فارقلیط رحمانی
لائبریرین
اِسلامی اَخلاق و آداب
اِسلامی تہذیب واخلاق کی بنیاد فطرت اور عقلِ انسانی پر ہے اور یہ کائنات کی فطر ت سے ہم آہنگ ہے اور کائنات کی فطرت الٰہی فطرت کا پرتو ہے لہٰذا اس کے خلاف اِنسان اگر حرکت کرے گاتو وہ تہذیب واخلاقِ اِسلامی کے خلاف حرکت ہوگی جوفرداور معاشرے کے لیے ضرر رساں ہوگی۔اِنسان کے کسی بھی عمل اَور سوچ کو اِنسانی معاشرے سے لا تعلق نہیں مانا جاسکتا اِسی طرح اِنسانی معاشرے کا مجموعی کردار بھی ہر فرد کے لیے تاثیر رکھتا ہے لہٰذا فرد اورمعاشرہ ایک دوسرے سے ہرگز بے گانہ نہیں ہوسکتے۔
فرد معاشرے کے لیے ذِمہ دار ہے اور معاشرہ فرد کے لیے ۔ جب اِسلام کا یہ تصور ہو تو پھر اِسلامی تہذیب سے مراد ایک اِنسانی تہذیب ہے اور اِسلام کی تعلیمات اور اَقدار ساری اِنسانیت کے لیے سرمایہ اور وِرثہ ہیں، اِس لیے ہر وہ فکر اور ہر وہ کام جو اِنسانی فطرت اور عقل کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آئے، اِسلامی ہے اگرچہ اس پر اِسلام کا لیبل چسپاں نہ بھی کیا گیا ہو۔ جب بھی غور اور مطالعہ کیا جائے گا اَیسے فکروعمل کو اَنبیاءِاِلہٰی کی تعلیمات کا نتیجہ پایا جائے گا۔اسی اخلاق و تہذیب کو پروان چڑھانے کا نام تزکیۂ نفس ہے ۔ ، اگر بنظر غائر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ تمام انبیائے کرام کی بعثت ، اور تمام آسمانی کتابوں کے نزول کا اصلی مقصد و ہدف تزکیہ نفس ہی رہا ہے۔چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آنحضرت ﷺ کی بعثت کے لیے دُعاء فرمائی، اس میں آپ کی بعثت کا اصل مقصد یہی بیان فرمایا ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کا تزکیہ فرمائیں۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُ(بقرہ ١٢٩)
اور اَے ہمارے رب! تو ان میں اُنہیں میں سے ایک رسول بھیج، جو ان کو تیری آیتیں پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے، بے شک تو غالب حکمت والا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دُعاء کے مطابق جب حضرت ﷺ کی بعثت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکی بعثت اور اس کے مقاصد کا حوالہ ان الفاظ میں دیا:
1. كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ (بقرہ ١٥١)
چنانچہ ہم نے تم میں تمھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیتیں سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تم کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تم کو وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔
اسی طرح سورہ جمعہ میں آپﷺ کی بعثت اور اس کے اغراض و مقاصد کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ نے بنی اسمٰعیل پر ان الفاظ میں اپنے احسان کا اظہار فرمایا ہے:
2. ۤ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
وہی خدا ہے جس نے امیوں (بنی اسمٰعیل) میں انھیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے، اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور بے شک اس سے پہلے وہ کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔
ممکن ہے یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ مذکورہ بالا آیات میں نبی ﷺکی بعثت کے مقاصد میں جہاں تزکیّہ کا ذکر آیا ہے وہیں تلاوتِ آیات اور تعلیمِ کتاب و حکمت کا ذکر بھی آیا ہے تو ہم نے آنحضرت ﷺکی بعثت کا اصلی مقصد صرف تزکیہ ہی کو کیسے قرار دیا؟ آخر دوسری چیزیں بھی تو اسی اہمیت کے ساتھ مذکور ہوئی ہیں وہ کیوں اصلی مقصد قرار پانے کی مستحق نہیں ہیں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ خود قرآن مجید کے اسلوبِ بیان نے یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ مذکورہ آیات میں نبی ﷺ کے اصلی مقصد بعثت کی حیثیت سے جس چیز کا ذکر ہوا ہے وہ تزکیہ ہے۔ باقی اس کے ساتھ دوسری چیزیں ۔(تلاوتِ آیات اور تعلیمِ کتاب و حکمت)جو مذکور ہوئی ہیں تو وہ اصلی مقصد کی حیثیت سے نہیں، بلکہ اصلی مقصد کے وسائل و ذرائع کی حیثیت سے مذکور ہوئی ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سورہ بقرہ کی مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں سے ایک آیت میں تزکیہ کا لفظ سب سے آخر میں آیا ہے اور دوسری آیت میں سب کے شروع میں آیا ہے۔ آیت کے اس تقدیم و تاخیر سے یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ نبی ﷺکی تمام جدوجہد اور اس کی تمام سرگرمیوں کا محور و مقصود دراصل تزکیہ ہی ہے۔ کیوں کہ اصل مقصد ہی کی یہ اہمیت ہوتی ہے کہ وہ شروع میں بھی ایک کام کرنے والے کے پیش نظر ہوتا ہے اور آخر میں بھی، وہی اس کی تمام سرگرمیوں کا نقطہ آغاز بھی ہوتا ہے اور وہی نقطہ اختتام بھی ،وہیں سے وہ اپنا سفر شروع بھی کرتا ہے اور وہیں اس کو ختم بھی کرتا ہے۔
اس مثال کو سامنے رکھ کر آپ اگر انبیائے کرام کی بعثت کے مقصد کو سمجھنا چاہیں تو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا اصلی مقصد تو لوگوں کے نفوس کا تزکیہ ہی ہوتا ہے اور اسی نقطہ نظر سے وہ اپنی تمام دعوتی اور اصلاحی سرگرمیوں کا آغاز کرتے ہیں لیکن اس مقصد کی خاطر انہیں بہت سے ایسے کام بھی کرنے پڑتے ہیں جو اس مقصد کے حصول کا وسیلہ و ذریعہ ہوتے ہیں۔اس کے لیے وہ اللہ کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ کتاب اللہ کی تعلیم دیتے ہیں، اس کے لیے وہ حکمت کا درس دیتے ہیں۔ مگر مقصود ان سارے کاموں سے صرف تزکیہ ہوتا ہے جو شروع میں بھی ان کے پیشِ نظر ہوتا ہے اور آخر میں بھی وہی ان کی تمام جدوجہد کی غایت بنتا ہے۔ چنانچہ اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے مذکورہ بالا آیات میں سے ایک آیت میں اس کو نبی ﷺکی تمام سرگرمیوں کے نقطہ آغاز کی حیثیت سے نمایاں کیا ہے اور دوسری آیت میں اس کی غایت اورمنتہا کی حیثیت سے۔
اوپر کے مباحث سے تین باتیں واضح ہوئیں:۔
1. ایک یہ کہ تزکیہ تمام دین و شریعت کی غایت اور تمام انبیاء کی بعثت کا اصلی مقصود ہے، دین میں جو اہمیت اس کو حاصل ہے وہ اہمیت دوسری کسی چیز کو بھی حاصل نہیں ہے۔ دوسری ساری چیزیں وسائل و ذرائع کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ چیز غایت و مقصد کی حیثیت رکھتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی سرگرمیاں، خواہ ظاہر میں کتنے ہی مختلف پہلو رکھتی ہوں لیکن باطن میں ان کا ہدف انسان اور انسانی معاشرہ کے تزکیہ ہے۔
2. دوسری بات یہ واضح ہوئی کہ تزکیہ کا سرچشمہ اور اس کا منبع و مصدر اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اسی کی تعلیم سے تزکیہ کا آغاز ہوتا ہے اور پھر اسی کے اسراروحقائق ہیں جو نبی ﷺ کے ذریعہ سے واضح ہو کر اس تزکیہ کی تکمیل کرتے ہیں۔
3. تیسری حقیقت یہ واضح ہوئی کہ تزکیہ کا عمل انسانی معاشرہ کے کسی گروہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تمام افراد اور تمام گروہوں بلکہ پورے معاشرہ سے یکساں طور پر ہے، کوئی شخص بھی اس کے بغیر آخرت میں نجات اور فلاح حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کی حیثیت دین میں صرف ایک فضیلت کی نہیں ہے بلکہ ہر شخص کے لیے ایک ناگزیر انفرادی ضرورت کی ہے۔ یہ نجات اور فلاح آخرت کے لیے ایک ضروری شرط ہے ۔
تزکیہ کا معنی:
عربی زبان میں تزکیہ کا مفہوم کسی چیز کو صاف ستھرا بنانا، اس کو نشو ونما دینا، اور اس کو پروان چڑھانا ہے۔ اور اس کا اصطلاحی مفہوم نفس کو غلط رحجانات و میلانات سے موڑ کر نیکی اور خدا ترسی کے راستہ پر ڈال دینا اور اس کو درجہ کمال پر پہنچنے کے لائق بنانا ہے۔
نفس کیا ہے :
اِنسان کے جسدِ خاکی میں معصیت کا گہرا شعور رکھنے والی اور اُس سے بچنے(اِجتناب ) کے طریقوں سے بھی آگاہ رہنے والی ایک فعال ، متحرک اور خود مختار قوتِ حاکمہ ہوتی ہے؛ جو اِنسان کو بد اعمالی اور گُناہ پر اکساتی بھی ہے اور اس سے بچاؤ کے طریقے بھی سُجھاتی ہے ؛ نیز کبھی کسی بد کرداری کے ظہور پر لعنت و ملامت بھی کرتی ہے۔ وہ متضاد داخلی کیفیات کی حامل ہوتی ہے، کبھی معصیتوں اور بد اعمالیوں کا اصل منبع ہو اکرتی ہے اور کبھی حسنات و اعمالِ صالحہ کے لیے داعی و محرک ہو کر رُشدوخیر کے لیے بُنیادی سرچشمہ بن جاتی ہے۔ بالفاظِ دیگر وہ روح اور جسم کے درمیان ایک پل کا کام دیتی ہے، یہی قوتِ حاکمہ "نفس" (SELF)کہلاتی ہے۔ قرآنِ پاک میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
1. وَ نَفسٍ وَّمَا سَوّٰھَا فَاَلھَمَھَا فُجُورَھَا وَ تَقوٰھَا ، قَد اَفلَحَ مَن زَکّٰھَا (الشمس :9)
قسم نفس کی اور جس نے اسے ہموار کیا، پھر اس کی بدی اور اس کی پر ہیز گاری
اس پر الہام کر دی۔ یقیناً وہ فلاح پا گیا، جس نے اس کا تزکیہ کیا۔
نفس کا معنی : لغت میں نفس کے مختلف معنی وارد ہوئے ہیں مگر قابل ذکر چند یہ ہیں : جان ، روح ، ذات، شخصیت، حقیقت امر مگر اِصطلاحاًنفس وہ شیٔ ہے جو اِنسان کے اندر غضب اور خواہش و شہوات کی جامع ہو۔
انسانی صفات:
انسان کے اندر پائی جانے والی خصوصیات بنیادی طور پر دو قسم کی ہیں: ایک تو وہ ہیں جو اسے براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں ۔ یہ غیر اکتسابی یا قدرتی صفات کہلاتی ہیں۔ دوسری وہ خصوصیات ہیں جنہیں انسان اپنے اندر یا تو خود پیدا کر سکتا ہے یا پھر اپنی قدرتی صفات میں کچھ تبدیلیاں پیدا کرکے انہیں حاصل کرسکتا ہے یا پھر یہ اس کے ماحول کی پیداوار ہوتی ہیں۔ یہ اکتسابی صفات کہلاتی ہیں۔ قدرتی صفات میں ہمارا رنگ، نسل ، شکل و صورت ، جسمانی ساخت ، ذہنی صلاحیتیں وغیرہ شامل ہیں۔ اکتسابی صفات میں انسان کی علمی سطح، اس کا پیشہ، اس کی فکر وغیرہ شامل ہیں۔
تزکیہ نفس یا تعمیر شخصیت ان دونوں طرز کی صفات کو مناسب حد تک ترقی دینے کا نام ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی ذات کو دلکش بنانے کے لیے اپنی قدرتی صفات کو ترقی دے کر ایک مناسب سطح پر لے آئے اور اکتسابی صفات کی تعمیر کا عمل بھی جاری رکھے۔
تزکیہ نفس کے لیے ہمارے نزدیک سب سے اعلیٰ و ارفع نمونہ عمل اور آئیڈیل ترین شخصیت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات با برکت ہے۔ اعلیٰ ترین صفات کا اس قدر حسین امتزاج ہمیں کسی او رشخصیت میں نظر نہیں آتا۔
تزکیہ نفس کا ہدف :
تزکیہ کا مطمع نظر صرف اسی قدر نہیں ہےکہ ہمارا نفس کسی نہ کسی شکل میں ٹھیک راہ پر لگ جائے بلکہ تزکیہ اس سے آگے بڑھ کر نفس کو بہتر سے بہتر بنانے کی جدوجہد کرتا ہے۔ تزکیہ صرف اتنا ہی نہیں چاہتا ہے کہ ہمیں خدا اور اس کی شریعت کا کچھ علم حاصل ہو جائے بلکہ وہ اس سے بڑھ کر یہ بھی چاہتا ہے کہ ہمیں خدا اور اس کی صفات کی سچی اور پکی معرفت حاصل ہو جائے۔ تزکیہ صرف یہی نہیں پیش نظر رکھتا ہے کہ ہماری عادتیں کسی حد تک سنور جائیں بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ ہم تمام مکارم اخلاق کے پیکر مجسم بن جائیں۔ تزکیہ صرف اتنے پر ہی قناعت نہیں کرتا کہ ہمارے جذبات میں ایک ہم آہنگی اور رابط پیدا ہو جائے بلکہ وہ اس پر مزید ہمارے جذبات کے اندر رقت و لطافت اور سوزوگداز کی مٹھاس بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کا اصلی مطالبہ یہ ہے کہ ہمارا نفس خدا اور اس کے رسول کے ہر حکم کو اس طرح بجا لائے جس طرح اس کے بجا لانے کا حق ہے۔ اس کا مطالبہ ہم سے صرف خدا کی بندگی ہی کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اس بات کے لیے بھی ہوتا ہے کہ ہم خدا کی اس طرح بندگی کریں گویا ہم اسے اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ مختصر الفاظ میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ تزکیہ ایمان، اسلام اور احسان تینوں کے تقاضے بیک وقت ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے خدا کو اس کی تمام صفتوں کے ساتھ مانیں، پھر وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ہم اس کے تمام احکام کی زندگی کے ہر گوشہ میں اطاعت کریں اور پھر اس کا مطالبہ ہم سے یہ بھی ہے کہ یہ ماننا اور اطاعت کرنا محض رسمی اور ظاہری طریقہ پر نہ ہو بلکہ پورے شعور اور گہری للہیت کے ساتھ ہو جس میں ہمارے اعضاء و جوارح کے ساتھ ہمارا دل بھی پورا پورا شریک ہو۔
تزکیہ کے اس عمل میں کوئی وقفہ یا ٹھیراؤ نہیں ہے، اس سفر میں کوئی موڑ یا مقام ایسا نہیں آتا ہے جہاں پہنچ کر آدمی یہ سمجھ سکے کہ بس اب یہ آخری منزل آ گئی ہے۔یہ بہتر سے بہتر کی تلاش و جستجو ہے، اس جستجو میں نگاہ کو کہیں ٹھہرنے کی جگہ نہیں ملتی جس رفتار سے اعمال و اخلاق اور ظاہر و باطن میں جلا پیدا ہوتا جاتا ہے، اسی رفتار سے مذاق کی لطافت، حس کی ذکاوت اور آنکھوں کی بصارت بھی بڑھتی جاتی ہے۔
تزکیہ کا اصل موضوع :
تزکیے کا یہ عمل، جس چیز پر وارد ہوتا ہے، وہ ہمارا نفس ہے۔ لیکن خود نفس کیا ہے؟ یہ کن صفات اور کن تقاضوں سے مرکب ہے اس کا تزکیہ کن کن باتوں کا مقتضی ہو گا۔