سعید احمد سجاد
محفلین
سر الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
فراقِ یار میں شامیں سراب لگتی ہیں
خراب دن, مجھے راتیں سراب لگتی ہیں
ترے وجود کی خوشبو سے جو مہکتی تھیں
ترے بغیر وہ راہیں سراب لگتی ہیں
تمھارے ہجر کی آتش میں اشک تک ہیں جلے
بن آنسوؤں کے یہ آنکھیں سراب لگتی ہیں
غضب ہے مجھ پہ ترے انتظار کا موسم
اداس خواب ہیں سوچیں سراب لگتی ہیں
وجود کاٹ کے رکھ دے مرا یہ تنہائی
سکوت چھائے تو سانسیں سراب لگتی ہیں
جو ہجرِ یار کا موسم ہو زندگی پہ محیط
تو وصلِ یار کی باتیں سراب لگتے ہیں
شروع کِیا ہے جو سجاد روشنی کا سفر
گئی رتوں کی وہ آہیں سراب لگتی ہیں
محمّد احسن سمیع :راحل:
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے
فراقِ یار میں شامیں سراب لگتی ہیں
خراب دن, مجھے راتیں سراب لگتی ہیں
ترے وجود کی خوشبو سے جو مہکتی تھیں
ترے بغیر وہ راہیں سراب لگتی ہیں
تمھارے ہجر کی آتش میں اشک تک ہیں جلے
بن آنسوؤں کے یہ آنکھیں سراب لگتی ہیں
غضب ہے مجھ پہ ترے انتظار کا موسم
اداس خواب ہیں سوچیں سراب لگتی ہیں
وجود کاٹ کے رکھ دے مرا یہ تنہائی
سکوت چھائے تو سانسیں سراب لگتی ہیں
جو ہجرِ یار کا موسم ہو زندگی پہ محیط
تو وصلِ یار کی باتیں سراب لگتے ہیں
شروع کِیا ہے جو سجاد روشنی کا سفر
گئی رتوں کی وہ آہیں سراب لگتی ہیں