ترے لوگوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں ۔ صابر ظفر

فرخ منظور

لائبریرین
ترے لوگوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں
مگر سجدہ تجھی کو کر رہے ہیں

مبارک ہو تجھے تیری سخاوت
کہ ہم جھولی میں پتھر بھر رہے ہیں

ترے آگے انھیں پھیلاتے کیسے
جو دامن آنسوؤں سے تر رہے ہیں

انھیں بینائی دے جن کی نظر میں
ترے ہو کر بھی ہم کافر رہے ہیں

نہیں فرصت ادھر آنے کی تجھ کو
اسی دکھ سے ، ہم اپنے گھر رہے ہیں

کوئی اڑتا جو ہم جیسا تو اڑتے
نہیں ایسا کہ ہم بے پر رہے ہیں

گروہِ عاشقاں پکڑا گیا ہے
جو نامہ بر رہے ہیں ڈر رہے ہیں

ظفر چھینیں اجالے وہ کہ جن کے
بہت تاریک پس منظر رہے ہیں

صابر ظفر
 
Top