احسان الٰہی احسان
محفلین
ترے کوچے میں جا کے دیکھتے ہیں
مقدر آزما کے دیکھتے ہیں
پڑی ہیں جتنی بھی ماضی میں یادیں
وہ سب واپس بلا کے دیکھتے ہیں
تمہاری اور میری روح کا پھر سے
وہ دستر خواں لگا کے دیکھتے ہیں
تری آنکھوں کے آنگن میں ہے کیا کیا
ذرا نظریں جما کے دیکھتے ہیں
بچھے ہیں راستے میں جو بھی کانٹے
چلو ان کو ہٹا کے دیکھتے ہیں
یہ اپنے روٹھتے رہتے ہیں پھر بھی
انہیں پھر سے منا کے دیکھتے ہیں
زمانے کو بہت کوسا ہے ہم نے
اسے اب مسکرا کے دیکھتے ہیں
جو دل کے داغ مدھم پڑ گئے ہیں
انہیں پھر جگمگا کے دیکھتے ہیں
بہت دھوکا دیا خوش فہمیوں نے
ذرا ان کو گھما کے دیکھتے ہیں
تجھے اے زندگی دشمن ہی جانا
تجھے اپنا بنا کے دیکھتے ہیں
چھپا رکھا ہے جو بھی اپنے دل میں
وہ لوگوں کو بتا کے دیکھتے ہیں
ہوا میں جو بنا رکھی ہے مورت
اسی کو ہی سجا کے دیکھتے ہیں
ہمارے درمیاں جو فاصلے ہیں
انہیں تھوڑا گھٹا کے دیکھتے ہیں
ہوائے وقت نے جن کو ابھارا
وہ نقش ہم تم مٹا کے دیکھتے ہیں
بہت دیکھا ہے اس مٹی کی جانب
ذرا اب سر اٹھا کے دیکھتے ہیں
ہمیں معلوم ہے اپنی حقیقت
تمہارے گھر بھی آ کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اپنے پہلو میں ہے سب کچھ
چلو یہ سر جھکا کے دیکھتے ہیں
اِنہیں ویرانیوں کے درمیاں پھر
نئی دنیا بسا کے دیکھتے ہیں
مزاجوں میں اداسی آ گئی ہے
انہیں کچھ کھلکھلا کے دیکھتے ہیں
زمانہ تو نہیں ہے اپنے بس میں
مذاق اپنا اڑا کے دیکھتے ہیں
کوئی سنتا نہیں اپنی کہانی
مگر پھر بھی سنا کے دیکھتے ہیں
جو گہری نیند میں سوئے ہیں اب تک
انہیں تھوڑا جگا کے دیکھتے ہیں
کناروں میں چھپا رکھے ہیں کب سے
یہ دریا اب بہا کے دیکھتے ہیں
جو صدمے درد میں ڈوبے ہوئے ہیں
وہ دنیا کو دکھا کے دیکھتے ہیں
ہواؤں سے جو لڑ کر مر رہی ہے
اسی لَو کو بچا کے دیکھتے ہیں
ہمارے پاس جتنی بھی ہیں خوابیں
ترے قدموں میں لا کے دیکھتے ہیں
تمہارے راستہ جو دیکھتے ہیں
سدا پلکیں بچھا کے دیکھتے ہیں
اندھیروں سے بھری مایوسیوں میں
چراغوں کو جلا کے دیکھتے ہیں
ان ہنگاموں سے فرصت جو ملے تو
فقط تجھ کو بٹھا کے دیکھتے ہیں
زمانے نے ستم ڈھائے بہت ہیں
مگر ان کو بھلا کر دیکھتے ہیں
کہ جیسے مجھ سے کچھ رشتہ نہیں تھا
وہ یوں آنکھیں چرا کے دیکھتے ہیں
جنہیں بچھڑے ہوئے صدیاں ہوئی ہیں
چلو ان کو ملا کے دیکھتے ہیں
مرے اندر کے بگڑے آدمی کو
محبت سے سِدھا کر دیکھتے ہیں
لگی ہے آگ جو اندر مسلسل
تدبر سے بجھا کے دیکھتے ہیں
جو نغمہ چل رہا ہے خامشی سے
اسے اب گنگنا کے دیکھتے ہیں
زمیں سوچوں کی بنجر ہو گئی ہے
اسے اب لہلہا کے دیکھتے ہیں
جو کھویا ہے وقار احسان ہم نے
اسے دوبارہ پا کر دیکھتے ہیں
احسان الٰہی احسان
مقدر آزما کے دیکھتے ہیں
پڑی ہیں جتنی بھی ماضی میں یادیں
وہ سب واپس بلا کے دیکھتے ہیں
تمہاری اور میری روح کا پھر سے
وہ دستر خواں لگا کے دیکھتے ہیں
تری آنکھوں کے آنگن میں ہے کیا کیا
ذرا نظریں جما کے دیکھتے ہیں
بچھے ہیں راستے میں جو بھی کانٹے
چلو ان کو ہٹا کے دیکھتے ہیں
یہ اپنے روٹھتے رہتے ہیں پھر بھی
انہیں پھر سے منا کے دیکھتے ہیں
زمانے کو بہت کوسا ہے ہم نے
اسے اب مسکرا کے دیکھتے ہیں
جو دل کے داغ مدھم پڑ گئے ہیں
انہیں پھر جگمگا کے دیکھتے ہیں
بہت دھوکا دیا خوش فہمیوں نے
ذرا ان کو گھما کے دیکھتے ہیں
تجھے اے زندگی دشمن ہی جانا
تجھے اپنا بنا کے دیکھتے ہیں
چھپا رکھا ہے جو بھی اپنے دل میں
وہ لوگوں کو بتا کے دیکھتے ہیں
ہوا میں جو بنا رکھی ہے مورت
اسی کو ہی سجا کے دیکھتے ہیں
ہمارے درمیاں جو فاصلے ہیں
انہیں تھوڑا گھٹا کے دیکھتے ہیں
ہوائے وقت نے جن کو ابھارا
وہ نقش ہم تم مٹا کے دیکھتے ہیں
بہت دیکھا ہے اس مٹی کی جانب
ذرا اب سر اٹھا کے دیکھتے ہیں
ہمیں معلوم ہے اپنی حقیقت
تمہارے گھر بھی آ کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اپنے پہلو میں ہے سب کچھ
چلو یہ سر جھکا کے دیکھتے ہیں
اِنہیں ویرانیوں کے درمیاں پھر
نئی دنیا بسا کے دیکھتے ہیں
مزاجوں میں اداسی آ گئی ہے
انہیں کچھ کھلکھلا کے دیکھتے ہیں
زمانہ تو نہیں ہے اپنے بس میں
مذاق اپنا اڑا کے دیکھتے ہیں
کوئی سنتا نہیں اپنی کہانی
مگر پھر بھی سنا کے دیکھتے ہیں
جو گہری نیند میں سوئے ہیں اب تک
انہیں تھوڑا جگا کے دیکھتے ہیں
کناروں میں چھپا رکھے ہیں کب سے
یہ دریا اب بہا کے دیکھتے ہیں
جو صدمے درد میں ڈوبے ہوئے ہیں
وہ دنیا کو دکھا کے دیکھتے ہیں
ہواؤں سے جو لڑ کر مر رہی ہے
اسی لَو کو بچا کے دیکھتے ہیں
ہمارے پاس جتنی بھی ہیں خوابیں
ترے قدموں میں لا کے دیکھتے ہیں
تمہارے راستہ جو دیکھتے ہیں
سدا پلکیں بچھا کے دیکھتے ہیں
اندھیروں سے بھری مایوسیوں میں
چراغوں کو جلا کے دیکھتے ہیں
ان ہنگاموں سے فرصت جو ملے تو
فقط تجھ کو بٹھا کے دیکھتے ہیں
زمانے نے ستم ڈھائے بہت ہیں
مگر ان کو بھلا کر دیکھتے ہیں
کہ جیسے مجھ سے کچھ رشتہ نہیں تھا
وہ یوں آنکھیں چرا کے دیکھتے ہیں
جنہیں بچھڑے ہوئے صدیاں ہوئی ہیں
چلو ان کو ملا کے دیکھتے ہیں
مرے اندر کے بگڑے آدمی کو
محبت سے سِدھا کر دیکھتے ہیں
لگی ہے آگ جو اندر مسلسل
تدبر سے بجھا کے دیکھتے ہیں
جو نغمہ چل رہا ہے خامشی سے
اسے اب گنگنا کے دیکھتے ہیں
زمیں سوچوں کی بنجر ہو گئی ہے
اسے اب لہلہا کے دیکھتے ہیں
جو کھویا ہے وقار احسان ہم نے
اسے دوبارہ پا کر دیکھتے ہیں
احسان الٰہی احسان