ان دو اشعار کی تشریح فرما کے شکریہ کا موقع دیں۔
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
محمد وارث راحیل فاروق حسان خان
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں
’’اقبال کہتے ہیں کہ میں اﷲ تعالیٰ کا دیدار براہِ راست کرنا چاہتا ہوں مگر چونکہ مادّی آنکھوں سے خدا کو دیکھنا ممکن نہیں اس لیے میںدیدارِ خداوندی سے محروم رہتا ہوں اورعالمِ فراق میں شدتِ جذبات سے فریاد کرنے لگ جاتا ہوں۔ یہ فریاد بلند ہو کر خدا کے حریم یعنی عرش تک جاپہنچتی ہے۔ عرش تک جاتے ہوئے اس فریاد کے راستے میں صفات کے بنائے ہوئے بت آتے ہیں جو فریاد کو عرش تک نہیں جانے دینا چاہتے (یعنی ہم نے خدا کی صفات کے بُت اپنے ذہنوں میں بنا رکھے ہیں یہ صفات کے بُت خدا کی راہِ راست تفہیم میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں) مگر میری خواہش کے نتیجے میں بلند کی جانے والی فریاد میں اتنی شدت ہے کہ وہ صفات کے ان بتوں کو روندتی ہوئی عرش تک پہنچ جاتی ہے، چنانچہ صفات کے بت پریشان ہو کر شور مچانے لگ جاتے ہیں اور کہ اٹھتے ہیں کہ اس شخص سے خدا کی پناہ جو ہمیں راستے سے ہٹا کربراہِ راست عرش تک جاپہنچاہے۔
انسانوں کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ وہ ذاتِ خداوندی کو براہِ راست دیکھ سکیں۔ حضرت موسیٰؑ کا کوہِ طور پر رب اَرنی کہنا بھی اسی خواہش کا اظہار تھا مگر آواز آئی، لن ترانی (تو مجھے نہیں دیکھ سکتا)۔ جب خدا کی تجلّی کا پر تونازل ہوا تو موسیٰؑ بے ہوش ہوگئے۔ گویا مادّی آنکھوں سے خدا کودیکھنا ممکن نہیں۔ اس کے باوجود خدا کو مادی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش ہمیشہ برقرار رہی ہے۔ اس شعر میں بھی اسی خواہش کا اظہار کیا گیاہے۔ مگر اشارۃً یہ بھی کہ دیا گیا ہے کہ اس خواہش میں کامیابی ممکن نہیں۔میں خواہ کتنا ہی شور مچائوں دیدارِ خداوندی میری قسمت میں نہیں، البتہ جن لوگوں نے صفات کے ان بتوں کو خدا سمجھ رکھاہے، ان کے بتکدے میری خواہش کی شدت سے مسمار ہو رہے ہیں، اس لیے وہ خدا سے پناہ مانگنے لگ گئے ہیں۔
اس شعر میں تقریباً وہی بات کہی گئی ہے جو اقبال اپنے اس مشہور شعر میںبہت پہلے کہ چکے تھے:
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
فرق یہ ہے کہ زیرِ نظر شعر میں اتنا اضافہ کیا گیا ہے کہ میری اس خواہش سے اپنے ذہنوں میں صفات کے بتکدے بنانے والے لوگ خواہ مخواہ پریشان ہوگئے ہیں۔‘‘ ص۔ ۵،۶
تجزیہ: غیر معیاری اسلوب، تفہیم عامیانہ اور یک سطحی
تبصرہ: یہ شرح غلط اور سطحی ہے۔ فاضل شارح نے اس انتہائی کامل المعانی شعر کی بنیادی اصطلاحات سے کیا مفاہیم اخذ کیے ہیں!
شوق: خدا کو مادی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش
نوائے شوق: اس خواہش کا اظہار، عالمِ فراق میں شدتِ جذبات سے بلند کی جانے والی فریاد۔
حریمِ ذات: خدا کا عرش، خدا کے رہنے کی جگہ
بت کدۂ صفات: انسانوں کے ذہن میں بنے ہوئے صفاتِ خداوندی کے بت جو خدا کی براہ راست تفہیم میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔
یہ تمام مطالب ڈاکٹر صاحب ہی کے الفاظ میں نقل کیے گئے ہیں۔ ان کی درست شرح یہ ہے:
’نوائے شوق‘
۱: عاشق کی پکار جس سے ہجرکا اٹل دکھ اور وصل کی نہ پوری ہونے والی آرزو یک جا ہوگئی ہو۔
۲: اس عاشق کی فریاد جو:
۱ : ۲ غلبۂ حال کی وجہ سے وصل کا ناممکن ہونا فراموش کردے۔
۲ : ۲ صفات کا پردہ اٹھا کر ذات تک پہنچنے کا آرزومند ہو۔
۳ : ۲ عشق کے ان لامتناہی مطالبات کی تکمیل کے درپے ہو، جن کا ہدف ذاتِ الہیہ ہے،
ماورائے صفات ذات۔
۴ : ۲ ذاتِ عبد کو ذاتِ معبود سے واصل کرنے کا متمنی ہو کہ دونوں کا امتیاز باقی اوربرقرار رہے۔
۳: عاشق کے پورے وجود کا اظہار محبوب کے حضور میں۔
۴: صدائے عشق جس کی رسائی حریمِ ذات تک ہے۔
حریمِ ذات:
لامکاں، ذاتِ الہیہ کا مکان جوجہات سے پاک ہے اور صفات سے ماورا۔
بت کدۂ صفات:
بت کدہ وہ عالم ہے جہاں کثرت نے وحدت، اعتبار نے حقیقت، باطن نے ظاہر، او رصورت نے معنی کی جگہ لے رکھی ہو۔ یعنی جو مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ ہے وہ خود مقصود بن گیا ہو۔
بت کدۂ صفات کامطلب یہ ہے کہ صفات، ذات کی ضروری معرفت اور اس سے عملی وابستگی کا لازمی ذریعہ ہیں مگر مقصودِ حقیقی ذات ہی ہے جو تعین اور ظہورکو قبول نہیں کرتی۔ اس لیے صفات کو ذات کا مظہر یا عین سمجھنا گویا بت پرستی ہی کی ایک قسم ہے جس سے یہ لازم ہوتا ہے کہ چونکہ ذاتِ باری تعالیٰ قادر ہے، سمیع ہے، بصیر ہے، لہٰذا قدرت، سمع اور بصر بھی معبود ہیں۔
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
’’میرے تخیلات اتنے بلند ہیں کہ وہ حوروں اور فرشتوں کو قید کر لیتے ہیں یعنی میں جب چاہتا ہوں اپنے زورِ تخیل سے حوروں اور فرشتوں کو اپنے سامنے کھینچ لاتا ہوں۔ دوسرے مصرعے میں تخیل کی بلندی کی مزید شان یہ دکھائی ہے کہ میرا تخیل خدا کے جلووں کو بھی دیکھ لیتا ہے۔ گویا خدا کی تجلیات میں داخل اندازی کر ڈالتا ہے۔ خدا کی تجلّی کو برداشت کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ خواہ میں مادی آنکھوں سے خدا کی تجلّی کو نہ دیکھ پائوں، تاہم زورِ تخیل سے اس کے جلوے ضرور دیکھ لیتاہوں۔
اقبال کی یہ احتیاط قابلِ داد ہے کہ انھوں نے مادّی آنکھوں سے خدا کو دیکھنے کا دعویٰ کرنے کی بجائے زورِ تخیل سے اس کا جلوہ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘
تجزیہ: غیر موزوں اسلوب، عامیانہ تفہیم، بعض ضروری علوم سے بے توجہی
تبصرہ: اس شعر کو گرفت میں لینے کی کوئی کوشش بارور نہیں ہو سکتی جب تک ’تخیلات‘، ’نگاہ‘ اور ’تجلیات‘ کی اصطلاحات کے معانی پر نظر نہ ہو۔ یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ دو مصرعوں کو دو فقروں میں ڈھال کر شارح فارغ ہو جائے۔ ان اصطلاحات پر توجہ نہ کرنے کی وجہ سے نگاہ کو بھی تخیل کے معنی میں لیا گیاہے۔ ذیل میں ان اصطلاحوں کے معانی درج کیے جا رہے ہیں۔
تخیلات: تخیل کی جمع، غیر محسوس کو محسوس بنانے کا ذہنی عمل۔
نگاہ: وہ نظر جو:
۱۔ حقیقت کا مشاہدہ کرتی ہے۔
۲۔ ظاہر سے گزر کر باطن تک رسائی رکھتی ہے۔
۳۔ غیب کو شہود بنا لیتی ہے، یعنی جو چیزیں مشاہدے کی گرفت سے باہر ہیں انھیں بھی دیکھتی
ہے اور دیکھنے کا یہ عمل تخیٔلی نہیں ہوتا بلکہ واقعی۔
۴۔ کائنات سے خالقِ کائنات تک جا پہنچتی ہے۔ صفات کا پردہ اٹھا کر مشاہدہ ٔذات کی
طالب ہے۔
تجلیات:
۱۔ تجلّی کی جمع۔ جلوہ فرمائی، رونمائی
۲۔ صفاتِ الہیہ کے انوار کا ظہور جو وحدتِ ذاتی کی طرف اشارہ کرے۔
۳۔ شانِ ربوبیت کا اظہار
۴۔ ظہورِ صفات جو بلاواسطۂ مظاہر ہے اور لامتناہی۔
ان معانی تک پہنچنے کے بعد شعر کاضروری مطلب یہ ہوگاکہ عالمِ ملکوت میرے تخیل کی زد میں ہے اور عالمِ الوہیت اپنے مرتبۂ صفات میں میری نگاہ کی رسائی سے بالکل باہر نہیںہے۔ دونوں عالم چونکہ انسان کے لیے غیب ہیں اس لیے ان پر میرا تخیل ہو یا نگاہ، گراں ہے۔ اس سے ان کاغیاب پوری طرح محفوظ نہیں رہتا۔
خواجہ صاحب نے اقبال کو ان کی اس احتیاط پر داددی ہے کہ ’’انھوں نے مادی آنکھوں سے خدا کودیکھنے کا دعویٰ کرنے کی بجائے زورِ تخیل سے اس کا جلوہ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘ اقبال نے خدا کی تجلیات کو دیکھنے کا دعویٰ زورِ تخیل کی بنیادپر نہیں بلکہ چشمِ دل کے حوالے سے کیا ہے اور اس میں بھی یہ نزاکت ملحوظ رکھی ہے کہ یہ دید تجلیات کے کسی جزو کا بھی احاطہ نہیں کرسکتی۔ ’خلل‘ کا کلمہ یہ دلالت بھی رکھتا ہے۔