ترے بیمار کا اب اور ٹھکانا کیا ہے؟

عشق کا حسن ہی پر جان لُٹانا کیا ہے ؟
یہ ستم کیوں ہے ؟یہ انداز پُرانا کیا ہے؟

تری شوخی سے تَو واقف ہے جہاں سارا ، پھِر
سامنے میرے یُوں چلمن کو گرانا کیا ہے؟

گر تجھے فرق نہیں پڑتا مرے ہونے سے
میرے قاتل ! بتا ، یہ ناز دکھانا کیا ہے؟

زندگی غیر کے شانوں پہ بسر کر دی ، اور
نغمۂ وصل ہمیں روز سنانا کیا ہے؟

بڑے انداز سے کہتے ہو کہ تم میرے ہو
چاند چہرے کا مجھی سے یہ چھپانا کیا ہے؟

میرے آنگن میں بھی اترو کبھی تاریکی میں
عدو کی بزم کا ہو کے ہی رہ جانا کیا ہے؟

دشت میں یُوں بھی تو برسات کا امکاں کم ہے
کار بے کار میں جی کو یوں جلانا کیا ہے؟

ترے وعدے پہ ہی تکیہ کیے بیٹھے ہیں ہم
ترے بیمار کا اب اور ٹھکانا کیا ہے؟

چلو ! اب کوچ کرو، کچھ نہ کہو، اے مریم!
جانتی ہے تُو ستم گر کو منانا کیا ہے ؟
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ!! کیا اچھی کاوش ہے مریم بیٹا!!! کیا اچھی زمین ہے !!! اس میں تو بہت امکانات ہیں ۔ میں لاگ آف ہونے ہی لگا تھا کہ آپکی غزل نظر آگئی اور پھر لکھے بغیر رہا نہ گیا ۔ کئی اشعار اچھے ہیں !!! لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس غزل کو آپ نے زیادہ وقت نہیں دیا ۔ کئی کئی بار ’’نظر ثانی ‘‘ ہونی چاہیئے تھی ۔ مختصراً ایک دو باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں ۔

۔ بعض اشعار میں کیا ہے کو کیسا ہے کی جگہ استعمال کیا گیا ہے اس لئے ردیف کچھ اشعار میں پوری طرح نہیں نبھ سکی ۔

عشق کا حسن پہ ہی جان لُٹانا کیا ہے ؟
یہ ستم کیوں ہے ؟یہ انداز پُرانا کیا ہے؟

خیال اچھا ہے !! یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ عشق صرف اور صرف ظاہری حسن پر ہی کیوں مرتا ہے ۔شخصیت کے دیگر اوصاف کیوں قابلِ توجہ کیوں نہیں ؟! لیکن یہ خیال پوری طرح واضح نہیں ہورہا ۔ ’’یہ ستم کیوں ہے ‘‘ بھرتی کا ہے ۔ اس کی جگہ ایسا کچھ لاؤ کہ بات مزید مربوط ہو سکے ۔

تری شوخی سے تَو واقف ہے جہاں سارا ، پھِر
سامنے میرے یُوں چلمن کو گرانا کیا ہے؟

شوخی کے بجائے یہان بے پردگی اور بیباکی وغیرہ کا محل ہے۔ یوں کردیکھئے : تیرے پردے سے تو واقف ۔۔۔۔۔ ذرا سا طنزیہ ہوجائے تو بہتر ہوجائے گا ۔

گر تجھے فرق نہیں پڑتا مرے ہونے سے
میرے قاتل ! بتا یہ ناز دکھانا کیا ہے؟

ٹائپو درست کرلیں ۔ میرے قاتل یہ بتا ۔۔۔۔۔۔
ناز دکھانا اور ہونے نہ ہونے کا ربط نہیں بنتا ۔ میرے قاتل یہ ترا تیغ اٹھانا کیا ہے؟ کہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے ۔

زندگی غیر کے شانوں پہ بسر کر دی ، اور
نغمۂ وصل ہمیں روز سنانا کیا ہے؟

یہاں اور کا محل نہیں ہے ۔ دونوں مصرعے مربوط نہیں ۔ کس سے خطاب ہے یہ نہیں کھلتا ۔

بڑے انداز سے کہتے ہو کہ تم میرے ہو
چاند چہرے کومجھی سے یوں چھپانا کیا ہے؟

اچھا ہے !! بڑے انداز سے کہنا شایدآج کل کی زبان کا محاورہ ہے ۔ ویسے ناز و انداز سے کہنا یا بڑے ناز سے کہنا معروف ہے ۔

میرے آنگن میں بھی اترو کبھی شب فرقت میں
عدو کی بزم کا ہو کر ہی رہ جانا کیا ہے؟

پہلا مصرع توجہ چاہتا ہے ۔ وزن یوں درست ہوگا: میرے آنگن میں بھی اترو شبِ فرقت میں کبھی
دوسرا مصرع بھی وزن میں نہیں ۔

دشت میں یُوں بھی تو برسات کا امکاں کم ہے
کار بے کار میں جی کو یوں جلانا کیا ہے؟

دو لخت لگ رہا ہے ۔ کس چیز کو کارِ بیکار کہا جارہا ہےیہ واضح نہیں ۔

ترے وعدے پہ ہی تکیہ کیے بیٹھے ہیں ہم
ترے بیمار کا اب اور ٹھکانا کیا ہے؟

اچھا شعر ہے ۔ واہ واہ!
ہی کی نشست وعدے کے بعد لے آؤ تو بہتر ہوگا ۔

چلو ! اب کوچ کرو، کچھ نہ کہو، اے مریم!
جانتی ہے تُو ستم گر کو منانا کیا ہے ؟

اس میں شتر گربہ ہے ۔ تو کے ساتھ چل کا صیغہ استعمال ہوتا ہے ۔ دونوں مصرعے زیادہ مربوط بھی نہیں ۔

امید ہے کہ سر دست یہ چند نکات غور و فکر کے کچھ مواقع ضرور فراہم کریں گے ۔ :):):)
 
آخری تدوین:
واہ واہ!! کیا اچھی کاوش ہے مریم بیٹا!!! کیا اچھی زمین ہے !!! اس میں تو بہت امکانات ہیں ۔ میں لاگ آف ہونے ہی لگا تھا کہ آپکی غزل نظر آگئی اور پھر لکھے بغیر رہا نہ گیا ۔ کئی اشعار اچھے ہیں !!! لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس غزل کو آپ نے زیادہ وقت نہیں دیا ۔ کئی کئی بار ’’نظر ثانی ‘‘ ہونی چاہیئے تھی ۔ مختصراً ایک دو باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں ۔

۔ بعض اشعار میں کیا ہے کو کیسا ہے کی جگہ استعمال کیا گیا ہے اس لئے ردیف کچھ اشعار میں پوری طرح نہیں نبھ سکی ۔

عشق کا حسن پہ ہی جان لُٹانا کیا ہے ؟
یہ ستم کیوں ہے ؟یہ انداز پُرانا کیا ہے؟

خیال اچھا ہے !! یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ عشق صرف اور صرف ظاہری حسن پر ہی کیوں مرتا ہے ۔شخصیت کے دیگر اوصاف کیوں قابلِ توجہ کیوں نہیں ؟! لیکن یہ خیال پوری طرح واضح نہیں ہورہا ۔ ’’یہ ستم کیوں ہے ‘‘ بھرتی کا ہے ۔ اس کی جگہ ایسا کچھ لاؤ کہ بات مزید مربوط ہو سکے ۔

تری شوخی سے تَو واقف ہے جہاں سارا ، پھِر
سامنے میرے یُوں چلمن کو گرانا کیا ہے؟

شوخی کے بجائے یہان بے پردگی اور بیباکی وغیرہ کا محل ہے۔ یوں کردیکھئے : تیرے پردے سے تو واقف ۔۔۔۔۔ ذرا سا طنزیہ ہوجائے تو بہتر ہوجائے گا ۔

گر تجھے فرق نہیں پڑتا مرے ہونے سے
میرے قاتل ! بتا یہ ناز دکھانا کیا ہے؟

ٹائپو درست کرلیں ۔ میرے قاتل یہ بتا ۔۔۔۔۔۔
ناز دکھانا اور ہونے نہ ہونے کا ربط نہیں بنتا ۔ میرے قاتل یہ ترا تیغ اٹھانا کیا ہے؟ کہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے ۔

زندگی غیر کے شانوں پہ بسر کر دی ، اور
نغمۂ وصل ہمیں روز سنانا کیا ہے؟

یہاں اور کا محل نہیں ہے ۔ دونوں مصرعے مربوط نہیں ۔ کس سے خطاب ہے یہ نہیں کھلتا ۔

بڑے انداز سے کہتے ہو کہ تم میرے ہو
چاند چہرے کومجھی سے یوں چھپانا کیا ہے؟

اچھا ہے !! بڑے انداز سے کہنا شایدآج کل کی زبان کا محاورہ ہے ۔ ویسے ناز و انداز سے کہنا یا بڑے ناز سے کہنا معروف ہے ۔

میرے آنگن میں بھی اترو کبھی شب فرقت میں
عدو کی بزم کا ہو کر ہی رہ جانا کیا ہے؟

پہلا مصرع توجہ چاہتا ہے ۔ وزن یوں درست ہوگا: میرے آنگن میں بھی اترو شبِ فرقت میں کبھی
دوسرا مصرع بھی وزن میں نہیں ۔

دشت میں یُوں بھی تو برسات کا امکاں کم ہے
کار بے کار میں جی کو یوں جلانا کیا ہے؟

دو لخت لگ رہا ہے ۔ کس چیز کو کارِ بیکار کہا جارہا ہےیہ واضح نہیں ۔

ترے وعدے پہ ہی تکیہ کیے بیٹھے ہیں ہم
ترے بیمار کا اب اور ٹھکانا کیا ہے؟

اچھا شعر ہے ۔ واہ واہ!
ہی کی نشست وعدے کے بعد لے آؤ تو بہتر ہوگا ۔

چلو ! اب کوچ کرو، کچھ نہ کہو، اے مریم!
جانتی ہے تُو ستم گر کو منانا کیا ہے ؟

اس میں شتر گربہ ہے ۔ تو کے ساتھ چل کا صیغہ استعمال ہوتا ہے ۔ دونوں مصرعے زیادہ مربوط بھی نہیں ۔

امید ہے کہ سر دست یہ چند نکات غور و فکر کے کچھ مواقع ضرور فراہم کریں گے ۔ :):):)
حُسن کا عشق کی آتش کو لگانا کیا ہے؟
عشق کا حسن ہی پر جان لُٹانا کیا ہے ؟

تری بے باکی سے واقف ہے جہاں سارا ، پھِر
سامنے میرے یُوں چلمن کو گرانا کیا ہے؟

مرا ہونا بھی نہ ہونے کے برابر ہے اگر
مرے قاتل ! یہ ترا تیغ اُٹھانا کیا ہے؟

زندگی غیر کے شانوں پہ بسر کی تُم نے
نغمۂ وصل ہمیں روز سنانا کیا ہے؟

سارے عالم کو ہے معلوم کہ تم میرے ہو!
پری چہرے کو مجھی سے یوں چھپانا کیا ہے؟

مرے آنگن میں بھی اترو شبِ فرقت میں کبھی
عدو کی بزم کا ہو کے ہی رہ جانا کیا ہے؟

دشت میں یُوں بھی تو برسات کا امکاں کم ہے
دشتِ دِل کو یونہی بے کار جلانا کیا ہے؟

ترے وعدے ہی پہ تکیہ کیے بیٹھے ہیں ہم
ترے بیمار کا اب اور ٹھکانا کیا ہے؟
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اب بدرجہا بہتر لگ رہی ہے !!! ماشاءاللہ ! بھئی آپ تو واقعی اچھی شاعرہ ہیں!! اتنی جلدی نظرِثانی کرڈالی!
عدو کی بزم کا ہو کے ہی رہ جانا کیا ہے؟
مریم بیٹا اس کا وزن اور دیکھ لو۔ عدو کا واؤ بہت زیادہ دب رہا ہے ۔ اور رہ کا ’’ہ‘‘ تقطیع سے گر رہا ہے جو کہ جائز نہیں ۔
 

الف عین

لائبریرین
ظہیر احمد ظہیر نے درست کہا ہے۔ اب غزل بہتر ہو گئی ہے۔ بس ایک مصرع ہی اب بھی بحر میں نہیں ہے۔
اس کے علاوہ بضحر میں کہیں کہیں ترا، اور تیرا، مرا، اور میرا کا محل ہے، جس کو الٹا لکھا گیا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
حُسن کا عشق کی آتش کو لگانا کیا ہے؟
عشق کا حسن ہی پر جان لُٹانا کیا ہے ؟
۔۔حسن پہ ہی‘ کا مشورہ دیا گیا تھا شاید۔


تری بے باکی سے واقف ہے جہاں سارا ، پھِر
سامنے میرے یُوں چلمن کو گرانا کیا ہے؟
۔۔۔ تیری بے باکی‘ ہونا تھا۔ ، دوسرا مصرع یوں بہتر ہو گا۔
سامنے یوں مرے۔۔۔۔

مرا ہونا بھی نہ ہونے کے برابر ہے اگر
مرے قاتل ! یہ ترا تیغ اُٹھانا کیا ہے؟
÷÷’میرا ہونا‘ پہلے مصرع میں درست ہے۔

سارے عالم کو ہے معلوم کہ تم میرے ہو
پری چہرے کو مجھی سے یوں چھپانا کیا ہے؟
÷÷چاند چہرہ ہی بہتر اور زیادہ رواں ہے۔
مرے آنگن میں بھی اترو شبِ فرقت میں کبھی
عدو کی بزم کا ہو کے ہی رہ جانا کیا ہے؟
۔۔ دوسرا مصرع خارج البحر

ترے وعدے ہی پہ تکیہ کیے بیٹھے ہیں ہم
ترے بیمار کا اب اور ٹھکانا کیا ہے؟
۔۔۔ دونوں مصرعوں میں ’تیرے‘ کا محل ہے۔
 
Top