تشبیہ و استعارہ میں فرق

مجھے فرق سمجھ نہیں آرہا ۔ کیا صرف حرفِ تشبیہ کا فرق ہے تو پھر کیا یہ شعر استعارے کے ہیں
کھا کھا کے اوس اور بھی صحرا ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا

سبزہء خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا
 

فاتح

لائبریرین
تشبیہ میں مشبہ اور مشبہ بہ موجود ہوتے ہیں یعنی جسے تشبیہ دی جا رہی ہے اور جس سے تشبیہ دی جا رہی ہے ان دونوں کا ذکر ہوتا ہے۔
استعارے میں ایسا نہیں ہوتا
 
مذکورہ اشعار میں استعارے ہیں، تشبہیات نہیں۔
لیکن جناب اشعار میں دونوں مشبہ مشبہ بہ کا ذکر موجود ہے جیسے سبزہء خط اور زمرد
افعی اور کاکل ، موتی اور اوس۔ تو فاتح صاحب کی ڈیفینیشن کے مطابق تو یہ تشبیہات ہونی چاہئیں اور استعارے کی مثال کوئی ایسا شعر ہونا چاہیے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
یا
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
جس میں گل اور شیر کہا گیا ہے مگر جن کے لیے مستعار لیا گیا ہے وہ موجود نہیں ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
لیکن جناب اشعار میں دونوں مشبہ مشبہ بہ کا ذکر موجود ہے جیسے سبزہء خط اور زمرد
افعی اور کاکل ، موتی اور اوس۔ تو فاتح صاحب کی ڈیفینیشن کے مطابق تو یہ تشبیہات ہونی چاہئیں اور استعارے کی مثال کوئی ایسا شعر ہونا چاہیے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
یا
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
جس میں گل اور شیر کہا گیا ہے مگر جن کے لیے مستعار لیا گیا ہے وہ موجود نہیں ہیں۔

تشبہیہ کی مثال میر کی ایک غزل سے لے لیں ۔استعارے کا فرق شاید اس مثال سے واضح ہو جائے۔

ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے۔

نازکی ان لبوں کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے۔

میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے۔
 
مجھے معلوم ہے کہ حرفِ تشبیہ ہوگا تو تشبیہ ہے اور اگر مستعار لہ نہیں ہوگا تو استعارہ ہے مگر ایک درمیانی صورتحال بھی ہے جدھر مشبہ مشبہ بہ دونوں ہیں مگر حرفِ تشبیہ نہیں ہے۔ وہ جناب الف عین کے مطابق تو استعارے ہیں مگر شرحِ غالب میں مولانا طباطبائی اور غلام رسول مہر ایسے اشعار کو تشبیہ ہی قرار دیتے ہیں۔ جیسے ایک اور شعر ہے
اچھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصور
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ان اشعار میں مشبہ اور مشبہ بہ کی طرف صرف اشارے کئے گئے ہیں، یہ نہیں کہا گیا کہ کاکل افعی کی طرح اور اوس لے قطرے موتی کی طرح ہیں۔
 

نسیم اکرم

محفلین
میرے خیال میں استعارے اور تشبیہ کے بھی اقسام ہوتے ہیں۔۔۔ایسے تشبیہ بھی ہے جس میں حرفِ تشبیہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔
 
بھائی اِس بہانے معلومات کی بہم رسانی کا ایک سلسلہ چل نکلا تھا ، چلنے دیتے۔۔۔۔۔۔۔
بحر الفصاحت میں اس موضوع پر خاطرخواہ بحث کی گئی ہے، بحث بھی کچھ فلسفیانہ نوعیت کی ہے جس سے مبتدی پرہیز ہی کریں تو اچھا ہے۔ بہرحال اس کا ماحصل جو مجھے سمجھ آیا وہ یہ ہے کہ استعارہ تشبیہ کی ایک قسم ہے جس میں مشبہ کا ذکر یا تو مفقود ہوتا ہے یا پھر خود میں مشبہ بہ کو تحلیل کر کے رکھتا ہے۔یہ مسلک ہے علامہ سعد الدین تفتازانی کا۔
"زید شیر ہے" قستعارہ ہے یا تشبیہ؟
اس مثال میں مشبہ موجود ہے اور اسے بعینہٖ مشبہ بہ قرار دیا گیا ہے، اسے تشبیہِ مضمر الاداۃ کہا جاتا ہے۔ یہ استعارہ نہیں ہے۔

استعارہ میں اگر مشبہ موجود نہ ہو تو وہ استعارہ بالتصریح کہلاتا ہے، مثلاً دبیر کا مصرع

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

اگر مشبہ بہ ، مشبہ میں ضم ہو گیا ہو تو اسے استعارہ بالکنایہ کہتے ہیں۔ اس صورت میں مشبہ بہ کا ذکر ترک کر دیا جاتا ہے مثلاً

ہوسِ گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پر وبالی نے مجھے

اس شعر میں غالب نے پرندے کا ذکر کیے بغیر اس کا استعارہ اپنے لیے استعمال کیا ہے۔


چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے

یہاں چشمِ خوباں کے لیے ساز کی نوا پردازی مستعار لی گئی ہے۔
 
آخری تدوین:
بحر الفصاحت میں اس موضوع پر خاطرخواہ بحث کی گئی ہے، بحث بھی کچھ فلسفیانہ نوعیت کی ہے جس سے مبتدی پرہیز ہی کریں تو اچھا ہے۔ بہرحال اس کا ماحصل جو مجھے سمجھ آیا وہ یہ ہے کہ استعارہ تشبیہ کی ایک قسم ہے جس میں مشبہ کا ذکر یا تو مفقود ہوتا ہے یا پھر خود میں مشبہ بہ کو تحلیل کر کے رکھتا ہے۔یہ مسلک ہے علامہ سعد الدین تفتازانی کا۔

اس مثال میں مشبہ موجود ہے اور اسے بعینہٖ مشبہ بہ قرار دیا گیا ہے، اسے تشبیہِ مضمر الاداۃ کہا جاتا ہے۔ یہ استعارہ نہیں ہے۔

استعارہ میں اگر مشبہ موجود نہ ہو تو وہ استعارہ بالتصریح کہلاتا ہے، مثلاً دبیر کا مصرع

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

اگر مشبہ بہ ، مشبہ میں ضم ہو گیا ہو تو اسے استعارہ بالکنایہ کہتے ہیں۔ اس صورت میں مشبہ بہ کا ذکر ترک کر دیا جاتا ہے مثلاً

ہوسِ گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پر وبالی نے مجھے

اس شعر میں غالب نے پرندے کا ذکر کیے بغیر اس کا استعارہ اپنے لیے استعمال کیا ہے۔


چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے

یہاں چشمِ خوباں کے لیے ساز کی نوا پردازی مستعار لی گئی ہے۔
حالانکہ درجہ بندی میں مجھے ’’معلوماتی‘‘ کو ٹیگ کرنا تھا یعنی آپ کا مراسلہ معلوماتی ہے مگر میں نے ’’زبردست ‘‘ قراردیا۔کیونکہ ہر وہ تحریر جسے میرے دل نے قبول کرلیا اور میرے ذہن نے اِس کی میرے دل کو داد دی۔۔۔۔ اُس تحریر کا ہر لفظ ہر نقطہ میرے نزدیک بہت ہی زبردست ہے، خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے ، آپ نے تشبیہ کے باب میں ۔۔۔ایک کوزہ لیااور اُس میں دریا اُنڈیل دیاتو۔۔۔ اِسے کمال نہ کہیں۔۔۔۔اور وہ بھی زبردست!
 
Top