ترے رستے میں ایک غم کیا کہوں وہ سو پہ بھاری ہے
صبر کرتے گزارہ ہے مجھے تجھ سے جو یاری ہے
... پہلے مصرع میں 'اک غم' وزن میں آتا ہے
دوسرے میں 'صبر' کا تلفظ غلط ہے
'شعر نہیں بن سکا، پانچ علیحدہ علیحدہ فقرے ہیں
تری صحبت کو جو چاہوں تو خاموشی کی تلقین ہو
غضب کیا ہے کہ لب سینے پہ اب تقریر ساری ہے
... تلقین وزن میں نہیں
مطلب نہیں سمجھ سکا، سارے بے ربط ٹکڑے لگتے ہیں
مرے مولی ہے قصہ کیا یہاں ملا وہاں میاں
کہیں تو بت پرستی ہے کہیں خود بت پجاری ہے
... پہلا مصرع بحر سے خارج 'میاں' کے باعث
بت پجاری کس طرح ہو سکتے ہیں؟
ذکاوت سے تری پیدا ترے پانے کا سودا ہے
ادھر تعریف کے پل ہیں ادھر بدلے میں خواری ہے
... ذکاوت سے کیا ربط؟
خدا را امتحاں کر لو ترا طالب حقیقی ہوں
وہیں پر ہوں جہاں پر عشق کی مردم شماری ہے
... واضح نہیں
سحر گاہی کے سجدوں سے نہیں پایا کہیں تجھ کو
تجھے کھونے کا سکتہ سا دماغ و دل پہ طاری ہے
.... دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی یہاں بھی ہے
پڑا افغان سے پالا تو کیسی خوف کی باتیں
تری منزل کا راہی ہے وہی جو دل سے عاری ہے
... ایضاً
اول تو آنجناب کا بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں کہ میری ورق سیاہی کو لائق تبصرہ سجھا اور اپنا قیمتی وقت نکال کر تصحیح فرمائی!
آپ کی نگارشات پر کچھ معروضات پیش خدمت ہیں:
• 'ایک' دراصل 'اک' ہی تھا، غلطی سے 'ایک' لکھا ہے۔
• وزن یوں ہے: ترے رستے:مفاعیلن، کا اک غم کیا: مفاعیلن، کہوں وہ سو: مفاعیلن، پہ بھاری ہے:مفاعیلن
• صبر کا صحیح عربی تلفظ وہی ہے جس پر آپ نے تنبیہ فرمائی ہے۔ لیکن یہ جانتے ہوئے بھی میں اس کو 'مفا' کے مقابل لایا ہوں کیونکہ اردو میں بے تکلفی سے یوں ہی تلفظ ہوتا ہے۔
استشہاد کے لئے میں عربی سے قدر، جبر، ہجر، غدر، وزن، ہتک وغیرہ اور فارسی سے نرم، گرم وغیرہ کی مثالیں پیش کرسکتا ہوں جو أصل عربی اور فارسی میں بفتح اول و سکون ثانی ہیں لیکن ان میں سے اکثر کا تلفظ اردو میں بفتحتین ہوتا ہے، البتہ ہجر کی ہاء کو ساتھ کسرہ بھی دیتے ہیں۔
اگر یہ توجیہ دل کو نہ لگے تو ضرورت شعر و وزن ایک مستقل عذر ہے جس کو بڑے بڑے لوگ استعمال کرتے آئے ہیں، مانا کہ مجھ جیسے چھوٹے لوگوں کو بالکل ابتداء ہی میں اس کی عادت پڑنا شاید اچھا نہ ہو!
وزن: صبر کرتے:مفاعیلن، گزارہ ہے: مفاعیلن، مجھے تجھ سے:مفاعیلن، جو یاری ہے:مفاعیلن
• 'تلقیں' کو ن غنہ کے ساتھ پڑھا جائے تو کچھ مسئلہ نہیں ہوگا۔
• 'میاں' بالتشدید پڑھا جائے جو اس کا Colloquial یعنی روز مرہ کا تلفظ ہے تو کچھ مسئلہ نہیں ہوگا یعنی 'یہاں می یاں:مفاعیلن' پھر وزن میں رہتا ہے!
• 'بت پجاری۔۔۔'، چونکہ "شاعر" کا بت ہے اس لئے پجاری ہوسکتا ہے! (لطیفہ)
یہاں در اصل شعری مبالغہ ہے۔ معشوق کو پجاری اس معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ پر اترا رہا ہے، ناز و غرور اس کو اپنے آپ سے نکلنے نہیں دے رہا تو گویا اپنے آپ میں مگن ہے اور اپنے بت کا خود بجاری ہے۔ ملا اور میاں کی تلمیحات کا آپ نے ذکر مناسب نہیں سمجھا لیکن میں مختصرا عرض کرتا ہوں: ملا سے "شاعر" خود اور میاں سے اس کا معشوق مراد ہے۔ میاں یہاں ایک نسلی گروہ کا نام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نسلی رشتے کا دعوی رکھتا ہے۔
• 'ذکاوت سے۔۔۔' سے ربط یہ ہے کہ اس عشق کی بنیاد معشوق کی ذکاوت و فطانت ہے (حسن نہیں یا شاید ثانوی ہے) جس کی "شاعر" داد پر داد دیئے جا رہا ہے لیکن وہاں سے اس کو کچھ بھی لفٹ نہیں مل رہا بلکہ الٹا دھتکارا جا رہا ہے اور خوار و ملامت کیا جا رہا ہے۔
• 'عشق کی مردم شماری' یعنی تیری طرف سے جہاں کہیں عاشق شماری اور اپنے عاشقوں کی گنتی ہوا کرتی ہے تو میں وہیں حاضر ہو جاتا ہوں مگر شومئ قسمت سے در خور اعتناء نہیں گردانا جاتا۔ آپ ایک بار میرا امتحاں کرکے تو دیکھ لیجئے، یکے از مردمان عشق نکلوں گا، پکا طالب نکلوں گا!
• 'سحر گاہی۔۔۔' یہاں تو ربط بالکل واضح ہے! تجھے سحر کے سجدوں میں اللہ سے مانگ رہا ہوں مگر قبولیت ندارد جس کا اثر یہ ہے کہ تو کہیں نہیں مل رہا، نہ تیری منت سماجت سے، نہ جرگے سے، وغیرہ۔۔۔
اس کو سجدوں میں نہ ملنے سے تعبیر کیا ہے۔
• 'پڑا أفغان...' یہ مصراع الفاظ کے چناو کے لحاظ سے شاید اتنا بر محل نہ ہو کیونکہ 'پالا پڑنا' اکثر منفی معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن یہاں پر اس سے ایک اور باریکی کو واضح کرنا مقصود تھا اور وہ یہ کہ معشوق کیلئے تو یہ مجھ سے پالا پڑنا ہی ہے کہ وہ اپنی طرف اس پیش قدمی سے بوجوہ خوش نہیں جن میں سے ایک خوف کا عنصر بھی ہے۔ بہر حال میں باقی مطلب بیان کئے دیتا ہوں، بعد میں رائے سے نوازئیے گا۔
تم یعنی معشوق اپنے عاشق کو عشق کی پر خطر راہوں کے خطرات، مشقتوں اور چیلنجوں سے خوف دلا رہے ہو کہ باز رہو ورنہ یہ اور وہ ہو جائے گا مگر عاشق یہ کہہ کر جواب دیتا ہے کہ جب تیرا پالا براستہ و بواسطہ عشق 'افغان' سے پڑ ہی چکا ہے تو پھر خوف کھانے اور دلانے کی باتیں کیسی! کیونکہ روایتی طور پر افغان خوف اور چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور میں ان ہی میں کا ہوں (یہاں لفظ أفغان میں ذو معنویت ہے)۔ پھر اس پر مستزاد تیری پر خطر منزل کا سفر تو طے کرتے ہی عاشق صادق ہیں جو پہلے ہی تجھے دل دے آئے ہیں اور گویا اب تو دل سے بالکل عاری اور خالی ہیں اور خوف کا مستقر چونکہ دل ہے اور دل ہے ہی نہیں تو خوف کاہے کو!!
امید ہے اس پس منظر سے اب آپ مزید بہتر رائے قائم کر سکتے ہیں۔