ترے بغیر وہ راہیں سراب لگتی ہیں

سر الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

فراقِ یار میں شامیں سراب لگتی ہیں
خراب دن, مجھے راتیں سراب لگتی ہیں

ترے وجود کی خوشبو سے جو مہکتی تھیں
ترے بغیر وہ راہیں سراب لگتی ہیں

تمھارے ہجر کی آتش میں اشک تک ہیں جلے
بن آنسوؤں کے یہ آنکھیں سراب لگتی ہیں

غضب ہے مجھ پہ ترے انتظار کا موسم
اداس خواب ہیں سوچیں سراب لگتی ہیں

وجود کاٹ کے رکھ دے مرا یہ تنہائی
سکوت چھائے تو سانسیں سراب لگتی ہیں

جو ہجرِ یار کا موسم ہو زندگی پہ محیط
تو وصلِ یار کی باتیں سراب لگتے ہیں

شروع کِیا ہے جو سجاد روشنی کا سفر
گئی رتوں کی وہ آہیں سراب لگتی ہیں
 
سر الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

فراقِ یار میں شامیں سراب لگتی ہیں
خراب دن, مجھے راتیں سراب لگتی ہیں

ترے وجود کی خوشبو سے جو مہکتی تھیں
ترے بغیر وہ راہیں سراب لگتی ہیں

تمھارے ہجر کی آتش میں اشک تک ہیں جلے
بن آنسوؤں کے یہ آنکھیں سراب لگتی ہیں

غضب ہے مجھ پہ ترے انتظار کا موسم
اداس خواب ہیں سوچیں سراب لگتی ہیں

وجود کاٹ کے رکھ دے مرا یہ تنہائی
سکوت چھائے تو سانسیں سراب لگتی ہیں

جو ہجرِ یار کا موسم ہو زندگی پہ محیط
تو وصلِ یار کی باتیں سراب لگتے ہیں

شروع کِیا ہے جو سجاد روشنی کا سفر
گئی رتوں کی وہ آہیں سراب لگتی ہیں

سر الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
 
سر الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

فراقِ یار میں شامیں سراب لگتی ہیں
خراب دن, مجھے راتیں سراب لگتی ہیں

ترے وجود کی خوشبو سے جو مہکتی تھیں
ترے بغیر وہ راہیں سراب لگتی ہیں

تمھارے ہجر کی آتش میں اشک تک ہیں جلے
بن آنسوؤں کے یہ آنکھیں سراب لگتی ہیں

غضب ہے مجھ پہ ترے انتظار کا موسم
اداس خواب ہیں سوچیں سراب لگتی ہیں

وجود کاٹ کے رکھ دے مرا یہ تنہائی
سکوت چھائے تو سانسیں سراب لگتی ہیں

جو ہجرِ یار کا موسم ہو زندگی پہ محیط
تو وصلِ یار کی باتیں سراب لگتے ہیں

شروع کِیا ہے جو سجاد روشنی کا سفر
گئی رتوں کی وہ آہیں سراب لگتی ہیں
سر الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
 
غزل کے قوافی محلِ نظر ہیں۔ شامیں اور راتیں کو مطلع میں بطور قافیہ جمع کرنا ٹھیک نہیں ۔۔۔ کیونکہ شام اور رات ہم قافیہ نہیں۔
سید عاطف علی بھائی اور محمد خلیل الرحمٰن بھائی ۔۔۔ آپ حضرات کا کیا خیال ہے؟
راحل بھائی قوافی میں تیں ہیں کھیں آ رہا ہے جن کی میرے خیال سے اجازت ہے باقی اساتذہ کرام بہتر جانتے ہیں
 
راحل بھائی قوافی میں تیں ہیں کھیں آ رہا ہے جن کی میرے خیال سے اجازت ہے باقی اساتذہ کرام بہتر جانتے ہیں
سجاد بھائی، ایسا نہیں ہے ۔۔۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، ان دونوں الفاظ میں میں ’’تیں‘‘ اضافی ہے جو جمع بنانے کا قاعدہ ہے ۔۔۔ اس لیے ان کی ی کو روی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ظہیراحمدظہیر بھائی، آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا میرا تاثر غلط ہے؟
 
سجاد بھائی، ایسا نہیں ہے ۔۔۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، ان دونوں الفاظ میں میں ’’تیں‘‘ اضافی ہے جو جمع بنانے کا قاعدہ ہے ۔۔۔ اس لیے ان کی ی کو روی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ظہیراحمدظہیر بھائی، آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا میرا تاثر غلط ہے؟
راحل بھائی میں اب بھی اپنے موقف پر قائم ہوں
محمد خلیل الرحمٰن بھائی آپ کی کیا رائے ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
غزل کے قوافی محلِ نظر ہیں۔ شامیں اور راتیں کو مطلع میں بطور قافیہ جمع کرنا ٹھیک نہیں ۔۔۔ کیونکہ شام اور رات ہم قافیہ نہیں۔
سید عاطف علی بھائی اور محمد خلیل الرحمٰن بھائی ۔۔۔ آپ حضرات کا کیا خیال ہے؟
میرے خیال میں تو شامیں اورراتیں قوافی میں جائز ہو نے چاہئیں ۔ اگر چہ شام اور رات ہم قافیہ نہیں ۔ میں قوافی میں زیادہ تکلف اور سخت گیری کا قائل نہیں صوتی تاثر کو ایک حد تک قابل ترجیح ہونا چاہیئے۔واللہ اعلم
 
راحل بھائی میں اب بھی اپنے موقف پر قائم ہوں
محمد خلیل الرحمٰن بھائی آپ کی کیا رائے ہے
کافی دن پہلے ایک غزل کے باب میں میں نے سوال کیا تھا کہ کیا عادتیں اور کروٹیں کو مطلع میں قافیہ لایا جا سکتا ہے؟ یہ قریب قریب وہی صورت ہے جو آپ کے مطلع میں ہے کہ دو مستقل غیر ہم صوت الفاظ کی جمع بنائی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ الفاظ بظاہر درست قوافی معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم اس کے جواب میں ظہیرؔ بھائی نے جو ارشاد فرمایا، اس کا اقتباس نیچے دے رہا ہوں۔

قافیہ تو طے ہی مطلع میں ہوتا ہے ۔ اگر یہ مصرع پڑھا جائے کہ "ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں" تو ہمیں قطعی معلوم نہیں ہوتا کہ اس میں قافیہ و ردیف کیا ہیں ۔ بلکہ یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس میں ردیف ہے بھی یا نہیں ۔ دوسرا مصرع پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ جہاں اور امتحاں قوافی ہیں اور ہیں ردیف ہے ۔دونوں مصرعوں کو دیکھ کر ہی حروفِ قافیہ کا علم ہوا کہ الف حرفِ روی ہے اور نون غنہ زائد (حرفِ وصل) ہے ۔ چانچہ اب بقیہ اشعار کے لئے قافیہ مقر ہوگیا ۔ اب تمام اشعار میں کہاں ، سناں ، بیاں ، گماں وغیرہ ہی بطور قافیہ آسکتے ہیں ۔ اب آپ کے سوال کے مطابق اگر مطلع میں عادتیں اور کروٹیں بطور قافیہ لائے جائیں تو پھر حرفِ روی کیا ٹھہرےگا؟ بقیہ اشعار کے لئے قافیہ کیسے قائم ہوگا؟ صوتی قافیے کی وضاحت الف عین صاحب پہلے ہی کرچکے ہیں ۔ یہ دونوں قوافی تو ہم صوت بھی نہیں ہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سجاد بھائی، ایسا نہیں ہے ۔۔۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، ان دونوں الفاظ میں میں ’’تیں‘‘ اضافی ہے جو جمع بنانے کا قاعدہ ہے ۔۔۔ اس لیے ان کی ی کو روی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ظہیراحمدظہیر بھائی، آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا میرا تاثر غلط ہے؟
روایتی اصول قافیہ کے تحت مطلع میں شامیں اور راتیں بطور قوافی نہیں لائے جاسکتے کیونکہ شام اور رات ہم قافیہ نہیں ہیں ۔ اور جیسا کہ آپ نے کہا "یں" اضافی حروف ہیں جن کی تکرار ہر مصرع میں ہورہی ہے ۔ چنانچہ یہ ردیف کا حصہ مانے جائیں گے ۔ اساتذہ نے ایسے قوافی استعمال نہیں کئے البتہ جدید شعرا کے ہاں اب اس طرح کے قوافی عام ہوچلے ہیں ۔ میں نے بھی دو عدد غزلیں اس طرح کے قوافی کے ساتھ لکھی ہیں ۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ مزا نہیں آیا ۔
 

الف عین

لائبریرین
میں بھی اس قسم کے قوافی میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔
البتہ مجھے ردیف پسند نہیں آئی۔ سراب لگنا ویسے درست ہے جب اس سے آپ کچھ اور مطلب لے سکیں، لیکن یہاں زیادہ تر سراب بے معنی لگتے ہیں، ایک بار پھر غور کرو
 
میں بھی اس قسم کے قوافی میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔
البتہ مجھے ردیف پسند نہیں آئی۔ سراب لگنا ویسے درست ہے جب اس سے آپ کچھ اور مطلب لے سکیں، لیکن یہاں زیادہ تر سراب بے معنی لگتے ہیں، ایک بار پھر غور کرو
شکریہ سر
 
Top