ترے وِصال سے جو احتِمال تھا سو ہے ٭ راحیلؔ فاروق

ترے وِصال سے جو احتِمال تھا سو ہے
فِراق میں بھی یہی دل کا حال تھا سو ہے

جواب تھا سو نہیں ہے سوال تھا سو ہے
خِرَد کے خواب کا حاصل خیال تھا سو ہے

تمھارے ہجر میں جینا محال تھا سو ہے
مگر وہ حوصلہ جو لازوال تھا سو ہے

تمھاری یاد کو دل سے نہ دھو سکے آنسو
اس آئنے میں یہی ایک بال تھا سو ہے

حرام پردہ نشینوں پہ ہے کہ سانس بھی لیں
یہ ننگ صرف حرَم میں حلال تھا سو ہے

نئے تو روز نکلتے ہی رہتے ہیں لیکن
وہ راستہ جو بہت پائمال تھا سو ہے

فرِشتگی کے یہ غازے یہ شَیطَنَت کے نقاب
بشَر ہمیشہ ہی سے خال خال تھا سو ہے

ہمارے پاس جو تھا یاد بھی نہیں کیا تھا
تمھارے پاس جو حسن و جمال تھا سو ہے

غضب تو یہ ہے کہ تیرا اسیر پہلے بھی
اسیرِ سلسلۂِ ماہ و سال تھا سو ہے

مَرا وہ تلخ نوا جس کا نام تھا راحیلؔ
جو ایک شاعرِ شیریں مَقال تھا سو ہے

راحیلؔ فاروق​
 
Top