بھائی اِس بہانے معلومات کی بہم رسانی کا ایک سلسلہ چل نکلا تھا ، چلنے دیتے۔۔۔۔۔۔۔
بحر الفصاحت میں اس موضوع پر خاطرخواہ بحث کی گئی ہے، بحث بھی کچھ فلسفیانہ نوعیت کی ہے جس سے مبتدی پرہیز ہی کریں تو اچھا ہے۔ بہرحال اس کا ماحصل جو مجھے سمجھ آیا وہ یہ ہے کہ استعارہ تشبیہ کی ایک قسم ہے جس میں مشبہ کا ذکر یا تو مفقود ہوتا ہے یا پھر خود میں مشبہ بہ کو تحلیل کر کے رکھتا ہے۔یہ مسلک ہے علامہ سعد الدین تفتازانی کا۔
"زید شیر ہے" قستعارہ ہے یا تشبیہ؟
اس مثال میں مشبہ موجود ہے اور اسے بعینہٖ مشبہ بہ قرار دیا گیا ہے، اسے تشبیہِ مضمر الاداۃ کہا جاتا ہے۔ یہ استعارہ نہیں ہے۔
استعارہ میں اگر مشبہ موجود نہ ہو تو وہ استعارہ بالتصریح کہلاتا ہے، مثلاً دبیر کا مصرع
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
اگر مشبہ بہ ، مشبہ میں ضم ہو گیا ہو تو اسے استعارہ بالکنایہ کہتے ہیں۔ اس صورت میں مشبہ بہ کا ذکر ترک کر دیا جاتا ہے مثلاً
ہوسِ گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پر وبالی نے مجھے
اس شعر میں غالب نے پرندے کا ذکر کیے بغیر اس کا استعارہ اپنے لیے استعمال کیا ہے۔
چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
یہاں چشمِ خوباں کے لیے ساز کی نوا پردازی مستعار لی گئی ہے۔