La Alma
لائبریرین
تسخیرِ ذات
میں نے گھبرا کر شاید کسی کو صدا دی تھی. اپنی آواز کی بازگشت مجھے صاف سنائی دے رہی تھی. میری بات جب مجھ تک ہی پلٹنے لگی تو مجھے اندازہ ہوا کہ زندگی وقت کے کسی اندھے کنویں میں گر چکی ہے، تنہائی مقدر ہو چکی ہے. اپنی بے بسی کا سوچ کر میری پور پور سے درد رسنے لگا. میرے اشک گھٹنوں تک آ چکے تھے. میری قسمت کا فیصلہ ہو چکا تھا. اب مجھے اپنے ہی آنسوؤں میں ڈوب کر مرنا تھا. کسی انجانے خوف نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا. تو کیا مجھے اس اسیری میں ہی محبوس رہنا تھا؟ میں تو وقت کے ہاتھوں پہلے ہی مقروض تھی، اصل سے سود کئی گنا بڑھ چکا تھا. میری رہائی کاتاوان پھر کون بھرتا، گھاٹے کا سودا کون کرتا. زندگی تھی یا کوئی زنداں، جس کی کھلی چھت سے آسماں جھانک رہا تھا. جھلملاتے تاروں پر میں نے ایک حسرت بھری نگاہ ڈالی. تو کیا تسخیرِ کائنات کا میرا وہ خواب، بس خواب ہی رہ گیا؟ جن کواکب اور نجوم پر میں نے کمند ڈالنی چاہی آج انہی کی گردش نے مجھے یہاں لا کر پٹخ دیا. میرے لئے ہر جگہ ہی ممنوعہ علاقہ ٹھہرائی گئی تو پھر میں اپنی فتح کا علم کہاں بلند کرتی؟ بےقدری کی اذیت میرے رگ و رپے میں سرایت کر گئی .شبنم افشانی کرتی رات بھی مرجھائے دل کو کیا تراوٹ بخشتی. احساس کی نئی کونپلیں کیسے کھلاتی .
میرے قدموں تلے جو چند انچ زمین تھی یہی میری کل کائنات تھی اور میں اس پر بسنے والی واحد ذی روح. میرے وجود سےباہر آوارہ بھٹکتی محبت تھی ...آبدیدہ ...تشنہ ...اور متلاشی... محبت کی نگاہ اچانک مجھ پر آ کر ٹک گئی. میری کسمپرسی اس سے دیکھی نہ گئی. فرطِ جذبات سے مغلوب ہو کر محبت میرے گلے آن لگی، مجھ میں سما گئی. آج مجھے سے بہتر کوئی بھی اس کا حقدار نہ تھا . میرے دل پر شاید کوئی الہام القا ہوا تھا. تو کیا سود و زیاں کے معاملے میں میرا حساب غلط تھا؟ اپنا مفتوحہ علاقہ تو میں خود ہی تھی. درد کے ان لمحوں میں میں نے اپنا ہی ہاتھ تھاما ہوا تھا. اس سمے مجھے خود سے محبت ہو گئی تھی . تسخیرِ ذات کا سفر مکمل ہو چکا تھا .