تری چاہت کا کچا رنگ

زرقا مفتی

محفلین
ایک سادہ سی نظم
آپ سب کی بصارتوں کی نذر

تری چاہت کا کچا رنگ
دھنک رنگوں میں اُترا تھا
مرے بے داغ آنچل پر
خوشی کے پر لگا کر میں
چلی تھی آسماں چھونے
مگر موسم کی سختی میں
کسی بادِ مخالف نے
مرے پر نوچ ہی ڈالے
مرے آنچل سے چھوٹا ہے
تری چاہت کا کچا رنگ

تری چاہت کا کچا رنگ
مری آنکھوں میں اُترا تھا
ستاروں سی چمک لے کر
گلابی رنگ کے سپنے
دکھا کے چار دن مجھ کو
ٓاُڑا کر لے گیا نیندیں
تری چاہت کا کچا رنگ

تری چاہت کا کچا رنگ
مرے چہرے پہ اُترا تھا
گلوں کی شوخیاں لے کر
جبیں تھی چاند سی روشن
تبسم تھا لبوں پہ بھی
بہت اترا رہی تھی میں
یونہی شرما رہی تھی میں
کوئی رہزن کوئی دُشمن
چُرا کر لے گیا خوشیاں
مجھے بس دے گیا ہے وہ
خزاں کا زرد پیلا رنگ
مرے چہرے سے اُترا ہے
تری چاہت کا کچا رنگ

تری چاہت کا کچا رنگ
مرے دل پر بھی اُترا تھا
سنہری تھے ترے وعدے
ترے خوش کن ارادے تھے
ترا لہجہ تری باتیں
ترے ہی غم تری خوشیاں
مجھے بس یاد تھا تو ہی
میں خود کو بھول بیٹھی تھی
مگر تو نے غضب کیسا
مرے اس دل پہ ڈھایا ہے
مجھے دل سے بھلایا ہے
غموں کے سرمئی سائے
مرے دل پر یوں چھائے ہیں
مرے دل سے بھی اُترا ہے
تری چاہت کا کچا رنگ

زرقامفتی
 

شمشاد

لائبریرین
اعجاز بھائی کو نظم بھیجتے وقت پس و پیش میں نہ رہا کریں، داد نہ ملے گی تو ڈانٹ ہی سہی، اعجاز بھائی کی ڈانٹ بھی غنیمت ہے۔
 
Top