کاشف اسرار احمد
محفلین
ایک تازہ غزل پیش ہے :
ق
سبھی چاہتے ہیں کوشش سے حصول ہو زیادہ !
اسی دھن میں سب لگے ہیں، یہی مستقل ارادہ!
یہ یقین اک مکمل، یہ بلا کی سادہ لوحی
یہ حقیقتیں ذرا کم، یہ مبالغہ زیادہ!
-----
مرے ساتھ ہی کھڑی تھیں، مری لغزشیں وہیں پر
مرے تجربوں کا جس دم ہوا آئینہ کشادہ!
ترے حق میں یہ دعا ہے، تجھے جستجو ہو پیہم
تری نیند مختصر ہو، ترے خواب ہوں زیادہ!
وہ نصیب کا تھا صفحہ ،میں نے غور سے جو دیکھا
کہیں نامہ مختصر سا، کہیں حاشیہ کشادہ!
تو زباں سے کہہ رہا ہے میں تو ساتھ ہوں تمھارے
مجھے کیا خبر کہ کیا ہے ترا باطنی ارادہ!
مرے ساتھ آ کے خوش ہے، یہ فریب ہی دے مجھ کو
جو ہے زیرِ لب تبسّم، اسے اور کر کشادہ!
وہ تعلقات میں جب، ذرا ڈھیل دے رہاتھا
مرا ذہن منتشر تھا، میں تناؤ میں تھا زیادہ!
وہ لبھا رہی تھی گلچیں کو لچک لچک کے پیہم
کبھی گُل نہ جان پایا ،کسی شاخ کا ارادہ!
اسی دم اجل چلی آ، مجھے تھامنے کو فوراََ
اسے ایک پل بھی بھولوں، کبھی میں جو بے ارادہ!
ہے جو دَر فنا کا آگے، یہ ہے امتحانِ آخر!
ذرا خوف رکھ الگ کو، ذرا ذہن کر کشادہ!!
وہ غُبارِ طُور اُڑ کر ،یہی کہہ رہا تھا کاشف !
یہ جمالِ مختصر تھا ،مری تاب سے زیادہ!!
سیّد کاشف
ق
سبھی چاہتے ہیں کوشش سے حصول ہو زیادہ !
اسی دھن میں سب لگے ہیں، یہی مستقل ارادہ!
یہ یقین اک مکمل، یہ بلا کی سادہ لوحی
یہ حقیقتیں ذرا کم، یہ مبالغہ زیادہ!
-----
مرے ساتھ ہی کھڑی تھیں، مری لغزشیں وہیں پر
مرے تجربوں کا جس دم ہوا آئینہ کشادہ!
ترے حق میں یہ دعا ہے، تجھے جستجو ہو پیہم
تری نیند مختصر ہو، ترے خواب ہوں زیادہ!
وہ نصیب کا تھا صفحہ ،میں نے غور سے جو دیکھا
کہیں نامہ مختصر سا، کہیں حاشیہ کشادہ!
تو زباں سے کہہ رہا ہے میں تو ساتھ ہوں تمھارے
مجھے کیا خبر کہ کیا ہے ترا باطنی ارادہ!
مرے ساتھ آ کے خوش ہے، یہ فریب ہی دے مجھ کو
جو ہے زیرِ لب تبسّم، اسے اور کر کشادہ!
وہ تعلقات میں جب، ذرا ڈھیل دے رہاتھا
مرا ذہن منتشر تھا، میں تناؤ میں تھا زیادہ!
وہ لبھا رہی تھی گلچیں کو لچک لچک کے پیہم
کبھی گُل نہ جان پایا ،کسی شاخ کا ارادہ!
اسی دم اجل چلی آ، مجھے تھامنے کو فوراََ
اسے ایک پل بھی بھولوں، کبھی میں جو بے ارادہ!
ہے جو دَر فنا کا آگے، یہ ہے امتحانِ آخر!
ذرا خوف رکھ الگ کو، ذرا ذہن کر کشادہ!!
وہ غُبارِ طُور اُڑ کر ،یہی کہہ رہا تھا کاشف !
یہ جمالِ مختصر تھا ،مری تاب سے زیادہ!!
سیّد کاشف