نہیں نہیں ذیشان بھائی اس پر ضرور لکھیئے اور ہمارے علم میں بھی اضافہ فرمائیے
اب آپ نے کہہ دیا ہے تو کچھ نہ کچھ لکھنا ہی پڑے گا۔
حیدر علی نظم طباطبائی خود استاد شاعر تھے۔ ان کی شرح جو کہ غالباً الطاف حسین حالی کے بعد غالب پر لکھی جانی والی دوسری شرح تھی۔ نظم طباطبائی کا انداز اس میں مغرورنہ قسم کا ہے کیونکہ وہ اپنے ایک فیلو کی شاعری پر بات کر رہے ہیں (اس کے برعکس حالی کا انداز بڑا قدر مندانہ ہے کیونکہ حالی غالب کے شاگرد رہے تھے)۔ اور غالب پر اپنی تشریح میں کافی جگہوں پر حملے کئے البتہ کئی ایک جگہوں پر غالب کی بہت تعریف بھی کی۔ یہ تو بات ہو گئی بیک گراونڈ کی۔
اس شعر کو انہوں نے بے معنی کہا اور ساتھ میں یہ بھی لکھا کہ غالب کے منہ پر لوگ کہتے تھے کہ یہ شعر بے معنی ہے۔
پہلا اعتراض تو انہوں نے اس واقعے پر کیا جس کو خود غالب نے اپنے خط میں یوں بیان کیا، "ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے، جیسے مشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا لے جانا۔" ان کا اعتراض اس واقعے کی صحت پر تھا نہ کہ شعرا کے ہاں اس کے استعمال پر۔ کیونکہ "کاغذی پیراہن" کی ترکیب کی انہوں نے خود ہی مثالیں بھی فراہم کیں۔ تو اس لحاظ سے یہ اعتراض بے جا ہے۔ کیونکہ غزل کی اپنی ہی ایک دنیا ہے۔ اس میں کافی ساری چیزیں ایسی بیان کی جاتی ہیں جن کا تاریخ میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ سب سے مشہور کہانی تو شائد لیلہ مجنوں کی ہی ہے جو کہ عرب، ایران و ہندوستان کے تقریباً ہر ایک شاعر ہی نے استعمال کی ہے، لیکن اس واقعے کا تاریخی ثبوت کوئی نہیں ہے۔
دوسرا اعتراض اس بات پر کیا کہ پہلے مصرعے میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس میں فنا فی اللہ کا شوق ظاہر ہو یا پھر ہستی اعتباری سے نفرت ظاہر ہو۔ اس اعتراض میں بھی اتنا وزن نہیں کیونکہ لفظ ”فریادی“ سے یہ معنی آسانی سے اخذ ہوتے ہیں۔
نظم طباطبائی نے اس شعر کو پہلے بے معنی کہا اور پھر اس کے معنی سمجھانا شروع ہو گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو اس شعر کے معنی اخذ کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہوا۔
اب اس شعر کی تشریح کی کوشش (جو شرحیں میں نے پڑھیں ان کا خلاصہ) اور اس شعر کی چند خوبیوں کی طرف اشارہ:
پہلا مصرع کا انداز انشائیہ ہے، ایک طرح سے استفسار ہے لیکن جواب شاعر کو معلوم ہے۔ شاعر نے تجاہل عارفانہ (جب آپ کو جواب معلوم ہو لیکن پھر بھی آپ لاعلمی کا مظاہرہ کریں) کا مظاہرہ کیا ہے (یہ بذاتِ خود ایک طرح کی شوخی ہے) کہ "کس کی تحریر کی شوخی کا یہ نقش فریادی ہے؟" اس وقت ہمارے ذہن مین یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ
1۔ ”کس“ یہاں پر کس کی طرف اشارہ ہے؟ ظاہری بات ہے مصور ہی کی بات ہو رہی ہے کیونکہ ”نقش“، ”تحریر“ ”تصویر“ ”کاغذ“ یہ سب الفاظ اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن یہاں کسی خاص مصور کی بات ہے جو کہ ہر کسی کو معلوم ہے لیکن شاعر شوخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے استفسار کر رہا ہے کہ وہ کون ہے؟ جواب: اس کائنات کا مصور!
2- ”نقش“ یہاں پر کن معنوں میں استعمال ہوا ہے؟ نقش کے بہت سارے معانی ہیں: تصویر، پینٹینگ، پرنٹ، وغیرہ۔ کائنات کے مصور کا نقش ظاہری بات ہے کہ یہی ہستی ہے اور کل مخلوق ہے۔
3- ”فریادی“ کیوں ہے؟ ہر ایک مخلوق فریاد کر رہا ہے اپنے خالق سے جدائی کا۔ ہر ایک کی طلب ہے خالق میں فنا ہو جانا۔ اور جب تک زندہ ہے تو اسی جدائی کا دکھ رہے گا۔ فنا فی اللہ، منصور حلاج، یہ سب غزل کی بنیادی تھیمز ہیں۔
4- ”شوخی“ محبوب کی ایک ادا ہے جس سے وہ چاہنے والے کو زچ کرتا رہتا ہے۔ خالق کی شوخی سے یہاں مراد یہ ہے کہ مخلوق کو خود سے جدا کر کے زچ کرتا رہتا ہے۔ اور اس سے چاہنے والے کی چاہت مزید بڑھتی ہے اگرچہ وہ لاکھ وصل کی تمنا کرے لیکن شوخ محبوب عاشق کو خود سے دور رکھتا ہے۔
5- ”تحریر“ کے معنی ”لکھائی“ بھی ہیں اور اس کے معنی ”آزادی“ کے بھی ہیں۔ اگر لکھائی کے معنوں میں لیں تو تب تو نقش اور تحریر ایک ہی چیز یعنی مخلوق کی طرف اشارہ ہے۔ اور اگر تحریر کے معنی آزادی یا حریت کے ہیں تو تب بھی اس کو طنز کے طور پر لیا جا سکتا ہے کہ کونسی آزادی؟ کہاں کی آزادی؟
دوسرے مصرعے میں یہی کہا ہے کہ ہر تصویر کا پیراہن یا جامہ کاغذی ہے۔ یہ علت یا سبب ہے فریادی ہونے کی۔ یعنی کہ پہلے تو ایک تصویر یا نقش بنایا۔ اور پھر اس کا جامہ بھی کاغذی بنایا۔ یعنی اس کو فریادی بنا دیا، یہ شوخی کی انتہا ہےٖ!!
غالب نے اس شعر کو دیوان کے پہلے شعر کی جگہ دی۔ عام طور پر دیوان کا پہلا شعر حمدیہ ہوتا ہے۔ یہ غالب کی اپنی ایک طرح کی شوخی ہے کہ یہ شعر دیوان کا پہلا شعر رکھا۔
اس کے علاوہ اس کی صوتی خوبیوں کو شمس الرحمٰن فارقی نے اپنی شرح میں بیان کیا ہے۔ یہ اوپر والے لنک پر پڑھ سکتے ہیں (انگریزی میں)
یہ میری معروضات تھیں۔ ان مین کوتاہی کا کافی امکان ہے۔ جہاں کوئی غلطی نظر آئے تو بلا جھجھک اس کی نشاندہی کریں۔