فاخر
محفلین
اے دَمِ مسیح و عیسیٰ سنو دل کی یہ صدائیں
کوئی ساز چھیڑو دلکش، ترے گیت گنگنائیں!
تری آرتی اتاریں، تجھ سر پہ ہم بٹھائیں
ترے حسن کا قصیدہ، تجھےپڑھ کے ہم سنائیں
تو ہماری شاعری ہے، ذرا پاس آکے بیٹھو
ترے ہاتھ تھام کر ہم، یہ غزل تجھے سنائیں
کوئی اَلف لیلوی ہے، تری چشم و قد و قامت
بُتِ آذری جو دیکھیں، ترے آگے سرجھکائیں
ترے عارض و جبیں کی یہ ستارے لو چرا کر
بڑے کر و فر سے دیکھو، سرِ عرش جگمگائیں
یہ کلی ترے لبوں کی حسیں مسکراہٹوں سے
ذرا لے کے استعارہ ، یہ چمن میں مسکرائیں
ترا رُخ ہے روزِ روشن، تری زلف ہیں معنبر
تجھے دیکھ لیں جو زاہد وُہ بھی لیں تری بلائیں
یہ تمام جوگی راہب، جو ہیں لین سادھنا میں
ترے شیش یہ نوائیں، کہ تجھے جہاں بھی پائیں
کبھی سر اٹھا کے دلبر ذرا آسماں تو دیکھو
ترے لحن کے تصدق، یہ پرندے چہچہائیں
ترا حسن ہے قیامت تو سخن کی شاہِ رگ ہے
تو سراپا اک غزل ہے، تجھے کیا غزل سنائیں
یہی فاخر دعا گو کی ازل سے ہے تمنا
تو سدا رہے سلامت یہ ہماری ہیں دعائیں
احمد فاخر
کوئی ساز چھیڑو دلکش، ترے گیت گنگنائیں!
تری آرتی اتاریں، تجھ سر پہ ہم بٹھائیں
ترے حسن کا قصیدہ، تجھےپڑھ کے ہم سنائیں
تو ہماری شاعری ہے، ذرا پاس آکے بیٹھو
ترے ہاتھ تھام کر ہم، یہ غزل تجھے سنائیں
کوئی اَلف لیلوی ہے، تری چشم و قد و قامت
بُتِ آذری جو دیکھیں، ترے آگے سرجھکائیں
ترے عارض و جبیں کی یہ ستارے لو چرا کر
بڑے کر و فر سے دیکھو، سرِ عرش جگمگائیں
یہ کلی ترے لبوں کی حسیں مسکراہٹوں سے
ذرا لے کے استعارہ ، یہ چمن میں مسکرائیں
ترا رُخ ہے روزِ روشن، تری زلف ہیں معنبر
تجھے دیکھ لیں جو زاہد وُہ بھی لیں تری بلائیں
یہ تمام جوگی راہب، جو ہیں لین سادھنا میں
ترے شیش یہ نوائیں، کہ تجھے جہاں بھی پائیں
کبھی سر اٹھا کے دلبر ذرا آسماں تو دیکھو
ترے لحن کے تصدق، یہ پرندے چہچہائیں
ترا حسن ہے قیامت تو سخن کی شاہِ رگ ہے
تو سراپا اک غزل ہے، تجھے کیا غزل سنائیں
یہی فاخر دعا گو کی ازل سے ہے تمنا
تو سدا رہے سلامت یہ ہماری ہیں دعائیں
احمد فاخر