تسلِیم لکھنوی ::::: اِک آفتِ جاں ہے جو مداوا مِرے دِل کا ::::: tasleem Lakhnavi

طارق شاہ

محفلین
غزل

اِک آفتِ جاں ہے جو مداوا مِرے دِل کا
اچّھا کوئی پھر کیوں ہو مسِیحا مِرے دل کا

کیوں بِھیڑ لگائی ہے مجھے دیکھ کے بیتاب
کیا کوئی تماشہ ہے تڑپنا مِرے دِل کا

بازارِ محبّت میں کمی کرتی ہے تقدِیر
بن بن کے بِگڑ جاتا ہے سودا مِرے دِل کا

گر وہ نہ ہُوئے فیصلۂ حشْر پہ راضی
کیا ہوگا پھر انجام خُدایا مِرے دِل کا

کیا کوہکن و قیس کو دیتے دَمِ تقسِیم
حصّہ تھا غمِ حوصلہ فرسا مِرے دِل کا

گو میں نہ رہُوں محفلِ جاناں میں، مگر روز
تسلیم! یُوںہی ذکر رہے گا مِرے دِل کا

امیرالله تسلیم
( مولانا حسرت موہانی کے فنِ شاعری میں اُستاد )
 
Top