تم کبھو میر کو چاہو سو کہ چاہیں ہیں تمہیں
اور ہم لوگ تو سب ان کا ادب کرتے ہیں
شرح:
یہ شعر تعریف و تجزیہ سے مستغنی ہے۔ میر کو "کبھی" چاہنے کا مضمون خود ہی اس قدر پر معنی ہے کہ اگر شعر میں اور کچھ نہ ہوتا تو بھی یہ شعر قابلَ قدر ہوتا۔ "کبھی" بمعنی "ایک بار" فرض کیجئے تو "چاہو" کے دو معنی نکلتے ہیں۔
1۔تمہارے دل میں میر کی محبت پیدا ہو
2۔ تم میر سے اختلاط کرو
"کبھی" بمعنی "کسی وقت" فرض کیجئے تو مفہوم یہ ہوا کہ کسی بھی وقت سہی، لیکن ایک بار میر کو اپنے پاس بلا لو۔ "کبھی" بمعنی "کسی موقعے پر" فرض کیجئے تو معنی ہوئے کہ میر تمہیں عرصے سے چاہتے ہیں۔کبھی وہ دن بھی آ جائے جب تم میر کو چاہنے لگو۔
دوسرے مصرعے میں میر کے خاص رنگ کا روزمرہ زندگی والا ماحول ہے۔ کچھ لوگ ہیں، ممکن ہے وہ خود معشوق صفت لوگ ہوں، لیکن وہ میر سے بے تکلف نہیں ہو سکتے، کیوں کہ وہ میر کا ادب کرتے ہیں۔لیکن یہ بات بھی ہے کہ میر کو بھی ان سے کوئی محبت نہیں، کیوں کہ میر کو تو مخاطب سے عشق ہے ( یعنی اس معشوق سے جس کو مخاطب کر کے یہ کلام کیا گیا۔) لہٰذا اگر متکلم لوگوں کو میر سے محبت ہو بھی ، تو بے فائدہ ہے، کیوں کہ میر تو کسی اور کو چاہتے ہیں۔ ادب کرنے میں یہ نکتہ بھی ہے کہ "چاہنا" جہاں ہو وہاں ادب دیر تک نہیں رہتا۔ جہاں اختلاط شروع ہوا اور معاملاتِ عشق کی بے تکلفی آئی، ادب کی بساط تہ ہوئی۔ ادب کا ذکر اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ " چاہو" میں صرف افلاطونی محبت نہیں ہے۔بلکہ معاملاتِ اختلاط بھی ہیں۔
پھر سوال یہ ہے کہ لوگ میر کا ادب کیوں کرتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہ نہیں میر بہت پیرانہ سال بزرگ یا کوئی خشک مزاج عالم ہیں۔لہٰذا میر کا ادب ان کی عاشقی کے مرتبے کی بنا پر ہے۔ اس لئے یہ بات ظاہر ہے کہ لوگ میر کا ادب ان باتوں کی بنا پر کرتے ہیں عاشقی جن سے عبارت ہے۔مثلا" یہ کہ میر سوز و الم کی انتہائی منزل کو پہنچ گئے ہیں۔ شدید غم ہمیشہ تقدس کا حامل ہوتا ہے اور احترام کا تقاضا کرتا ہے۔ آسکر وائلڈ جیسے شخص نے بھی محسوس کیا کہ جہاں غم ہے وہاں تقدس ہے۔Where there is sorrow, there is holy ground ممکن ہے اس کا یہ خیال والٹر پیٹر سے مستعار رہا ہو جہاں اس نے ڈاونچی کی مونا لیزا کے بارے میں لکھا ہے۔ بہرحال یہ بات مشرق و مغرب میں عرصے سے مانی گئی ہے کہ غم میں تقدس کا رنگ ہوتا ہے اور وہ احترام کا تقاضا کرتا ہے۔
یا پھر میر کا ادب شاید اس وجہ سے لازم ہو کہ ان کی دیوانگی حدِ کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ دیوانوں کو غیر انسانی ، بلکہ الوہی فیضان سے مشرف سمجھنا بھی مشرق و مغرب میں عام بات رہی ہے۔ارسطو نے شعرا میں ایک طرح کی دیوانگی بے وجہ ہی نہیں دریافت کی تھی۔ اور شیکسپیئر نے اپنے ایک کردار کی زبان سے بے مطلب ہی یہ بات نہ کہلائی تھی کہ دیوانہ ، عاشق، اور شاعر تینوں سر تا سر تخیل ہیں، تخیل ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ مائیکل فوکو نے اپنی کتاب میڈ نیس اینڈ سوی لائزیشن میں لکھا ہے کہ دیوانوں کو مقدس سمجھنے کی روایت مغرب میں کم و بیش انیسویں صدی تک قائم رہی۔ فوکو نے اس معاملے پر بحث دوسرے نقطہ نظر سے کی ہے، لیکن یہاں مجھے صرف اس قدر کہنا مقصود ہے کہ دیوانوں ، مجوبوں اور مستغرق فی الخیال لوگوں کی تقدیس بہت مشہور مسئلہ ہے۔
تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ میر سراسر عشق ہیں( پر عشق بھر رہا ہے ایک ایک میری نس میں) ایسے شخص کا ادب لازمی ہے، کیوں کہ عشق کی اپنی روحانیت ہوتی ہے، اور اگر کوئی شخص کمال عشق کے درجے پر فائز ہو تو پھر کیا کہنا ہے۔
اس طرح یہ شعر محض عشقیہ مضمون کا نہیں۔ بلکہ اس میں ایک پورا تصورِ حیات اور لائحہ زیست آ گیا ہے۔ عزیز قیسی کے یہاں یہ مضمون بہت محدود ہو گیا ہے، اس لئے معنی بھی کم ہیں
اک تمہی ہم سے کھنچے ہو ورنہ
چاہنے والوں کو سب چاہتے ہیں