو رہا کہ آواز سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے کہ دونوں مصرعوں میں تعلق نہیں بن پایا۔

کہاں ڈرتے ہیں دنیا سے، محبّت جن کا پیشہ ہو
بزرگانِ محبّت نے یہی ہم کو سکھایا ہے
------------یہ ایک شعر درست ہو گیا ہے

(متبادل تاکہ دونوں مصرعوں میں ،محبّت، نہ آئے)
کہاں ڈرتے ہیں دنیا سے خمارِ عشق جن پر ہو
----------پہلا ہی بہتر ہے۔ دوسرے میں محبت بزرگان کے ساتھ جڑ گیا ہے اس لیے برا نہیں لگ رہا۔

خدا کا ساتھ ملتا ہے اگر معصوم الفت ہو
محبّت ہم کو کرنا خود اسی رب نے سکھایا ہے
--------------دونوں مصرعوں میں یہاں بھی ربط سمجھ میں نہیں آ رہا۔ اور مطلب کیا نکلتا ہے یہ بھی سمجھ نہیں آتا۔
خدا کا ساتھ ملتا تک تو درست ہے مگر معصوم الفت ہو سے کیا مراد ہے یہ سمجھ نہیں آتا۔مکمل شعرہی دوبارہ کہنے یی ضرورت محسوسہو رہی ہے۔

مرے پہلو میں بیٹھے ہو بنے محبوب میرے تم (تمہیں اپنا بنایا ہے ،تبھی پہلو میں بیٹھے ہو )
کیا رب نے مقدّر میں ، مبارک دن یہ آیا ہے
---------------اس کے بھی ہہلے مصرع میں بات نہیں بن پائی۔ ابھی میرے ذہن میں بھی کوئی تجویز نہیں آ رہی۔

مقدّر میں جو لکھا ہو ،وہی ملتا ہے دنیا میں
یہی ایمان ارشد نے سدا اپنا بنایا ہے
-----------------یہ تو درست ہے
 
الف عین
عظیم
------
تری معصوم صورت کو نگاہوں میں بسایا ہے
تجھے اپنا بناؤں گا مرے دل میں سمایا ہے
----------
ترا معصوم چہرہ اور تیری جھیل سی آنکھیں
مجھے لگتا ہے فرصت میں تجھے رب نے بنایا ہے
------------
تری آواز سنتا ہوں تو یہ محسوس ہوتا ہے
کسی نے پیار میں ڈوبا ہوا نغمہ سنایا ہے
----------
کہاں ڈرتے ہیں دنیا سے، محبّت جن کا پیشہ ہو
بزرگانِ محبّت نے یہی ہم کو سکھایا ہے
------------
خدا کا ساتھ ملتا ہے اگر سچی محبّت ہو
-------یا
وفاداری میں میں عزّت ہے زمانہ جانتا ہے یہ
محبّت کے لئے ہم کو مرے رب نے بنایا ہے
-------------
کبھی جو دور تھی ہم سے وہ منزل ہم نے پائی ہے
کیا رب نے مقدّر میں ، مبارک دن یہ آیا ہے
----------
مقدّر میں جو لکھا ہو ،وہی ملتا ہے دنیا میں
یہی ایمان ارشد نے سدا اپنا بنایا ہے
----------------
 

عظیم

محفلین
تری معصوم صورت کو نگاہوں میں بسایا ہے
تجھے اپنا بناؤں گا مرے دل میں سمایا ہے
----------سمایا ابھی بھی فٹ نہیں بیٹھ رہا۔ دل کوئی بات سما سکتی ہے۔ یا کوئی صورت سما سکتی ہے۔ صرف 'دل میں سمایا یے' بے معنی لگتا ہے

ترا معصوم چہرہ اور تیری جھیل سی آنکھیں
مجھے لگتا ہے فرصت میں تجھے رب نے بنایا ہے
------------دوسرا مصرع
یوں لگتا ہے کہ فرصت...الخ
بہتر ہو گا

تری آواز سنتا ہوں تو یہ محسوس ہوتا ہے
کسی نے پیار میں ڈوبا ہوا نغمہ سنایا ہے
----------پہلا مصرعہ
تری آواز جب سنتا ہوں تو لگتا ہے یوں جیسے
بہت بہتر ہو گا میرے خیال میں۔ 'ہے' کا دونوں مصرعوں کے اختتام پر آنا بھی ختم ہو جائے گا

کہاں ڈرتے ہیں دنیا سے، محبّت جن کا پیشہ ہو
بزرگانِ محبّت نے یہی ہم کو سکھایا ہے
-----------

خدا کا ساتھ ملتا ہے اگر سچی محبّت ہو
-------یا
وفاداری میں میں عزّت ہے زمانہ جانتا ہے یہ
محبّت کے لئے ہم کو مرے رب نے بنایا ہے
-------------زمانے کو ہے یہ معلوم.... کر لیں 'یہ' مصرع کے آخر میں آنا اچھا نہیں لگ رہا
باقی ٹھیک ہے

کبھی جو دور تھی ہم سے وہ منزل ہم نے پائی ہے
کیا رب نے مقدّر میں ، مبارک دن یہ آیا ہے
----------ابھی بھی دو لخت لگ رہا ہے۔ مکمل شعر میرا خیال ہے کہ دوبارہ کہہ لیں۔

مقدّر میں جو لکھا ہو ،وہی ملتا ہے دنیا میں
یہی ایمان ارشد نے سدا اپنا بنایا ہے
----------------
 
عظیم
تری معصوم صورت کو نگاہوں میں بسایا ہے
تجھے اپنا بنا لوں میں مرے دل میں یہ آیا ہے
-------------
ترا معصوم چہرہ اور تیری جھیل سی آنکھیں
یوں لگتا ہے کہ فرصت میں تجھے رب نے بنایا ہے
-------------
تری آواز جب سنتا ہوں تو لگتا ہے یوں جیسے
کسی نے پیار میں ڈوبا ہوا نغمہ سنایا ہے
----------
کہاں ڈرتے ہیں دنیا سے، محبّت جن کا پیشہ ہو
بزرگانِ محبّت نے یہی ہم کو سکھایا ہے
-----------
وفاداری میں عزّت ہے زمانے کو ہے یہ معلوم
محبّت کے لئے ہم کو مرے رب نے بنایا ہے
-------------
تُو آیا ہے مرے گھر میں ہوئی ہے دور تنہائی
کیا رب نے مقدّر میں ، مبارک دن یہ آیا ہے
-----------
مقدّر میں جو لکھا ہو ،وہی ملتا ہے دنیا میں
یہی ایمان ارشد نے سدا اپنا بنایا ہے
 

عظیم

محفلین
مطلع ابھی بھی بہتری چاہتا ہے، صورت کو نگاہوں میں بسا لینے کے بعد بھی اپنا بنانے کا دل میں خیال آیا ہے؟
دل میں یہ آیا' میں بھی سمایا کا سا معاملہ ہے۔ باقی اشعار درست ہو گئے ہیں
 
مطلع
----------
تری معصوم صورت کو نگاہوں میں بسایا ہے
تجھے دیکھا ہے جب سے ایک نشہ مجھ پہ چھایا ہے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
'ایک نشہ' میں روانی کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ دوسرا 'نشہ' کے ساتھ 'سا' کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
میرا خیال ہے کہ جو مطلع سب سے پہلے کہا تھا آپ نے اسی کو رکھ لیں، صرف پہلے مصرع میں 'چھپایا' کی جگہ 'بسایا' کر لیں۔ دو لخت ہے لیکن مطلع ہونے کی وجہ سے قبول کیا جا سکتا ہے
 

عظیم

محفلین
تمنّا تھی مرے دل میں تجھے پانے کی سالوں سے
کیا رب نے مقدّر میں ، مبارک دن یہ آیا ہے
-----------دوسرے مصرع کو بدلنے کی ضرورت ہے شاید۔ خاص طور پر پہلا ٹکڑا 'کیا رب نے مقدر میں تو' مکمل ہو گا۔ یا 'تب ہی' ہونا چاہیے
 
عظیم
( مطلع)
تری معصوم صورت کو نگاہوں میں بسایا ہے
حسن تیرا مرے دل پر نشہ سا بن کے چھایا ہے
---------------
تمنّا تھی مرے دل میں تجھے پانے کی سالوں سے
خدا کا شکر کرتا ہوں تُو میرا بن کے آیا ہے
-----------یا
مری قسمت میں لکھا تھا ، یہ دن تب ہی تو آیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
خدا کا شکر ہے اس نے مجھے یہ دن دکھایا ہے
بہتر ہو گا
مطلع کا دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے، دو لخت اب بھی ہے
 
الف عین
(مطلع)
فلک سے چاند اترا جو مرے پہلو میں آیا ہے
مرے رب نے تمہیں جیسے مری خاطر بنایا ہے
----------
تمنّا تھی مرے دل میں تجھے پانے کی سالوں سے
خدا کا شکر ہے اس نے مجھے یہ دن دکھایا ہے
---------------
 
Top