تشریح درکار ہے

فرقان احمد

محفلین
اس مسلسل غزل کے پہلے شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ میری عشقیہ اور والہانہ پکار سے ذاتِ باری تعالی کی بارگاہ میں شور و تلاطم برپا ہو گیا ہے۔ چونکہ ذاتِ باری تعالی کا مکمل ادراک ممکن نہیں اور اس ذات تک کوئی نہیں پہنچ سکتا اسلئے یہاں "حریم" کا لفظ نہایت موزوں ہے۔ بتکدہُ صفات کی ترکیب کا استعمال اسلئے کیا گیا ہےکہ باری تعالی کے متعلق تصور کرنے کےلئے صفات بتائی گئیں جیسے اللہ علیم ہے، کریم ہے، خالق ہے، مالک ہے، رحیم ہے وغیرہ۔ چونکہ یہ غیر ذات ہیں اس لیئے انکو "بتکدہُ صفات" کہا گیا ہے۔ عاشقِ صادق ان صفات سے کہیں آگے جانا چاہتا ہے اور ان پر اکتفا نہیں کرنا چاہتا۔ وہ ذاتِ الہی کو بےحجاب دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لئے کہتا ہے کہ میری عاشقانہ صداؤں سے حریمِ ذات میں شور برپا ہو گیا ہے، عاشق صفات کے بت توڑے بغیر ذات تک نہیں پہنچ سکتے اس لئے صفات کے بتخانے میں ہنگامہ بپا ہو گیا ہے۔
دوسرا شعر پہلے کا تسلسل معلوم ہوتا ہے کہ حور اور فرشتے اگرچہ غیر مادی ہیں مگر میری ذات جو حریمِ ذات میں شور پیدا کر سکتی ہے تو یہ حور و فرشتے بھی میرے فہم و ادراک سے باہر نہیں ہیں بلکہ یہ بھی میرے تخیل کے اسیر ہیں۔ میری نگاہ تو اس قدر بےباک ہے کہ اس نے اے ذاتِ حقیقی! تیری تجلیات میں خلل پیدا کر دیا ہے تو ان کی اصلیت کا مکمل ادراک بھی میں کر سکتا ہوں۔

نوٹ:

(ماخوذ)

غالباً مولانا غلام رسول مہر کی کتاب سے یہ تشریح اٹھائی گئی ہے! ہم نے نیٹ سے اٹھائی ہے!
 

محمد وارث

لائبریرین
در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے
یزداں بہ کمند آور اے ہمّتِ مردانہ
اقبال
میرے جنون کے بیابان میں جبریل تو ایک ادنٰی سا شکار ہے، اے ہمتِ مردانہ خدا پر کمند ڈال۔
 
در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے
یزداں بہ کمند آور اے ہمّتِ مردانہ
اقبال
میرے جنون کے بیابان میں جبریل تو ایک ادنٰی سا شکار ہے، اے ہمتِ مردانہ خدا پر کمند ڈال۔

افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن

جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن
 

فرقان احمد

محفلین
تجلیات میں خلل پیدا کر دینے سے کیا مراد ہے۔
اس کا جواب تو انٹرنیٹ پر بھی نہیں ہے، اب ہم جیسے کاپی پیسٹر کیا کریں؟ سوائے آئیں بائیں شائیں کے :) اقبال کی ہمت ہے، ہمارے تو پر جلتے ہیں بھیا، کچھ کہتے ہوئے بھی :)
 
اس کا جواب تو انٹرنیٹ پر بھی نہیں ہے، اب ہم جیسے کاپی پیسٹر کیا کریں؟ سوائے آئیں بائیں شائیں کے :) اقبال کی ہمت ہے، ہمارے تو پر جلتے ہیں بھیا، کچھ کہتے ہوئے بھی :)
کوئی بات نہیں پیارے بھائی خوش رہیں۔ آپ نے جو کیا اس کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
سید عاطف علی بھائی آپ کی تو نسبت ہے علامہ سے آپ بھی کچھ ارشاد فرمائیں۔
میں گنگ و بے زباں کیا کہوں حضرت ۔ علامہ صاحب اتنا لکھ گئے ہیں۔ فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر۔۔۔۔۔
ویسے اس نسبت کے انتساب کا رخ علامہ نہیں مرزا کی طرف تھا ۔
 

امان زرگر

محفلین
ان دو اشعار کی تشریح فرما کے شکریہ کا موقع دیں۔

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں

حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں

محمد وارث راحیل فاروق حسان خان
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں

’’اقبال کہتے ہیں کہ میں اﷲ تعالیٰ کا دیدار براہِ راست کرنا چاہتا ہوں مگر چونکہ مادّی آنکھوں سے خدا کو دیکھنا ممکن نہیں اس لیے میںدیدارِ خداوندی سے محروم رہتا ہوں اورعالمِ فراق میں شدتِ جذبات سے فریاد کرنے لگ جاتا ہوں۔ یہ فریاد بلند ہو کر خدا کے حریم یعنی عرش تک جاپہنچتی ہے۔ عرش تک جاتے ہوئے اس فریاد کے راستے میں صفات کے بنائے ہوئے بت آتے ہیں جو فریاد کو عرش تک نہیں جانے دینا چاہتے (یعنی ہم نے خدا کی صفات کے بُت اپنے ذہنوں میں بنا رکھے ہیں یہ صفات کے بُت خدا کی راہِ راست تفہیم میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں) مگر میری خواہش کے نتیجے میں بلند کی جانے والی فریاد میں اتنی شدت ہے کہ وہ صفات کے ان بتوں کو روندتی ہوئی عرش تک پہنچ جاتی ہے، چنانچہ صفات کے بت پریشان ہو کر شور مچانے لگ جاتے ہیں اور کہ اٹھتے ہیں کہ اس شخص سے خدا کی پناہ جو ہمیں راستے سے ہٹا کربراہِ راست عرش تک جاپہنچاہے۔
انسانوں کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے کہ وہ ذاتِ خداوندی کو براہِ راست دیکھ سکیں۔ حضرت موسیٰؑ کا کوہِ طور پر رب اَرنی کہنا بھی اسی خواہش کا اظہار تھا مگر آواز آئی، لن ترانی (تو مجھے نہیں دیکھ سکتا)۔ جب خدا کی تجلّی کا پر تونازل ہوا تو موسیٰؑ بے ہوش ہوگئے۔ گویا مادّی آنکھوں سے خدا کودیکھنا ممکن نہیں۔ اس کے باوجود خدا کو مادی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش ہمیشہ برقرار رہی ہے۔ اس شعر میں بھی اسی خواہش کا اظہار کیا گیاہے۔ مگر اشارۃً یہ بھی کہ دیا گیا ہے کہ اس خواہش میں کامیابی ممکن نہیں۔میں خواہ کتنا ہی شور مچائوں دیدارِ خداوندی میری قسمت میں نہیں، البتہ جن لوگوں نے صفات کے ان بتوں کو خدا سمجھ رکھاہے، ان کے بتکدے میری خواہش کی شدت سے مسمار ہو رہے ہیں، اس لیے وہ خدا سے پناہ مانگنے لگ گئے ہیں۔
اس شعر میں تقریباً وہی بات کہی گئی ہے جو اقبال اپنے اس مشہور شعر میںبہت پہلے کہ چکے تھے:
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
فرق یہ ہے کہ زیرِ نظر شعر میں اتنا اضافہ کیا گیا ہے کہ میری اس خواہش سے اپنے ذہنوں میں صفات کے بتکدے بنانے والے لوگ خواہ مخواہ پریشان ہوگئے ہیں۔‘‘ ص۔ ۵،۶
تجزیہ: غیر معیاری اسلوب، تفہیم عامیانہ اور یک سطحی

تبصرہ: یہ شرح غلط اور سطحی ہے۔ فاضل شارح نے اس انتہائی کامل المعانی شعر کی بنیادی اصطلاحات سے کیا مفاہیم اخذ کیے ہیں!
شوق: خدا کو مادی آنکھوں سے دیکھنے کی خواہش
نوائے شوق: اس خواہش کا اظہار، عالمِ فراق میں شدتِ جذبات سے بلند کی جانے والی فریاد۔
حریمِ ذات: خدا کا عرش، خدا کے رہنے کی جگہ
بت کدۂ صفات: انسانوں کے ذہن میں بنے ہوئے صفاتِ خداوندی کے بت جو خدا کی براہ راست تفہیم میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔
یہ تمام مطالب ڈاکٹر صاحب ہی کے الفاظ میں نقل کیے گئے ہیں۔ ان کی درست شرح یہ ہے:
’نوائے شوق‘
۱: عاشق کی پکار جس سے ہجرکا اٹل دکھ اور وصل کی نہ پوری ہونے والی آرزو یک جا ہوگئی ہو۔
۲: اس عاشق کی فریاد جو:
۱ : ۲ غلبۂ حال کی وجہ سے وصل کا ناممکن ہونا فراموش کردے۔
۲ : ۲ صفات کا پردہ اٹھا کر ذات تک پہنچنے کا آرزومند ہو۔
۳ : ۲ عشق کے ان لامتناہی مطالبات کی تکمیل کے درپے ہو، جن کا ہدف ذاتِ الہیہ ہے،
ماورائے صفات ذات۔
۴ : ۲ ذاتِ عبد کو ذاتِ معبود سے واصل کرنے کا متمنی ہو کہ دونوں کا امتیاز باقی اوربرقرار رہے۔
۳: عاشق کے پورے وجود کا اظہار محبوب کے حضور میں۔
۴: صدائے عشق جس کی رسائی حریمِ ذات تک ہے۔
حریمِ ذات:
لامکاں، ذاتِ الہیہ کا مکان جوجہات سے پاک ہے اور صفات سے ماورا۔
بت کدۂ صفات:
بت کدہ وہ عالم ہے جہاں کثرت نے وحدت، اعتبار نے حقیقت، باطن نے ظاہر، او رصورت نے معنی کی جگہ لے رکھی ہو۔ یعنی جو مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ ہے وہ خود مقصود بن گیا ہو۔
بت کدۂ صفات کامطلب یہ ہے کہ صفات، ذات کی ضروری معرفت اور اس سے عملی وابستگی کا لازمی ذریعہ ہیں مگر مقصودِ حقیقی ذات ہی ہے جو تعین اور ظہورکو قبول نہیں کرتی۔ اس لیے صفات کو ذات کا مظہر یا عین سمجھنا گویا بت پرستی ہی کی ایک قسم ہے جس سے یہ لازم ہوتا ہے کہ چونکہ ذاتِ باری تعالیٰ قادر ہے، سمیع ہے، بصیر ہے، لہٰذا قدرت، سمع اور بصر بھی معبود ہیں۔


حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں

’’میرے تخیلات اتنے بلند ہیں کہ وہ حوروں اور فرشتوں کو قید کر لیتے ہیں یعنی میں جب چاہتا ہوں اپنے زورِ تخیل سے حوروں اور فرشتوں کو اپنے سامنے کھینچ لاتا ہوں۔ دوسرے مصرعے میں تخیل کی بلندی کی مزید شان یہ دکھائی ہے کہ میرا تخیل خدا کے جلووں کو بھی دیکھ لیتا ہے۔ گویا خدا کی تجلیات میں داخل اندازی کر ڈالتا ہے۔ خدا کی تجلّی کو برداشت کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ خواہ میں مادی آنکھوں سے خدا کی تجلّی کو نہ دیکھ پائوں، تاہم زورِ تخیل سے اس کے جلوے ضرور دیکھ لیتاہوں۔
اقبال کی یہ احتیاط قابلِ داد ہے کہ انھوں نے مادّی آنکھوں سے خدا کو دیکھنے کا دعویٰ کرنے کی بجائے زورِ تخیل سے اس کا جلوہ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘
تجزیہ: غیر موزوں اسلوب، عامیانہ تفہیم، بعض ضروری علوم سے بے توجہی

تبصرہ: اس شعر کو گرفت میں لینے کی کوئی کوشش بارور نہیں ہو سکتی جب تک ’تخیلات‘، ’نگاہ‘ اور ’تجلیات‘ کی اصطلاحات کے معانی پر نظر نہ ہو۔ یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ دو مصرعوں کو دو فقروں میں ڈھال کر شارح فارغ ہو جائے۔ ان اصطلاحات پر توجہ نہ کرنے کی وجہ سے نگاہ کو بھی تخیل کے معنی میں لیا گیاہے۔ ذیل میں ان اصطلاحوں کے معانی درج کیے جا رہے ہیں۔
تخیلات: تخیل کی جمع، غیر محسوس کو محسوس بنانے کا ذہنی عمل۔
نگاہ: وہ نظر جو:
۱۔ حقیقت کا مشاہدہ کرتی ہے۔
۲۔ ظاہر سے گزر کر باطن تک رسائی رکھتی ہے۔
۳۔ غیب کو شہود بنا لیتی ہے، یعنی جو چیزیں مشاہدے کی گرفت سے باہر ہیں انھیں بھی دیکھتی
ہے اور دیکھنے کا یہ عمل تخیٔلی نہیں ہوتا بلکہ واقعی۔
۴۔ کائنات سے خالقِ کائنات تک جا پہنچتی ہے۔ صفات کا پردہ اٹھا کر مشاہدہ ٔذات کی
طالب ہے۔
تجلیات:
۱۔ تجلّی کی جمع۔ جلوہ فرمائی، رونمائی
۲۔ صفاتِ الہیہ کے انوار کا ظہور جو وحدتِ ذاتی کی طرف اشارہ کرے۔
۳۔ شانِ ربوبیت کا اظہار
۴۔ ظہورِ صفات جو بلاواسطۂ مظاہر ہے اور لامتناہی۔
ان معانی تک پہنچنے کے بعد شعر کاضروری مطلب یہ ہوگاکہ عالمِ ملکوت میرے تخیل کی زد میں ہے اور عالمِ الوہیت اپنے مرتبۂ صفات میں میری نگاہ کی رسائی سے بالکل باہر نہیںہے۔ دونوں عالم چونکہ انسان کے لیے غیب ہیں اس لیے ان پر میرا تخیل ہو یا نگاہ، گراں ہے۔ اس سے ان کاغیاب پوری طرح محفوظ نہیں رہتا۔
خواجہ صاحب نے اقبال کو ان کی اس احتیاط پر داددی ہے کہ ’’انھوں نے مادی آنکھوں سے خدا کودیکھنے کا دعویٰ کرنے کی بجائے زورِ تخیل سے اس کا جلوہ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘ اقبال نے خدا کی تجلیات کو دیکھنے کا دعویٰ زورِ تخیل کی بنیادپر نہیں بلکہ چشمِ دل کے حوالے سے کیا ہے اور اس میں بھی یہ نزاکت ملحوظ رکھی ہے کہ یہ دید تجلیات کے کسی جزو کا بھی احاطہ نہیں کرسکتی۔ ’خلل‘ کا کلمہ یہ دلالت بھی رکھتا ہے۔
 
آخری تدوین:
بہت شکریہ امان اللہ بھائی!
آپ نے واضح نہیں کیا شرح کس کی ہے اور پھر اس پر تجزیہ اور تبصرہ کس کا ہے؟

یہ تمام مطالب ڈاکٹر صاحب ہی کے الفاظ میں نقل کیے گئے ہیں۔
یہ ڈاکٹر صاحب سے اشارہ کس کی طرف ہے؟
خواجہ صاحب نے اقبال کو ان کی اس احتیاط پر داددی ہے
اور یہ خواجہ صاحب کون ہیں؟
 
تعلی مقصود ہے. شور، غلغلہ، شوق، نوا، حریم اور بتکدہ کی مناسبت واضح ہے. تخیل کا اسیر لاجواب ہے مگر تجلیات میں نگاہ سے خلل سمجھ نہیں آیا. دریائے معانی عقیدت مند بہا سکتے ہیں.
 

امان زرگر

محفلین

امان زرگر

محفلین
تعلی مقصود ہے. شور، غلغلہ، شوق، نوا، حریم اور بتکدہ کی مناسبت واضح ہے. تخیل کا اسیر لاجواب ہے مگر تجلیات میں نگاہ سے خلل سمجھ نہیں آیا. دریائے معانی عقیدت مند بہا سکتے ہیں.
تبصرہ: اس شعر کو گرفت میں لینے کی کوئی کوشش بارور نہیں ہو سکتی جب تک ’تخیلات‘، ’نگاہ‘ اور ’تجلیات‘ کی اصطلاحات کے معانی پر نظر نہ ہو۔ یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ دو مصرعوں کو دو فقروں میں ڈھال کر شارح فارغ ہو جائے۔ ان اصطلاحات پر توجہ نہ کرنے کی وجہ سے نگاہ کو بھی تخیل کے معنی میں لیا گیاہے۔ ذیل میں ان اصطلاحوں کے معانی درج کیے جا رہے ہیں۔​
تخیلات: تخیل کی جمع، غیر محسوس کو محسوس بنانے کا ذہنی عمل۔​
نگاہ: وہ نظر جو:​
۱۔ حقیقت کا مشاہدہ کرتی ہے۔​
۲۔ ظاہر سے گزر کر باطن تک رسائی رکھتی ہے۔​
۳۔ غیب کو شہود بنا لیتی ہے، یعنی جو چیزیں مشاہدے کی گرفت سے باہر ہیں انھیں بھی دیکھتی​
ہے اور دیکھنے کا یہ عمل تخیٔلی نہیں ہوتا بلکہ واقعی۔​
۴۔ کائنات سے خالقِ کائنات تک جا پہنچتی ہے۔ صفات کا پردہ اٹھا کر مشاہدہ ٔذات کی​
طالب ہے۔​
تجلیات:​
۱۔ تجلّی کی جمع۔ جلوہ فرمائی، رونمائی​
۲۔ صفاتِ الہیہ کے انوار کا ظہور جو وحدتِ ذاتی کی طرف اشارہ کرے۔​
۳۔ شانِ ربوبیت کا اظہار​
۴۔ ظہورِ صفات جو بلاواسطۂ مظاہر ہے اور لامتناہی۔​
ان معانی تک پہنچنے کے بعد شعر کاضروری مطلب یہ ہوگاکہ عالمِ ملکوت میرے تخیل کی زد میں ہے اور عالمِ الوہیت اپنے مرتبۂ صفات میں میری نگاہ کی رسائی سے بالکل باہر نہیںہے۔ دونوں عالم چونکہ انسان کے لیے غیب ہیں اس لیے ان پر میرا تخیل ہو یا نگاہ، گراں ہے۔ اس سے ان کاغیاب پوری طرح محفوظ نہیں رہتا۔​
خواجہ صاحب نے اقبال کو ان کی اس احتیاط پر داددی ہے کہ ’’انھوں نے مادی آنکھوں سے خدا کودیکھنے کا دعویٰ کرنے کی بجائے زورِ تخیل سے اس کا جلوہ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘ اقبال نے خدا کی تجلیات کو دیکھنے کا دعویٰ زورِ تخیل کی بنیادپر نہیں بلکہ چشمِ دل کے حوالے سے کیا ہے اور اس میں بھی یہ نزاکت ملحوظ رکھی ہے کہ یہ دید تجلیات کے کسی جزو کا بھی احاطہ نہیں کرسکتی۔ ’خلل‘ کا کلمہ یہ دلالت بھی رکھتا ہے۔​
 

فرقان احمد

محفلین
لیجیے صاحب، احمد جاوید صاحب کی تشریح پڑھیے اور سر دھنیے! کاپی پیسٹر کو داد دینا نہ بھولیے گا :)


حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں


"اس کا مطلب یہ ہوا کہ جمالیاتی شعور بھی شعور کی دیگر قوتوں کی طرح ان حقائق کا متلاشی ہوتا ہے جن کے لیے عقل اور شعور کی دیگر قوتیں سرگرداںرہتی ہیں۔ شعور کی کوئی بھی نوع اپنے منتہا پر پہنچ کر شعور کی دیگر اقسام سے مغائرت کو، غیریت کو،فاصلے کو ختم کر دیتی ہے۔ یہ شعر اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس کا مضمون شعور کی تمام قوتوں کے لیے لائق تسلیم ہے اور شعور کی دیگر قوتیں مثلاً عقل اس شعر پر جب غور کرتی ہے تو وہ اس کے مافیہ کو گویا اپنے سفر کے حاصل کے طور پر قبول کرتی ہے، زادِ راہ کے طور پر نہیں۔ اقبال کا اس غزل میں خصوصاً اور اپنی بڑی شاعری کے دیگر نمونوں میں عموماً یہ ایک خاص وصف ہے کہ وہ جمالیاتی شعور کے حاصلات کو عقلی شعور وغیرہ کے لیے بھی مایۂ ادراک (principal data) بنانے کی قدرت رکھتے ہیں۔
یہاں ایک نکتہ اور دیکھ لیجیے جو اس شعر سے غیر متعلق نہیں ہے۔ اقبال اُردو کی حد تک اس اعتبار سے ایک بالکل منفرد شاعر ہیں کہ اُن کی شاعری سے ہم ایک بہت بڑا اصول دریافت کر سکتے ہیں، ایک ایسا اصول جو جمالیاتی اصول بھی ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ حقائق کی طرف پیش رفت کے لیے جمالیاتی قوتوں کو خود تنزیہی (self-transcendence) کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جس نے نہیں سمجھا وہ اقبال کی شاعری کی اصل قدرو قیمت نہیں جان پائے گا۔ اقبال نے جمالیاتی شعور میں ایک self-transcendence پیدا کرنے کا جو کارنامہ انجام دیا ہے اس کی مثالیں اردو کی شعری روایت میں خال خال ہی ملتی ہیں۔ self-transcendence کہنے سے میرا مطلب ہے کہ جمالیاتی شعور اپنے حاصلات کو اپنی ملکیت سمجھنے کی بجائے انھیں ایک ایسی عطا کے طور پر قبول کرے جو اسے اپنی کاوشوں سے حاصل نہیں ہو سکتے تھے۔ یہ self-transcendence جمالیاتی شعور میں پیدا کر دینا تقریباً ناممکن کاموں میں سے ایک ہے، کیونکہ جمالیاتی شعور میں مالکانہ تصرف بہت ہوتا ہے۔ یہ حقیقت کے بیان اور حقیقت کے ادراک میں بھی کچھ ایسی رنگین آمیزشیں کر لیتا ہے کہ اس حقیقت پر پھر عقل وغیرہ کا کوئی حقِ ملکیت کا دعویٰ نہیں رہ جاتا۔ یعنی جمالیاتی شعور کی اساس شعورِ انفرادیت (sense of individuality) ہے۔ اقبال نے اس جذبۂ انفرادیت کو جمالیاتی شعور کے اندر جا کر اس کی بہترین شرائط کو پورا کرتے ہوئے مغلوب کرکے دکھا دیا۔ اندازہ کیجیے کہ یہ کتنا بڑا کارنامہ ہے!جمالیاتی شعور،انفعال کو قبول بھی کرے گا تو انفعال میں بھی ایک احساسِ ملکیت رہتا ہے کہ یہ جلوہ صرف مجھے نظر آیا ہے، یہ جلوہ عقل کو نظر نہیں آ سکتا۔اقبال نے جمالیاتی شعور کو بلند ترین مناظر سے بھی روشناس کروایا اور پھر یہ بھی باور کروا دیا کہ یہ مناظر تم سے خاص نہیں ہیں یا یہ مناظر تم نے پیدا نہیں کیے۔ جمالیاتی شعور کے دو ہی کام ہیں کہ یا تو وہ منظر کو پیدا کرتا ہے یا ایک بالکل انفرادی زاویے سے منظر کا سامنا کرتا ہے۔ تو اقبال نے کوئی منظر جمالیاتی شعور کی سربراہی میں نہیںبننے دیا،ہر منظر کو جمالیاتی شعور کا منتہا بنا کر پہلے سے موجود دکھایا۔ یوں انھوں نے جمالیاتی شعور کے اس انفعال کے پیچھے کارفرما خوش فہمی کو بھی ختم کر دیا کہ یہ منظر صرف جمالیاتی تسکین کے لیے ہے، یہ منظر صرف جمالیاتی سر شاری اور تکمیل کے لیے ہے۔ اقبال نے بڑے بڑے جمالیاتی مراحل طے کیے اور اس طرح طے کیے کہ اس میں وہ اپنے پڑھنے والے کو اس احساس میں مبتلا ہونے کی اجازت نہیں دیتے کہ یہ ان کی esthetically fulfilling کا وش ہے، اس سے مقصود محض جمالیاتی تسکین ہے۔ وہ جمالیاتی شعور کے سارے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے قاری کو اس بات پر مجبور کر دیتے ہیں کہ اس کا صرف جمالیاتی مصرف نکالنے کی کوشش نہ کرنا۔
اس کا fulfilling ہونا محض جمالیاتی سطح تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک وجودی پھیلائو رکھتا ہے۔ اس کو سمجھے بغیر اقبال کے نظام معانی (meaning structure) کو آپ نہیں سمجھ سکیں گے۔نظام معانی تو دور کی بات ہے آپ اقبال کی تکنیک کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ بھی دیکھیے کہ اس شعر میں شدت کتنی ہے۔ بڑی عمارت کسے کہتے ہیں؟ بڑی عمارت اُسے کہتے ہیں جس میںدو چار اینٹیں اگر غلط بھی لگی ہوں تو اُن کی طرف آپ کی توجہ نہ جائے۔ قلعے کی عمارت میں دو چار دس اینٹیں اگر الگ الگ بے ترتیب بھی لگی ہوں تو آپ کی نگاہ ادھر نہیں جاتی۔ آپ انہیں دیکھ کر بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے لیکن اگر میں آپ کے گھر جا کر دیکھوں کہ دروازہ غلط لگا ہوا ہے تو فوراً پکڑ میں آ جائے گا اور وہ گھر کی خوبصورتی کے بارے میں میرے تاثر کومجروح کر دے گا۔ اس شعر میں ایک فنی غلطی ہے کہ تخیلات اور تجلّیات ٹھیک قوافی نہیں ہیں۔ جمع کے صیغے کو قافیہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ الفاظ مفرد حالت میں بھی قافیہ بن سکیں۔ تخیل اور تجلی ایک دوسرے کے قوافی نہیںہیں۔ اس میں عیب موجود ہے لیکن اس شعر کو پڑھنے والا کوئی بھی شخص یہ عیب جاننے کے باوجود اس کی طرف اوّل تو متوجہ نہیں ہوتا اور اگر متوجہ ہوتا ہے تو اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ تو یہ بڑی تعمیر کی پہچان ہے ورنہ کوئی چھوٹا شاعر یہ غلطی کرتا تو لوگ اس غلطی کو پکڑ کے شعر کو دفن کر دیتے۔
اس میں ’’حور و فرشتہ‘‘ کلیدی الفاظ (stress words) ہیں، ان کے بہت بڑے معنی ہیں۔ آپ ذرا علامت سازی اور تمثیل کی قوت دیکھیے کہ ’’حور و فرشتہ‘‘ کی توخود علامتیں بنتی آئی ہیں، یہ خود symbolize ہوتے آ رہے ہیں۔یہ خود علامتوںکا موضوع ہیں لیکن یہاں ان کو علامت بنا دیا گیا۔ یہ ایک بڑی جست ہے۔ حور و فرشتہ ایک بالاتر سطحِ وجود کا تصور پیدا کرتے ہیں۔ جو بھی سطحِ وجود بالاتر ہو وہ علامت نہیں بنتی بلکہ علامت کا موضوع بنتی ہے۔ علامت کہتے ہیں حاضر کو اس طرح استعمال کرنا کہ غائب کی کچھ presence، کچھ حضوری میسر آ جائے۔ حور و فرشتہ دونوں عالمِ غیب میں ہیں۔ سو غیب کے امور کو مزید غائب در غائب کی علامت بنانا یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ تو ایک تو حور و فرشتہ اس میں مرکزی کلیدی لفظ ہیں۔ اس کے علاوہ تخیلات، نگاہ اور تجلیات۔ ان کو دیکھنے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ یہاں اقبال نے انسان کو وجود یا حقیقت کی تین سطحوں پر مرکز میں جا کر بٹھا دیا۔ وُہ تین سطحیں کیا ہیں؟ حور، عالمِ خُلدیعنی subtle manifestation ۔ فرشتہ، عالمِ ملکوت یا عالم امر جو اس سے اوپر کا عالم ہے۔ حور کا محل و مقام جنت ہے۔ فرشتہ جنت سے اوپر کے عالم میں اپنی موجودگی رکھتا ہے یعنی عالم امر یا عالم ملکوت۔تیسرا عالم ہے عالمِ ذات وصفات، یعنی تجلّیات۔ تجلیات کسے کہتے ہیں؟ presence without mediation حضور بلا واسطہ، درمیانی وسیلے کے بغیر حضورِ حق۔ تجلی کہتے ہیں کسی حقیقت کا ظہور جو مظہر کا پابندنہ ہو، جسے وسائط اور وسائل کی ضرورت نہ ہو، جسے مظاہر کی حاجت نہ ہو یعنی حضورِ محض (pure presence) یا ظہور خالص(pure manifestation) ۔تو تجلّیات کی نسبت حق سے ہے۔فرشتہ حق کا عالمِ امر ہے یعنی domain of commands۔ حور اس کا وہ درجہ ہے جہاں وہ ظاہر ہے، مظاہر میں۔ اب ان تین عالموں، ان تین اقلیموںکے علاوہ ہمارے آپ کے اندر ہستی اور اس کے حقائق کی سطحوں کا کوئی اور تصور نہیں ہو سکتا۔ جنت عالم امر نہیں عالم خلق ہے، ملکوت عالمِ خلق نہیں عالم امر ہے، تجلیات ان سے ماورا ہیں تو عالمِ حق ہیں یعنی حق، امر، خلق۔ اور ان درجوں پہ اقبال نے نثر میں بھی کلام کیا ہے۔ تو تجلیات کا تعلق حق سے ہے، فرشتوں کا تعلق امر سے ہے۔ حور کا تعلق خلق کے درجۂ لطیف (subtle degree) سے ہے اور تینوں میں ایک چیز مشترک ہے: دوام ۔ آپ ذرا غور فرمائیے کہ دنیا کا ذکر نہیں کیا، کیونکہ دنیا دوام کی شرط کو پورا نہیں کر رہی۔ علامہ نے یہ کیا ہے کہ وجود کی یہ تین سطحیں جو دائمی ہیں، ان تین دائمی سطحوں پر ’انسان مرکزی‘ کا سامان کر رہے ہیں۔ عام تصور مرکزیتِ انسانی کا یہ ہے کہ وہ کائنات کا مرکز ہے۔ یہ تو عام تصور ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انھوں نے اس تصور کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ انسانی مرکزیت کا عام اور عامیانہ بیان ہے۔ انسان مرکز ہے ان تین سطحوں کا جن تین سطحوں کو زوال نہیں، جن تین سطحوں کو فنا نہیں ہے۔ یعنی انسان وجود اور حقیقت کے فعل و انفعال میں فعّال وسیلے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس سے بڑھ کر آپ کیا تصور کریںگے کہ جہاں انسان نہیں ہے وہاں کا بھی مرکز ہے۔ یہ تصور کتنا خوبصورت ہے۔ یہ تو ہے اس شعر کا معنی۔ حور و فرشتہ کو ہم نے کھول دیا۔ اب لیجیے تخیلات کو: تخیل کہتے ہیں حقیقت کو صورت بنا سکنے والی ذہنی قوت کو۔ یہ تخیل کی آخری جامع تعریف ہے۔ تو علامہ کہتے ہیں کہ میں کیونکہ خود حقیقت ہوں لہٰذا میرے اندر وہ قوت ہے کہ میں حقائق کو، غائب امور کو، صورت دے سکتا ہوں۔ اب یہ کس سے ظاہر ہے۔ ’حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں‘، یعنی حور و فرشتہ اس طرح ہو نہیں سکتے جو میرے تخیل کے خلاف ہو۔ حور و فرشتہ کو خلق ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ میرے حدودِ تخیل میں رہ سکیں۔یہ کتنی بڑی بات ہے!۔یہاں یہ بھی غور فرمائیے کہ علامہ نے کہا ہے ۔ ’’خلل‘‘ اور یوں حور و فرشتہ اور تجلیات میں فرق مراتب ملحوظ رکھا ہے۔تجلیات کا ادب پوری طرح ملحوظ رکھا ہے، اسیر اور خلل، خلل یہاں اہم لفظ ہے۔وہ کہہ رہے ہیں۔کہ حور و فرشتہ بنے ہی اس لیے ہیں کہ میرے تخیلات کے پابند رہیں۔اگر آپ غور کریں تو پورے نظام خلق میں فرشتوں اور حوروں کا وجود انسان کی ذہنی، روحانی اور وجودی ضروریات کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ حور اور فرشتے کو وہ ہونے کی اجازت نہیں ہے جو میرے تخیل سے باہر ہو۔ جو اندازِ وجود (mode of being) میرے تخیل سے باہر ہے وہ حور اور فرشتے کو اختیار کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ یہ تو بہت ہی بڑی بات ہے۔ عام لوگ تو زیادہ سے زیادہ یہ کہیں گے کہ ہم مسجود ملائک ہیں۔ مطلب یہ عام دہرائی جانے والی باتیں ہیں۔ اگر مرکزیتِ آدم کا یہ مسئلہ آدمی کے لیے ایک روحانی اور وجودی اور انتہائی اہم مسئلہ بن جائے تو پھر وہ اس مرکزیت کو اس طرح بیان کرے گا۔ آپ انسانی مرکزیت کے بہت سے بیانات سے مانوس ہیں لیکن انسانی مرکزیت کے بیان کا یہ درجہ ہمارے تجربے میں نہیں تھا۔
عالمِ جنت ہو یا عالمِ امر ہو، عالمِ جنت یعنی نتائجی دُنیا ہو یا عالمِ امر یعنی اسبابی دُنیا ہو، یہ دونوں انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ دنیا اپنی بنیاد و اساس میں، دُنیا اپنے نتائج میں دونوں اعتبار سے انسان کے لیے بنائی گئی ہے، اوراقبال اس کو اپنی اصطلاح میں تسخیرِ عالم کہتے ہیں۔
تیسرا بہت اہم لفظ ہے ’’نگاہ‘‘۔ نگاہ اور تخیل میں کیا فرق ہے؟ کائنات میرے علمی اور عقلی وجود کی مظروف ہے۔ یہ تخیلات ہو گیا۔ اگر فلسفیانہ زبان میں ہم کہیں تو یوں کہیں گے کہ میرا ذہنی وجودکائنات کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ کائنات، یہ مادی دنیا، یہ ظہورِ لطیف اور یہ غیر مادی اقلیم (non material world) ان تینوں سطحوں پر یہ میرے عقلی اور ذہنی وجود کے احاطے میں ہے۔ میرے ایک عارفانہ اور عاشقانہ وجود میں بھی ہے۔ وہ وجود عالمِ حق میں بھی مرکزیت رکھتا ہے۔ میرا ذہنی وجودعالمِ خلق کا مرکز ہے۔ عالم خلق کی تمام سطحوں کا مرکز ہے۔ یہ میرا عقلی وجود ہے۔ میرا ایک روحانی اور عاشقانہ وجود بھی ہے۔ وہ وجود عالمِ حق میں بھی بہت اہم پوزیشن رکھتا ہے۔ ’’نگاہ‘‘ کیا ہے، نگاہ انسان کے عارفانہ اور عاشقانہ وجود کی وہ قوت ہے جو اس کی مراد و مقاصد، اس کی منازل کو حاصل کرنے کے لیے درکار ہے۔ انسان کے ذہنی وجود کا موضوع و ہدف کائنات ہے، انسان کے روحانی وجود کی منزل اور مقصود خدا ہے۔ ’’نگاہ ‘‘ اقبال کے یہاں اکثر انسان کے روحانی وجود کے آلے کے معنی میں استعمال ہوتی ہے کہ میرے دیکھنے کو اللہ نے اپنے دیکھنے کے لیے بنایا ہے، مجھے نظر اللہ نے اس لیے دی ہے کہ میں اُسے دیکھ سکوں۔مولانا روم کے الفاظ میں :۳۰؎
آدمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
مجھے تخیل اس لیے دیا ہے کہ کائنات میرے احاطے سے باہر نہ نکل پائے۔ تو کہتے ہیں کہ میری مرکزیت اور مُرادِ الٰہی ہونے کا منظر صرف عالمِ خلق ہی میں نظر نہیں آتا بلکہ یہ ناچیز اس طرح بنایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو بلاواسطہ تجلیات ہیں ان میں بھی میرا لحاظ کار فرما ہے۔ اللہ کا اتنا ہی ظہور ہے جتنا انسان کی سمائی اور برداشت میں ہو۔ یہ خلل ہے میری وجہ سے۔ یہ تحدید اللہ نے ڈال دی کہ خود کو پورا ظاہر نہیں کرتا۔ اتنا ظاہر کرتا ہے جتنے کا یہ متحمل ہو سکے۔اب آپ سمجھے کتنی بڑی بات ہے کہ اللہ نے اپنے امر و خلق اور اپنے ظہور میں، سب چیزوں میں، میرا خیال رکھا ہے۔ اللہ نے کوئی ایسی چیز تخلیق نہیں کی جو میری مرکزیت کا انکار کرے، اللہ نے کوئی ایسا امر نہیں دیا جس میں مجھے مخاطب نہ بنایا گیا ہو، جو میری ضرورت سے لا تعلق ہو، حتیٰ کہ اللہ نے اپنا کوئی ایسا اظہار نہیں کیا ہے جو میری برداشت سے زیادہ ہو۔ یہ خلل کہتے ہیں رخنہ اور کمی کو ، کہ اللہ چاہتا تو اپنا پورا اظہار کرتا لیکن پورا اظہار اس لیے نہیں کیا کہ وہ میری برداشت سے باہر تھا۔ اللہ نے اپنا ہر اظہار اس لیے کیا ہے کہ وہ اپنا دیکھنے والا مجھے بنا چکا ہے۔ اس کا دیکھنے والا میرے علاوہ کوئی نہیںہے تو وہ میری وسعت دید میں رہ کر خود کو ظاہر کرتا ہے،میری حدِ ’’نگاہ‘‘ تک ہی ظہور کرتا ہے۔
اب کلیدی الفاظ سے بڑھ کر شعر پر نظر کیجیے۔ بڑی شاعری کے ایک وصف پر کامل اتفاق ہے۔ وہ اتفاق ایسا ہے کہ اگر یہ وصف نہ پایا جائے تو شاعری کا کوئی نمونہ بڑا نہیں کہلائے گا۔ اسے کہتے ہیں شرافتِ معنی (nobility of content) کہ اس کے معنی اتنے مکمل ہوں کہ انھیں اپنے ادراک اور اظہار دونوں کے لیے کسی آرائش کی ضرورت نہ ہو۔ فنی زبان میں اسی کو معنی آفرینی بہ درجہ کمال کہتے ہیں۔معنی اور مضمون کا فرق نظر میں رہے ۔معنی مکمل ہو جائے تو مضمون سے اپنی علیحدگی یا امتیاز کو گوارا نہیں کرتا۔ شعور جب اپنے کسی خیال یا اپنے کسی فہم یا اپنے کسی حاصل کو حتمی ترتیب و تنظیم فراہم کر دے تو وہاں معنی اور مضمون کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں شرافتِ معنی (nobility of content) ۔جن لوگوں نے فکشن، ناول، افسانہ وغیرہ پڑھا ہو یا مذہبی تحریریں ہی پڑھی ہوں انھیں یہ بات معلوم ہے کہ nobility اس شرف کو کہتے ہیں جس میں تقابل نہ پایا جائے یعنی ایسی بڑائی جو تقابل کا نتیجہ نہ ہو۔ تو اگر کسی چیز میں تقابل نہیں پایا جا رہا یا جو تقابل کا نتیجہ نہیں ہے تواس میں کثرت اور امتیاز نہیں پایا جائے گا۔یعنی مضمون اور معنی کا فرق باقی نہیں رہے گا۔ تو شرف معانی کو کسی آرائش کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہی بات ہے جس کو ہم نے پہلے یوں کہا تھا کہ اس پوری غزل میں شاعرانہ پن نہیں ہے لیکن یہ اردو شاعری کی روایت میں بڑی غزلوں میںسے ایک ہے۔ خود اقبال کی غزلوں میں بہت بڑی غزل ہے ۔
اس غزل کا دوسرا وصف ہے universality ۔ایک بلا قید اور بلا شرط ہمہ گیری۔ ایسی کلّی آفاقیت، ادراک اور اظہار دونوں سطحوں پر ایک کامل خالص پن اور purity کے ساتھ ظہور کرتی ہے۔ جس طرح ادراک و اظہار دونوں میں شرف و علو ہو تا ہے، اسی طرح صفا و محضیت بھی ہے۔ یعنی وہ منتہائے معنی جس کو ادراک و اظہار میں آرائش اور تزئین کی ضرورت نہ ہو۔ یہ اس کا دوسرا وصف ہو گا۔ اخلاص یا purity کسے کہتے ہیں؟ اخلاص کہتے ہیں جس کو تزئین اور آرائش کی ضرورت نہ ہو۔ اسی وجہ سے اس میں دوسرا وصف یعنی صفا و اخلاص بھی اپنی شدت اور وسعت کے ساتھ موجود ہے۔ شدت کے ساتھ یوں کہ یہاں ’’میں ‘‘ یعنی انا کو ایک آدرشی، مثالی حیثیت دے کر خود اس اصول پر قدم جمانے کی جدوجہد کی جارہی ہے۔ اسی کو ہم idealization of self یا idealization of ego کَہ رہے ہیں۔ ’’میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں ‘‘، اس مصرع میں اپنی اس حقیقت ذاتیہ پر، ideal ego پر واقعتا، بالفعل قدم جمانے کی شدید ترین کوشش پائی جا رہی ہے۔ یعنی اپنی خودی کے دونوں سروں کو مربوط اور متوازن اور لازم و ملزوم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ خودی کے دو، سرے کیا ہیں جن سے باہر خودی کا کوئی تصور اور کوئی ماحول فرض بھی نہ کیا جا سکے۔ جیسے زمین کا north pole اور south pole سے باہر کوئی وجود نہیں ہے۔ اسے فرض بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح انا کے دو، سرے ہیں۔ ایک اس کا نہائی اور اصلی سرا، اس کی اساس حقیقی ہے۔ ایک اس کی فعلی واقعی صورت ہے۔ اس شعر میں یا اس پوری غزل میں اپنی selfhood کو اس کے اصلی اور واقعی دونوں سروں پر عملاً استعمال کرنے کی شدید جدوجہد نظر آتی ہے۔ اسی کو ہم اس غزل میں وسعت معنی قرار دیتے ہیں، یعنی ایک ایسی وسعت جس میں اضافہ مہمل ہے ۔purity کسے کہتے ہیں؟ جس میں اضافہ محال ہو، یا مضر ہو۔ جس میں کمی محال نہ ہو تو مضر ضرور ہو۔ تو آپ ذرا دیکھیے کہ اس میں دو necessary ends of meaning ہیں۔ وہ کیا ہیں، جن کے باہر خود وجود ہی کا کوئی تصور نہ کیا جا سکے۔جن کے باہر وجود کا تصور اپنے کسی بھی مصداق سے عاری ہو۔ وہ ہے خدا اور انسان، اور بیچ میں کائنات۔ اس شعر میں آپ غور فرمائیں اور اس پوری غزل میں غور فرمائیں کہ یہ دونوں ہی ساتھ ساتھ جڑی حالت میں اظہار پاتے ہیں۔یہ پوری غزل انسان اور خدا کے تعلق کے منتہا کے ادراک اور اس کے اظہار کا عمل ہے جس میں بیچ میں کائنات اس لیے آ جاتی ہے کہ ان دونوں کو ایک دوسرے میں ضم نہ ہونے دے۔ کائنات کی ساری وجودی معنویت یہ ہے کہ خدا اور انسان کا امتیاز برقرار رہے۔ کائنات کی وجودی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ یہ وہ فاصلہ ہے جو خدا اور انسان کو ایک دوسرے میں مدغم نہیں ہونے دے گا۔ اسی وجہ سے خدا اور انسان کی غیریت کے تمام دلائل مبنی بر وجودِ کائنات ہیں۔
اب آپ دیکھیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر اس غزل کی معنی آفرینی کا عمل ایک ترتیب سے سلسلہ وار چل رہا ہے۔ سلسلہ وار چلنے سے ہماری کیا مراد ہے؟ sequence کا، حلقہ وار تسلسل کا لفظ کیوں استعمال کیاجا رہا ہے؟ اس سے تیسرے بڑے وصف کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ بڑی شاعری ، بڑی تخلیق یا بڑی فکر کا تیسرا ہمہ گیر وصف کیا ہے؟ حقائق کی (historicization) !یعنی انھیں واقعی فعلی حیثیت دینا۔ حقائق جو اپنی مطلق ساکن حالت میں شعور میں حاضر ہیں، اُن حقائق میں حرکت کا عمل دکھانا، اُن حقائق کو وقوع پذیری کے پیرائے میں لے آنا۔تاریخ انسانی میں جو بہت سے تقدیری فقرے کہے گئے ہیں (بعض فقرے ایسے ہوتے ہیں جن میں تبدیلی کا کوئی امکان ذہن میں آ جائے تو آدمی کو خود سے نفرت ہو جائے،)اُن میں ہیگل کا ایک فقرہ ہے۔ اس نے کہاکہ سارا مسئلہ یہ ہے کہ How to actualize the real یا How to realize the actual ۔ یعنی realizing the actual اورactualizing the real ۔ یہ پورے انسان اور کائنات اور علم اور عقل اور شعور اور ہر عمل، چاہے وہ کائناتی ہو یا انسانی ہو، ان کا مقصد واحد ہے۔ہیگل کس تناظر (perspective) میں کَہ رہا ہے؟ یہ کہ حقیقت کے ساتھ شعور کے تعلق کا منتہا یہ ہے، یعنی حقیقت تک رسائی کے منتہا پر پہنچا ہوا شعور کیا کرتا ہے؟ یا تو reality کو actualize کرتاہے، اصل کو واقعی میں بدلتا ہے یا actuality کو realize کرتا ہے۔ یہ واقعی کو اصول سے جوڑتا ہے۔ یہ حرفِ آخر ہے، آپ اس پہ جتنا غور کرتے جائیں گے، آپ کو یہ سوچنا بُرا لگے گا کہ میں اس میں کوئی رخنہ یا سقم نکال لوں۔ تو آپ یہ دیکھیں کہ اس پوری غزل میں تخلیقی اور فکری عمل ایک اکائی بن کر کار فرما ہے، یعنی یہ پوری غزل شعور کی مجموعی قوت کو جمالیاتی ذہن کی تحویل میں دے کر حقائق کا بیان کر رہی ہے۔ تو اس غزل کا جو پورا نظام تخلیق ہے اس کو اگر ایک عنوان دینا پڑے تو آپ بلا تکلف ہیگل کا یہ تاریخی فقرہ استعمال کر سکتے ہیں۔ گویا بڑائی کے تین کائناتی اور مشترک اوصاف جو اس غزل کے خواص میں ہیں، اس غزل کی بناوٹ میں ہیں، وہ اس شعر سے بھی ظاہر ہیں۔معنی کی بلندی کا حال آپ نے دیکھ لیاکہ وجود اپنی تین انتہائی اطراف سمیت اس بیان میں آ گیا۔ اس شعر میں وجود کے تین انتہائی اطراف کیا ہیں: خدا، انسان اور کائنات۔ ’’حور و فرشتہ‘‘ یعنی کائنات اپنے منتہا میں ایک ساکن واقعیت ہے جس میں زمان و مکان ہوں لیکن فنا نہ ہو۔ یعنی کائنات کا وجودی نقص فنا ہے۔ کائنات اپنے جس مرحلۂ ہستی پر اس وجودی نقص سے نجات پاتی ہے اس مرحلے کے وہ بنیادی کردار یا عناصر ہیں: ’’حور و فرشتہ‘‘ ، جہاں زمانہ بھی ہے اور مکانیت بھی ہے، کیونکہ کائنات کا ایسا تصور لغو ہے جس میںزمان اور مکان نہ پایا جائے۔ تو عالمِ ملکوت اور عالمِ خُلد میں زمان بھی ہے مکان بھی ہے لیکن زمان اور مکان کا جبری اور آفاقی لازمہ یعنی فنا وہاں نہیں ہے۔
ہم نے کہا کہ اس شعر میں کائنات کو اس کی اپنی اصل پہ رکھ کے اس کے وجودی منتہا پردکھایا گیا ہے۔ اقبال کیونکہ انسان کے بارے میں محض جمالیاتی تصورات نہیں رکھتے یعنی اقبال نے انسان کی حقیقت پر شاعروں کی طرح جمالیاتی نظر سے غور نہیں کیا بلکہ انھوں نے انسان کی حقیقت پر ایک عارفانہ قوت کے ساتھ غور کیا اور اس غور کے نتائج کو جمالیاتی شعور کے لیے بھی قابلِ قبول بنایا۔ اقبال کی شاعری کے تمام بنیادی تصورات پر یہ بات صادق آئے گی۔ تو اقبال کا تصورِ انسان شعور (consciousness) اور وجود (being) کا مجموعہ ہے۔انسان کیا ہے شعور اور ہستی کا حرکی (dynamic) مجموعہ، جو اپنے شعور میں توسیع کے عمل پر بھی قادر ہے اور اپنے وجود میں بلندی کے مراحل طے کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔یہ اقبال کا وہ تصور انسان ہے جو اُن کی شاعری سے الگ ان کی فکرکے دیگر مظاہر میں بھی ملتا ہے۔ یہی فکر یا یہی تصورِ انسان بہت خوبصورتی سے اس شعر میں بیان ہوا ہے۔ یعنی انسانی شعور توسیع پذیر ہے، اور ان دونوں توسیعات میں انسان ایک خودمختار فاعل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی انسان وہ ہستی ہے جس کا شعور اور جس کا وجود توسیع کے کسی بھی اتفاقی مرحلے پر استوار نہیں ہے بلکہ اس کے اندر وجود اور شعور دونوں کی توسیع ارادی ہے، اختیاری ہے۔ جس نے بھی The Reconstruction پڑھی ہو وہ یہ بات جانتا ہے۔ یہاں دیکھیے کہ جو بات شاید The Reconstruction میںاتنی قوت سے نہ آئی ہو وہ اس شعر سے پیدا ہو گئی۔ The Reconstruction میںکیوں نہیں آئی ہو گی؟ اس لیے کہ The Reconstruction میںچیزوںکے بیان میں جمالیاتی قوت کو شریک نہیں کیا گیا۔ یہاں جمالیاتی قوت کے شامل ہو جانے سے اس میں شدت زیادہ پیدا ہو گئی ہے اور اس کوکمالِ اظہار میسر آ گیا۔ شعور کیا ہے اور وجود کیا ہے، خود توسیعی کا یہ عمل دونوں کیسے کر رہے ہیں؟ وجود کی وسعت ہے کائنات۔ ’’حور و فرشتہ‘‘ سے وابستگی رکھنا اور اس کے بعد خُدا سے بھی ایک مؤثر تعلق رکھنا یہ وجود کی وسعت ہے۔ شعور کی وسعت ہے’’تخیل‘‘ اور ’’نگاہ‘‘ کہ یہ شعور تخیل کے نچلے درجے پہ ’’حور و فرشتہ‘‘ کا شکاری ہے اور ’’نگاہ‘‘ کے بلند درجے پہ ’’تجلیات‘‘ میں خلل ڈالنے والا ہے۔ اس زاویہ فکرکو ضرور یاد رکھیے گا جو اس شعر میں طرح طرح کی باتیں آپ کو سجھائے گا۔
وجود ’’نگاہ‘‘ سے ظاہر ہے۔ ’’نگاہ‘‘ سے یوں ظاہر ہے کہ شعور اپنے موضوع میں اگر خلل ڈالے تو شعور نہیں ہے۔ خلل ڈالنا وجودی قوت سے ہے اور ’’حور و فرشتہ‘‘ کو اسیر کرنا شعور کی قوت ہے۔ یہ ’’نگاہ‘‘ وہ نگاہ ہے جس کے بارے میں مولانا نے فرمایا کہ ’’آدمی دید است‘‘۔ مولانا کی اصطلاح میں جو ’’دید‘‘ ہے وہ علامہ کے الفاظ میں ’’نگاہ‘‘ ہے۔
ظاہر ہے اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ شعور کن حقائق کا احاطہ کر سکتا ہے اور کن حقائق کا نہیں کر سکتا ۔ یہ احاطہ نہ کر سکنے کے باوجود ان حقائق پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ہم تفصیل سے ذکر کر چکے ہیں کہ اللہ کے ظہور کا جو پورا سانچا ہے وہ انسان کی استعداد دید کے مطابق ہے اور اُسے نظارے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ظہور کے تمام اسالیب انسان کے شعورِ حق کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بنائے ہوئے ہیں۔ دیکھیں میں پھر ایک بار عرض کرتا ہوں کہ یہ ایک نازک موضوع ہے کہ ’’میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں‘‘۔ علم کلام اور فلسفیانہ تصوف میں یعنی ہمارے علم العقائد اور ہمارے علم الحقائق دونوں میں یہ بات مسلمہ ہے کہ ذاتِ خداوندی اپنی کنہ ذات (Divine Self as such) میں ظہور سے ماورا ہے۔ذات باری تعالیٰ کا جو نظامِ ظہور ہے وہ خود اس کی ذات کا احاطہ نہیں کرتا۔ تجلیات کہتے ہیں نظامِ ظہور کے طریق و انواع کو۔ نظام ظہور کی ایک ساخت اور تعمیر ہے۔ ہر تجلی اس کا عنصرِ تعمیر، جزوِ ترکیبی ہے۔ علامہ یہ کَہ رہے ہیں کہ تیری تجلیات ایسی ہیں جن کو تو نے پابند کر رکھا ہے کہ وہ تیری کل ذات کا اظہار نہیں بنیں گی، تیرا مکمل ظہور نہیں بنیں گی، تو تیرا یہ فیصلہ کہ تیری کل ذات ظاہر نہیں ہو گی تیرا مرتبۂ ذاتیہ، کنہِ ذات (Self as such) ظہور میں نہیں آئے گا،یہ میری ہی وجہ سے تو ہے۔ خلل کے یہ معنی ہیں۔ جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت کے دو اصول بتائے جاتے ہیں جو متکلم بھی مانتے ہیں اور صوفی بھی جانتے ہیں۔ وہ اصول (principles) ہیں تنزیہ اور تشبیہ۔ تنزیہ یعنی transcendence ، تشبیہ یعنی immainence یا incomparability اور similarity ۔ تشبیہ کا انکار بھی کفر ہے، تنز یہ کا انکار بھی کفر ہے۔ یعنی اللہ کے ظہور کا انکار بھی کفر ہے۔ اللہ کے خفا کا انکار بھی کفر ہے۔ جس نے تشبیہ کو مانا اور تنزیہ کو نہ مانا وہ مشرک ہے۔ جس نے صرف تنزیہ کو مانا اور تشبیہ کو نہیں مانا، خُدا اس کا ذہنی تصور ہے، وہ خدا کو موجود فی الخارج نہیں مانتا۔ علامہ یہ کَہ رہے ہیں یا اللہ ! یہ جو اپنی ذات کی معرفت کے دو اصول آپ نے بنائے ہیں یہ آپ نے میرے ہی لیے تو بنائے ہیں۔ یعنی آپ کاظہور میری ایک ضرورت کے لیے ہے اور آپ کا خفا بھی میری دوسری ضرورت کو مکمل کرتا ہے۔ آپ کا ظہور میری عاشقانہ اُمنگ کو پورا کرنے کے لیے ہے اور آپ کا خفا میری عارفانہ استعداد کے لحاظ سے ہے۔ اس کو علامہ نے ’’خلل‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا۔ ’’خلل‘‘ کس چیز کو کہتے ہیں، ایک تو اس میں تاثر ہے وہ میں نے آپ سے عرض کر دیا کہ ’’حور و فرشتہ‘‘ کے مقابلے میں انھوں نے اپنے آپ کو شکاری بنا لیا، ان سے بلند کر دیا۔ دوسری طرف اللہ کے معاملے میں اپنے آپ کو چھوٹا بنایا ’’خلل‘‘ کا لفظ استعمال کرکے۔ فرض کیا میں آپ کے کسی کام میں مخل ہوتا ہوں تو میں آپ سے یہی کہوں گا کہ معاف کیجیے گا آپ کی مصروفیت میں خلل پڑا! تو یہ ادب ہے۔ ’’خلل‘‘ کا لفظ ادب کی رعایت سے ہے۔ ’’خلل‘‘ کا مطلب جو اس شعر میں ہے بہت آسان ہے۔ اس شعر میں ’’خلل‘‘ کا مطلب ہے کہ نفسِ وجود اور اظہارِ وجود ایک جیسا نہ ہو تو یہ ’’خلل‘‘ہے۔’’خلل‘‘ کہتے ہیں کل مافیہ، پورے مشمول کا جزوی ظہور۔ ’’خلل‘‘ کہتے ہیں بوتل پہ ڈاٹ لگانا۔ آپ نے پانی کو نکلنے سے روکا۔ ’’خلل‘‘ روک کو کہتے ہیں۔ ’’خلل‘‘ خرابی کو نہیں کہتے۔ ’’خلل‘‘ کا مطلب ہے رکاوٹ، روک لگا دینا۔ اب آپ دیکھیے کہ کتنے بڑے معنی پیدا ہو گئے۔ یا اللہ آپ کی ذات کا ظہور ممتنع اور محال ہونے کا سبب بھی میں ہوں اور خود اس ظہور کے واقع ہونے کی وجہ بھی میں ہوں۔ آپ ظاہر بھی میرے لیے ہیں، مخفی بھی میرے لیے ہیں۔ کائنات کا کوئی اور مظہر اس طرح کی ضرورتیں رکھتا ہی نہیں ہے۔scheme of conciousness کا مرکز بھی انسان ہےscheme of beingness کا مرکز بھی انسان ہے، اب آپ بتائیے دونوں جہات میں توسیع کی انتہا کرکے نہیں دکھا دی ورنہ یہ سب کَہ دینا تو آسان ہے کہ انسان مرکز کائنات ہے،انسان مقصود کائنات ہے۔ یہ cliche ہیں۔ ان کا کیا مطلب ہے۔ جب میں آپ سے کہوں گا ان کو کھولیے تب پتا چلے گا کہ آپ یہ مانتے ہیں یا رٹا ہوا فقرہ ہے۔ فرض کریں پانچویں جماعت کا ایک بچہ کہتا ہے کہ اللہ خالقِ کائنات ہے اور غزالی کہتے ہیں کہ اللہ خالقِ کائنات ہے۔ لفظوں میں مشترک ہیں لیکن کیا ان کا اس فقرے سے وابستہ فہم بھی مشترک ہو سکتا ہے۔
یہاں خلل کا فاعلِ نحوی انسان ہے، فاعل حقیقی اللہ ہے۔ اس شعر سے یہ ظاہر ہے۔ یہ کوئی تکلف سے نہیں کَہ رہے، کیونکہ تجلیات پہ ’’خلل‘‘ نافذ تھوڑی کیا جا سکتا ہے۔ تجلیات میں تو صاحب تجلی ہی ناپ تول رکھے گا ۔ میرا کیا اثر تجلیات پہ پڑے گا۔ اس کا مطلب ہے ’’خلل‘‘ کا فاعل اللہ ہے۔ اللہ جس نے یہ طے کیا کہ میں جیسا ہوں کسی دوسرے پر ویسا ظاہر نہیں ہوں گا ۔ میرا کل ظہور صرف میرے لیے ہے۔
لیکن یہ جان لینے کا اس شعر کی تفہیم میں کوئی دخل نہیں ہے۔ وہ تو ٹھیک ہے۔ یہ تو اعتقادی بات ہے اورظاہر ہے یہ شعر اس کے خلاف نہیں جا رہا ورنہ جب ہم اس میں ایک مذہبیت پیدا کریں گے تو وہ ایک حدیث سے پیدا ہو سکتی ہے۔ وہ حدیث مبارکہ ہے، اس مفہوم میں یا اس سے ملتے جلتے مفہوم میں کہ اللہ کہتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں، یعنی اللہ کا پورا نظامِ تجلیات، اس کا اسلوبِ ظہور ، خود کو ظاہر کرنے کا انداز، میرے شعور اور میری وجودی ضرورت کی تکمیل کے لیے ہے۔ اور دوسرے یہ کہ شعور اپنے منتہا پر دیکھے ہوئے تک محدود نہیں ہے۔ مکمل شعور وہ ہے جس کے لیے ان دیکھا دیکھے ہوئے سے زیادہ حقیقی ہو۔ علامہ یہ کَہ رہے ہیں کہ تجلی تو دیکھنے کے لیے ہے۔ تو اپنی تجلیوں سے جتنا ماورا ہے وہ ماورائیت اور تیری تنزیہ بھی میرے شعور کو تیری تجلی سے زیادہ سیراب کر رہی ہے۔ جیسے صدیقین یعنی عارفوں کے بھی سب سے بڑے امام حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کا ایک فقرہ ہے کہ جب ادراک اپنے ہی ادراک سے عاجز رہ گیا تو میں نے جانا کہ خدا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ شعور مرتبۂ غیب میں اپنے مسلّمات اخذ کرتا ہے، مرتبۂ حضور میں مسلّمہ نہیں تراشتا۔ یعنی خدا کی معرفت کا سب سے یقینی حال یہ ہے کہ وہ ماورائے معرفت ہے۔ جس نے ماورائے معرفت ہونے کو شعور کا حال بنا لیا وہ عارف ہے۔
شعور نام ہے ایک انفعالِ محض کا، total passivity کا ۔ یہ انفعال جب مکمل ہوتا ہے تو وہ اپنے ہدف کے غیاب پر راضی ہو جاتا ہے۔ اپنے ہدف کے جزوی اظہار اور کلی غیاب پر راضی اور قانع ہو جانا، یہ شعور کا منتہائے عمل ہے۔ یعنی خُدا کے ساتھ میرے شعور کا کیا تعلق ہے۔ میں جزوی اظہار اور کلی غیاب پہ راضی ہوں۔ جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اگر سارے پردے اُٹھا بھی دیے جائیں تو میرے یقین میں اضافہ نہیں ہو گا۔ کیوں نہیں ہو گا کہ میں پہلے ہی سے جزوی ظہور اور کلی غیاب کی اپنے شعور کو پوری طرح سرشار کر دینے والی معرفت رکھتا ہوں۔
اس شعر کا ایک پہلو اور دیکھ لیں جس پر ہم اپنی دانست میں اس شعر کے اوصاف پورے کر لیں گے۔ حقیقت کی بناوٹ اسمائی ہوتی ہے، افعالی نہیں ہوتی۔ حقیقت اسم ہے، فعل نہیں ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے۔ اس شعر میں اسم اور فعل کے فاصلے کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس شعر میں معنی کا مزاجِ حرکت اور اندازِ نمو ایک حلقہ در حلقہ تسلسل کا ہے۔ حلقہ وار تسلسل کا مطلب ہے کہ حقیقت کی اسمائی ساخت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے ایک افعالی تناظر فراہم کیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ حقیقت اسم ہے جیسے اللّٰہ احد حقیقت ہے اور اس کے دونوں اجزا اسماء ہیں۔ اسم کہتے ہیں معنیِ صاف کے ظرف کو، container of crystalized meaning یا container of frozen meaning یعنی منجمد معنی کے ظرف کو۔مطلب ہے کہ یہ حتمی ادراک ہے، last perception ہے۔ جو چیز ادراکِ آخریں ہو گی وہ حقیقت ہے جس کے آگے شعور خود اپنی جستجوئے تحقیق کو روک دیتا ہے یا جس نقطے پہ وہ حقیقت ہے، شعور وہاں اپنی پیش رفت کے عمل کو ختم کر دیتا ہے۔یہ حقیقت مفرد ہو گی، اسمائی ہو گی۔ شعور کا دوسرا کام یہ ہے کہ وہ حقیقت کی اس بلوریں ساخت کو ایک فعلی بہائو دیتا ہے۔ یوں شعور اپنی ذمہ داری سے مکمل طور پر عہدہ برآ ہوگیا کہ اُس نے اپنے مسلّمات کو ایک فعلی بہائو دے دیا، اس نے اپنے معنی و مفہوم کو ایک واقعیت کے عمل سے گزار دیا۔ اب یہ مکمل شعور ہے ۔ اب آپ یہ دیکھیے کہ اس شعر کی بناوٹ فعلی ہے۔ ’’حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں ‘‘ یہ ایک ترتیب و تسلسل (sequence) چل رہا ہے۔جہاں ’’ہے ‘‘ تھا، وہاں ’’ہوگا‘‘ کا صیغہ آ جائے تو پوری بات کی بناوٹ فعلی ہو جاتی ہے۔ یہ اس کا چوتھا وصف ہے۔ فعلی بناوٹ کیوں درکار ہے؟ اس لیے کہ حقیقت ماورائے شعور ہونے کی حالت میں موجبِ یقین بن جاتی ہے، حقیقت ماورائے علم ہونے کی حالت میں لائق تصدیق ہو جاتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے نظامِ تشبیہ اس لیے بنایا ہے کہ اس کا غیبِ مطلق لائقِ تصدیق اور قابل ایمان ہو جائے۔ تشبیہ کیا ہے؟ تشبیہ حقیقت کی فعلی ساخت ہے۔ تنزیہ کیا ہے؟ حقیقت کے مراتبِ ذاتیہ۔ تو اُس تنزیہ اور تشبیہ کے اصول کو اس شعر میں بھی جاری و ساری رکھا گیا ہے۔ اس طرح کی بڑی بڑی باتوں کا فہم اگر نہ بھی میسر آئے تو کم از کم اس سے مناسبت حاصل کرنا چاہیے۔ ہمارا تجربہ ہے کہ ہمیں بہت سی چیزیں ایسی اچھی لگتی ہیں جو ہماری سمجھ میںنہیں آئی ہوئی ہوتیں۔ انسان چیزوں کے ساتھ تعلق میں سمجھ میں آنے کی شرط نہیں رکھتا۔ یہ غیر فطری بات ہے۔ انسان چیزوں کا ایک شکوہ بھی محسوس کرنے کے قابل ہے چاہے اس شکوہ کا تجزیہ نہ کر پائے۔ مجھے کیا معلوم کہ ہمالیہ کس طرح بنا ہو گا، کب وہ سمندر میں دفن تھا اور کس طرح ابھرا ہو گا۔ اس کا معدنیاتی اور ارضیاتی تجزیہ تو میں جانتا ہی نہیں، کچھ بھی نہیں جانتا لیکن ممکن ہے کہ ہمالیہ کی رعنائی اور حسن، اس کا شکوہ مجھ پر ایک ماہر ارضیات سے زیادہ اثر کرتا ہو۔ گویا ہمالیہ سے متاثر ہونا ہمالیہ کو سمجھنے سے کم تر عمل نہیں ہے۔ ہم پر ان شعروں سے جیسے جھر جھری سی آ جائے اور ان کا شکوہ یا ہیبت ہی ہم پہ طاری ہو جائے، چاہے ہم اس کی شرح نہ کر سکیں۔گو ہم اپنی لطیف شعوری ضرورتیں پوری نہ کر سکیں لیکن اپنی بہت سی وجودی ضرورتیں بہر حال پوری کر لیں گے۔ پھر ہمارے وجود میں گراوٹ نہیں پیدا ہو گی۔ چونکہ انسان چیزوں کے ساتھ تعلق میں دو طریق عمل یا دو ذرائع رکھتا ہے۔ ایک فہم کا، understanding کا، دوسرا ذوق کا، چکھنے کا۔بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جس کا فہم اور ذوق یکساں عین یکدگر ہو جائے۔ جس چیز کو پسند کرتا ہے اُسے سمجھتا بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے تو بیس کروڑ میں بیس آدمی بھی نہیں ہوتے تو ہم بجائے اس کے کہ ان بیس آدمیوں میں شامل ہونے کا ایک بلاوجہ کا خبط پال لیں تو کیا اس سے بہتر یہ نہیںہے کہ جو بھلائیاں موجود ہیں انھی کو استعمال کریں۔ جو مواقع فراہم ہیں ان کو برت لیں۔میسر موقع یہ ہے کہ ذوق اگر ہے اور فہم نہیں ہے تو آپ کسی بڑے نقصان میں نہیں پڑے۔ اور اگر فہم ہے اور ذوق نہیں ہے تو آپ دوکوڑی کے آدمی ہیں جس کو کہتے ہیں عالمِ بے عمل۔ تو ہمارے لیے یہ راستہ تو کھلا ہوا ہے کہ یہ جان لیں کہ بات کتنی بڑی کر دی، رونگٹے کھڑے ہو گئے، دل زور سے دھڑکنے لگا، انسان کو ایسا دکھا دیا۔تو بھائی! انسان کو جیسا علامہ نے دکھا دیا ویسا دیکھ لو، سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ تو اس سے کبھی نہ گھبرائیں کہ چیزیں ہماری سمجھ میں نہیں آ رہیں۔ یہ وہم کبھی نہ پالیں کہ بعض چیزوں کو اچھی طرح نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے گویا ہم پر اُن سے تعلق کا ہر روزن بند ہو گیا۔ بالکل نہیں ہوا۔ ایک روزن بند ہے۔ چیزیں اپنی تحسین اور قدر شناسی کا زیادہ تقاضا ذوق سے کرتی ہیں۔ بڑی چیز کبھی اپنے فہم کا تقاضاپہلے قدم پہ نہیں کرتی۔ بڑا موضوع سب سے پہلے یہ تقاضا کرتا ہے کہ میرا ادراک کرو، محسوس کرو، واہ وا کہو، یہ پیدا کر لیں۔ اس کے لیے شاعری بہترین ذریعہ ہے۔ قرآن شریف جن لوگوں پہ اُترا تھا،جو اس کے پہلے مخاطب اور سامع تھے ان کے مقابلے میںبہت سے لوگ امت میں بعد میں پیدا ہوئے جو صحابہؓ سے زیادہ قرآن کی تفسیر کر سکتے تھے۔ آپ کا کیا خیال ہے زمخشری کی طرح صرفی نحوی تفصیلات کوئی صحابی بتا سکتے تھے۔ یا رازی کی طرح فلسفیانہ تاویلات کوئی کر سکتا تھا یا ابو حیان جیسا زبان کا فنی علم کسی کو تھا۔ نہیں، تو فہم میں بعد میں آنے والے بہت آگے بھی ہو سکتے ہیں لیکن وہ ذوق کہاں سے لائیں گے۔ مطلب قرآن ان کے لیے ایک building act تھا، ایک وجودی عمل تھا ذہنی عمل نہیں، فہم کی سرگرمی نہیں تھاکیونکہ وُہ اصحابِ ذوق تھے تو اگر یہ شعر مفہوم اور عملِ ذہنی نہیں بن پا رہا تو چھوڑو جانے دو۔ کسی کو موقع نہیں ملا شاعری پڑھنے کا، موقع نہیں ملا زبان شناسی کا تو کیا ہوا! اس سے وجودی تعلق تو ہو سکتا ہے، ایک عمل وجودی تو اس سے اخذ کر سکتے ہو۔ مفہوم اخذ کرنے کا عمل، پورا نہ ہو اس میں تو آپ معذور ہیں اور آپ کو کوئی تحقیر سے نہیں دیکھ سکتا لیکن اگر وجودی تعلق ہی ناقص ہو تو اس میں آپ کو کون معذور مانے گا۔آپ دیکھیں نا کوئی کہتا ہے کہ آخری گنتی کیا ہے، چلو سنکھ ہی لے لیتے ہیں۔ اب مجھ سے کوئی کہے کہ ایک سنکھ پیڑ لگے ہوئے ہیں ایک سیارے پر یا ایک سنکھ موتیوں سے بھرا ہوا سمندر۔ اب مجھے سنکھ کا کچھ نہیںمعلوم کہ یہ کتنے کھرب ہوا ہے۔ نہ کوئی تصور ہے، نہ کوئی اس کا مصداق ہے، کچھ بھی تو نہیں ہے نا میرے پاس، لیکن یہ سنکھ کا لفظ کہ ایک سنکھ موتی !! یہ ذوق ہے اور یہ یاد رکھیے گا۔ اس آدمی کے آدمی ہونے میں نقص ہے جس میں نامعلومیت شوق کو مہمیز نہ کرے۔ چیزیں نامعلوم ہونے کی حالت میں زیادہ پرکشش نہ ہوں تو آپ کے آدمی ہونے پہ شبہ ہے۔ یہ ذوق ہے۔ حافظ کا شعر ہے آپ کو سُنا رہا ہوں۔اس کو ہم کیا سمجھا لیں گے، سراسر تکیہ اور انحصار ذوق پہ کرنا پڑتا ہے:۳۱؎
گر بادِ فتنہ ہر دو جہاں را بہم زند
ماو چراغِ چشم و رہِ انتظارِ دوست
اگر فتنے کی آندھی دونوں جہانوں کو اُلٹ پلٹ کر دے۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک آندھی چلی جس نے زمین و آسمان کو تلپٹ کر دیا، اب ایک سپاٹ میدان پڑا ہے، عدم کامیدان ، اس میں دیکھیں کیا ہو رہا ہے۔اس میدان میں بس ہم ہیں، ہماری آنکھوں کے چراغ ہیں اور دوست کے انتظار کا راستہ۔ اب اس میں وہ بد ذوق آدمی ہے جو پوچھے کہ شاعر کہنا کیا چاہ رہا ہے۔ اتنی لمبی ’’رہِ انتظار‘‘ کسی نے پینٹ نہیں کی ہو گی۔
تخیل کہتے ہیں دیکھی ہوئی صورت کو ان دیکھی صورت پر منطبق کرنا۔ ’’نگاہ‘‘ کہتے ہیں دیکھی ہوئی چیزوں سے مدد لیے بغیر غیب سے شعور اور وجود کے تعلق کے تمام تقاضے پورے کر دینے والی قوت۔ بس یہ یاد رکھیے گا اس شعر کے یہ دو بہت اہم لفظ ہیں۔ تخیل کا میدان تشبیہ ہے، عالمِ تشبیہ، اور نگاہ کا میدان عالمِ تنزیہ ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
اور ہاں، یہ رہی پہلے شعر کی تشریح ۔۔۔


میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بت کدۂ صفات میں


یہ ایک بہت مشکل اور انتہائی بڑے معانی والی غزل ہے۔ انسانوں نے پورے تاریخِ شعور میں معانی اور حقائق کی جو درجہ بندیاں کی ہیں اور جس پر منکر اور قائل دونوں کا اتفاق ہے ان تمام مدارج کو اس غزل میں سمیٹا گیا ہے، اسی کو ہم تقدیری معانی کہتے ہیں۔ اس پانچ شعر کی غزل میں وہ تمام تقدیری معانی آگئے ہیں تو ذرا محتاط ہوکر غور سے اور مشکلات کے لیے تیار ہوکے اس کو شروع کرنا چاہیے۔پہلے اس کے لفظوں کا تجزیہ کردیا جائے۔
نوائے شوق: نوائے شوق کا مطلب ہے شوق کا اظہار۔
پہلے اس اصطلاح کو ہم متفرق انداز میں بیان کرتے ہیں پھر ان اجزا کو ملا کر دیکھیں گے۔
شوق: یہاں شوق کا مطلب ہے کہ طلب لازم ہے اور حصول ناممکن۔ ان دونوں کے یکجا حصول، ان کے تحقق، ان کے مجموعے کا نام شوق ہے۔جلنا ضروری ہے، آگ کو حاصل کرنا ناممکن ہے۔ ذرا اس پر پہنچا کے تو دیکھیں خود کو۔ جلے بغیر چارہ نہیں ہے پر آگ کبھی نہیں ملے گی۔ یہ جو کیفیت ہے میرے اندر وہ شوق ہے۔ یہ اس کا ابتدائی مفہوم ہے۔ شوق ، عشق کا وہ جذبہ ہے جس میں ہجر اٹل ہے اور وصل کی طلب پورا اندوختۂ وجود ہے۔ ہجر کا اٹل ہونا اندوختۂ شعور ہے اور وصل کی طلب اندوختۂ وجود ہے۔ یہ شوق ہے۔ ان دو متناقض اجزا کو جمع کرکے دیکھیے۔ میرے شعور کی کل پونجی یہ ہے کہ وصل ناممکن ہے، محبوب کا وصل ناممکن ہے۔ میرے وجود کی کل متاع، سارا نظام یہ ہے کہ وصل ہونا چاہیے۔ مَیں وصل کی طلب سے بنا ہوں اور میرا شعور ہجر کے اٹل ہونے کے یقین پر کھڑا ہے۔ یہ ہجڑ ٹل نہیں سکتا، یہ مَیں جانتا ہوں، لیکن مَیں بنا اس طرح سے ہوں کہ وصل کی طلب ہی مجھے بٹھاتی ہے اور چلاتی ہے اور لٹاتی ہے، اس کو کہیں گے شوق۔
ایک اور بات یہاں عرض کردیں۔ کمال کی تعریف یہ ہے کہ اس کو زوال کا سامنا نہ ہو۔ کمال وہ ہو ہی نہیں سکتا جس کے لیے زوال کا اندیشہ بھی کیا جاسکے۔ شوق، عشق کا کمال ہے اور اس کے ازالے کی کوئی صورت فرض بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہ اسی طرح باقی رہے گا، اسی طرح مؤثر اور فعال رہے گا۔ اگر وصل مل جائے گا تو شوق ختم ہوجائے گا۔ شوق کو اس زوال کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، شوق اپنے آپ کو برقرار رکھے گا۔ تناقض کی اس صورتِ حال میں ہجر اٹل، وصل مطلوب۔
حریمِ ذات: حریم اس حدِ وجود کو کہتے ہیں جہاں غیر کا گذر نہ ہو، حریم وہ چار دیواری ہے جہاں صرف مالکِ مکان رہ سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ حریم وہ چاردیواری ہے جہاں مالکِ مکان کے غیر کا گزر نہیں ہوسکتا۔ حریم وہ حدِ وجود ہے جہاں ذات کے علاوہ کسی کی سمائی نہیں ہے۔ حریم وہ مرتبۂ ہستی ہے جہاں ذات ہی رہ سکتی ہے، ذات سے غیریت یا اپنائیت کا تعلق رکھنے والی کوئی بھی چیز وہاں نہیں ہوسکتی۔ ذرا اوپر اُٹھ کے کہیں تو حریم وہ منتہائے ذات ہے جہاں گنتی بے معنی ہے، جہاں تعداد باطل ہے، اس بات کو ذرا غور سے دیکھیں کہ حریم واحدِ محض کا گھر ہے۔ اس ذات کا گھر ہے جو واحدِ محض ہے جہاں آپ یہ نہ کَہ سکیں کہ یہ صفت اور وہ صفت ، جہاں کسی بھی طرح کی گنتی نہ کی جاسکے، جہاں کسی بھی گنتی کا مصداق نہ ہو، موجود نہ ہو۔ جیسے مَیں ایک ہوں اپنی حد میں، میرے اندر گنتی کے پچاس مصداق موجود ہیں، آنکھیں دو ہیں، پائوں دو ہیں، ہاتھ دو ہیں، دو دو کہنا میرے اندر ممکن ہوگیا لیکن حریم وہ سطح ہے جہاں ذات کا تجزیہ نہ کیا جاسکے۔ جہاں ذات اپنی وحدت میں خالص اور صاف، منزہ ہو، جہاں ذات یکتا، بے ہمتا اور واحد ہو اور اس کا تجزیہ نہ کیا جاسکے، حریم وہ ہے جس میں جانا بھی منع، جس سے نکلنا بھی منع۔ تنزیہ ِ محض، جسے نہ کوئی جاکر متاثر کرسکتا ہے نہ اس کو اپنے کسی ظہور سے کوئی فرق پڑتا ہے۔ یہ چار درجے ہیں حریم کے یا حریم ذات کے۔ اس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ حریم گویا ذات کا وہ مکان ہے جہاں اس کی صفات اور صفات کے ساتھ اس کی نسبتیں بھی موجود نہیں ہیں۔ کسی بھی ذات کا تجزیہ کرتے چلے جائیں کہ یہ چلنے والا ہے، یہ بولنے والا ہے، یہ پڑھنے والا ہے، یہ دیکھنے والا ہے، یہ سننے والا ہے، یہ جسم والا ہے، یہ سر والاہے، یہ کرتے چلے جائیں اور ان سب کو منہا کرتے چلے جائیں، دیکھنا، سننا، جاننا سب میرے اندر سے آپ منہا کرتے چلے جائیں تو ان سب اوصاف کے خارج ہوجانے سے مَیں غائب نہیں ہوجائوں گا۔ یہ سب اوصاف خارج ہوجائیں گے تو بھی مَیں باقی رہوں گا۔ تو ذات کا یہ معاملہ ہے کہ ذات سے تمام اوصاف اگر دور ہوجائیں تو اس کا ذات ہونا اتنے ہی یقین کے ساتھ ثابت ہے جتنے یقین کے ساتھ صفات کی موجودگی میں ثابت ہے۔ حریم کہتے ہیں ذات کا وہ مرتبہ جہاں وہ اپنی صفات سے بھی ماورا ہے۔
غلغلہ ہائے الاماں: یعنی بچائو بچائو کا شور بتکدۂ صفات میں۔ ذات کے لیے حریم کا لفظ استعمال کرکے یہ بتا دیا کہ یہاں گنتی محال ہے اور صفات کے لیے بتکدہ کَہ کے یہ بتا دیا کہ یہاں کا قانون کثرت ہے۔ حریم کا قانون وحدت ہے، بتکدے کا قانون کثرت ہے۔ بتکدے کا ایک اور مطلب بھی ہے اور وہ یہ کہ یہ علامتیں، نشانیاں اور اشارے ہیں۔ یہ اپنے سے اوپر اشارہ کریں تو یہ صحیح ہیں لیکن اگر یہ خود اشارے کا ہدف بن جائیں تو باطل ہیں۔ علامت خود معلوم بن جائے تو باطل ہے، علامت علم فراہم کرنے والا اشارہ اور نشانی بنی رہے تو ٹھیک ہے۔ تو بتکدے میں یہ دونوں رعایتیں ہیں کہ بت اگر اشارات کی طرح ہیں تو ٹھیک ہیں اور بت اگر اہداف کی طرح ہیں تو باطل ہیں۔ یہ بت راستے میں لگے ہوئے نشانات اور اشاروں کی طرح ہیں تو ٹھیک ہیں لیکن بت اگر منزل کے نشان کی طرح ہیں تو غلط ہیں۔ جیسے غالب نے کہا۔۱۲؎
ہے پرے حدِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں
اور محمودشبستری کا شعر ہے :۳ ۱؎
مسلماں گر بدانستے کہ بت چیست
بدانستے کہ دیں در بت پرستی است
تو اَب صفات دونوں معنوں میں بت کدہ ہیں۔ مثبت معنی میں اس طرح سے ہیں کہ یہ کثیر ہونے کی حالت میں ذاتِ واحد کی طرف اشارہ کرتی ہیںاور منفی معنی میں یہ کہ یہ ذات کا بدل بن جاتی ہیں یعنی کسی آدمی کے لیے یہ ذات کا بدل بن جائیں تو منفی ہیں، دوسرے آدمی کے لیے ذات کی طرف اشارات بن جائیں تو مثبت ہیں۔ دونوں طرح سے بت کدے کو استعمال کیا گیا ہے اور یہاں یہ یاد رکھا جائے کہ بت کدہ یہاں منفی معنوں میں نہیں استعمال ہوا ہے، منفی اور مثبت دونوں جہتوں سے استعمال ہوا ہے۔ مطلب آپ یہاں بتکدۂ صفات اگر تحقیر کے ساتھ پڑھیں گے تو وہ تحقیر منشائے شعر نہیں ہے۔ اس کو آپ بلاترجیح سادہ طریقے سے پڑھیں تو وہ مثبت بھی ہوسکتا ہے منفی بھی ہوسکتا ہے۔ تو بتکدہ منفی معنوں میں کیا ہے؟ اسے یوں سمجھیے کہ سمع و بصر اللہ کی صفات ہیں۔ ہم یہ مانتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ میرا مبعود ہے لیکن ہم یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ سمع و بصر میرے معبود ہیں ۔ صفات کی یہ حیثیت ہے۔ سمع وبصر نہ مانا تو اللہ کو نہ مانا اور سمع وبصر کو غلط طریقے سے مانا تو بھی اللہ کو نہ مانا۔۱۴؎
یہاں یہ نکات ہم حریمِ ذات کی نسبت سے عرض کررہے ہیں کہ میرا عشق اتنا کامل اور اتنی رسائی والا اور اتنا سچا ہے کہ محبوب اپنی تنزیہ میں خلل پڑتے ہوئے محسوس کررہا ہے، یعنی میرا عشق اتنا سچا ہے کہ محبوب نے وصل کے ناممکن ہونے کا جو قانون بنایا ہے، اُس پر نظرثانی کا کچھ ارادہ سا اُسے ہونے لگتا ہے، ’’میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں‘‘۔ تو علامہ یہ کَہ رہے ہیں کہ میری نوائے شوق نے حریمِ ذات میں ایک شور برپا کردیا ہے یعنی میری نوائے شوق کی رسائی وہاں تک ہے جہاں تک صفات کی رسائی نہیں ہے کیونکہ میرے شوق کی ساری یکسوئی ذات کی طرف ہے اور اس یکسوئی میں ایسی شدت ہے کہ بتکدۂ صفات یعنی صفات کے دائرے میں ایک ایسا شور ہے کہ یہ کہیں ذات کا دائرہ نہ توڑ دے جس کی وجہ سے ہمارا جداگانہ تشخص برقرار نہ رہ سکے۔۱۵؎ یعنی صفات کا مفادیہ ہے کہ ذات سے ممتاز ہو کر اُن کا تشخص برقرار ہے۔ اب اس میں ایک زیریں رو چلتے ہوئے دیکھیے کہ یہ اسی ذہن سے نکلی ہوئی باتیں ہیں جس کے اندر وجودی کمال کا مطلب انفرادیت اور امتیاز ہے۔ آپ نے دیکھا کہ صفات میں بھی وہ جذبہ داخل کر دیا کہ صفات کو یہ ڈر لاحق ہوگیا کہ ہمارا امتیاز اس کی وجہ سے فنا نہ ہوجائے، کیونکہ ذات کا دائرہ ٹوٹے گا تو ہمارا امتیاز باقی نہیں رہے گا۔
شور، نوا، غلغلہ، یہ ایک ہی خاندان کے الفاظ ہیں اور مختلف المعنی ہیں۔ نوا کو شوق سے نسبت دے دی۔ آواز کے خاندان میں بننے والے جتنے الفاظ ہیں ان میں شور کا لفظ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں جسمانیت کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ شور خاموشی کا تموج بھی ہوسکتا ہے، یہ شور بہت باطنی اور بہت داخلی بھی ہوسکتا ہے۔ ’’نوا‘‘ کے لیے بھی ایک آدمی کافی ہے، شور کے لیے ایک ظرف مکانی بہت ہے، غلغلے کے لیے کئی لوگ چاہییں۔ یہ تعددِ صفات کا کنایہ ہے۔ شاعر کی کاریگری دیکھیں۔ میری نوا مجھ سے نکل کے ذات میں شور بن گئی ہے، یہ بہت بامعنی ہے، اس میں بہت باتیں ہیں۔ فی الحال اتنا جان لینا شاید مفید ہو کہ شور کا غل ہونا ضروری نہیں ہے، شور کا سنائی دینا ضروری نہیں۔ شور میں ایک سرّیت پائی جاتی ہے جو غلغلے اور نوا اور صدا اور ندا جتنے بھی الفاظ ہیں ان میں نہیں پائی جاتی۔ ذات کی حرکت حبّی ہے۱۶؎ ہماری حرکت عشقی ہے تو وہ حرکتِ حبی جس کی وجہ سے عشق اور کائنات اور انسان سب پیدا ہوئے ہیں وہ حرکتِ حبی کو پھر جیسے ارتعاش پیدا ہوا ہو میری نوائے عشق سے۔ اس میں ایک عجیب نکتہ ہے۔ وہ حرکت واحد حرکت ہے جو ذات میں ہوئی۔ تو ذات میں جس حرکت نے اس کائنات اور عشق وغیرہ کو پیدا کیا ہے، وہ حرکت خود کو، ذات کو ظاہر کرنے پہ مائل ہوگئی۔ یہ شور پیدا ہوگیا حریمِ ذات میں۔ ذات نے یہ فیصلہ کرلیا کہ مَیں صرف صفات کے آثار سے ظاہر ہوں، لیکن میری نوائے شوق سے ذات کے اندر یہ بھی تقاضا پیدا ہوگیا کہ چلو اس پہ تو خود کو ظاہر کرہی دوں۔ مطلب شور کے لفظ میں یہ رعایتیں ہیں، ہم اس سے معنی نہیں بنا رہے، رعایتیں نکال رہے ہیں۔
آئیے اب اس غزل کے مطلع پر اس کے بنیادی مضمون اور مرکزی خیال کے اعتبار سے غور کریں۔ اس شعر میں اقبال نے ’’وجود‘‘ کو انسان اور خدا کے حوالے سے اور اس کی انتہا اور کلیت میں بیان کیا ہے، اس کی تعریف معین کی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسانی شعور کی تمام سرگرمیاں، اس کے تمام حاصلات، اس کا اپنے اہداف اور موضوعات سے تعلق، سب کا کلّی مزاج دراصل ایک سوال کے جواب کو حاصل کرنے کی کاوش ہے۔ اور وہ ہے ’’وجود کیا ہے؟‘‘ ہم جس چیز کو بھی جانتے ہیں یا جس چیز کو بھی جاننا چاہتے ہیں وہ دراصل اس سوال کے جواب کے دبائو سے پیدا ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے علم کی کوئی ایک حالت، کوئی ایک صورت ایسی نہیں ہے جو اس سوال سے غیر متعلق تو کجا، اس سوال سے بننے والے دائرے سے باہر بھی ہو۔ ہماری تمام معلومات چاہے وہ تعقل، تخیل، تفکر اور تصور کی ذہنی قبیل سے ہوں، یا احساسات، جذبات وغیرہ کی حسی نوع سے ہوں، ایک ایک چیز، ’وجود کیا ہے‘ کے سوال سے عہدہ برآ ہونے کا ایک نیا زاویہ ہے۔ یہ ایک اہم معاملہ ہے۔ جس سوال سے پیدا ہونے والے مزاج پر شعور کی تشکیل اور تخلیق ہوئی ہے اس سوال کو اقبال نے اپنی کتاب کے آغاز ہی میں اپنا اصل فکری تناظر بنا دیا ہے۔ یہ نہیں ہوا کہ اس سوال کے کسی مطابقِ حال جز پر کام کیا ہو بلکہ اس سوال میں جو کلیت اور جو منتہائیت چھپی ہوئی ہے اُس کلیت اور اس منتہائیت کو اس کے پورے زور کے ساتھ اپنے قول کے آغاز ہی میں بیان کردیا۔ تو یہ مطلع اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس مطلع میں اقبال نے اس خلقی اور تقدیری سوال کی وسعت اور اس سوال میں پوشیدہ تمام ذہنی، حسی، رُوحانی، اخلاقیبلکہ وجودی امکانات کو جمع کردیا ہے۔ آپ اس سے برتر سطحِ کلام کا ،اس سے بڑے بیان کا ، اس سے بڑے ادراک کا تصور نہیں کرسکتے جس میں یہ سوال اپنے تمام اجزا، اپنے تمام گوشوں، اپنے تمام زاویوں سمیت سما جائے۔ اس سے بڑھ کر ہم کوئی علمی دائرہ نہیں بنا سکتے۔ تو یہ غزل بالخصوص اس سوال کا احاطہ کر لینے والا ایک جہان معنی تشکیل دیتی ہے۔ وہ پورا جہان اس غزل میں مکمل ہوجاتا ہے۔ اس کے پہلے شعر میں وجود اپنی اعلیٰ، ارفع اور اُصولی جہت رکھتا ہے، پہلے شعر میں اُس سطح کو چھو کر دکھایا گیا ہے۔ وجود کی اعلیٰ اور ارفع اور کلی اور اصلی جہت ہم کسے کَہ رہے ہیں ؟ جس سے خدا اور انسان دونوں کی تعریف متعین ہوجائے۔ اساس و ماہیت کی تعیین و تعریف میں تبدیلی کے بغیر۔ جس طرح سورج کی روشنی اور چراغ کی روشنی کا مادۂ تعریف ایک ہے اور ایک ہونا چاہیے، اُن میں امتیاز سورج اور شمع ہونے کی جہت سے پیدا ہوگا، روشن ہونے کے اعتبار سے امتیاز نہیں پیدا ہوگا۔ اگر آپ کا مقصود ہے روشنی کا بیان، اس کی تعریف معین کرنا تو وہ روشنی کہیں سے بھی برآمد ہورہی ہو، اس کی تعریف ایک ہوگی۔ مراد یہ کہ وجود اپنی ارفع اور اپنی اُصولی جہت سے موجودات کے فرق سے متاثر نہیں ہوتا۔ ’’موجود‘‘ کو define کرنا، اس کی تعریف متعین کرنا الگ بات ہے، ’’وجود‘‘ کی تعریف معین کرنا ایک علیحدہ چیز ہے۔ آپ سمجھ لیں کہ اس مطلع کا مضمون یہ ہے کہ اس میں وجود کو اپنی منتہائی حالت میں بیان کیا جارہا ہے، خدا اور بندے کے تناظر میں۔ یہ وجود کی اعلیٰ اور ارفع جہت ہے۔ اسی وجود کی ایک ادنیٰ جہت ہے، وہ ہے کائنات۔ اگلے کسی مقام پر کائنات بھی وجود کی نسبت سے احاطۂ تعریف میں آجائے گی۔ یہ غزل ایک ایسے بیانیے کی تخلیق سے عبارت ہے جس میں وجود اپنی تمام نسبتوں، اپنی تمام اصالتوں کے ساتھ شناخت ہوسکے، ادراک میں آجائے۔ اس کی تعریف مقرر ہوجائے۔ وجود کے احاطۂ تعریف میں آجانے سے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔ بہت سے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ موجودات کی ماہیت، ان کے نظم باہم، تاثیر و تاثر اور اُن کے درمیان تعلق کی اعلیٰ سطحوں کی فہم کی بیداری کا عمل شروع ہوگا۔ یہ ایک بہت سرسری اور سطحی فائدہ ہے، اور بھی بہت سے ہیں۔ اب اس شعر پہ آئیے۔
یہ شعر آپ کو بتا رہا ہے کہ یہ کائناتِ وجود ہے اور اس میں خدا ہے، انسان ہے، بیچ میں کائنات ہے۔ تو یہ کائنات موجود کی حیثیت سے ان میں تعلق پیدا کرنے کا ذریعہ تو ہے، لیکن اُن کے درمیان جو ایک وجودی نسبت ہے اس میں کائنات کی ضرورت نہیں ہے۔ خدا اور انسان موجود ہوتے ہوئے، کائنات کے سلکِ تعلق سے جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی انسان اور کائنات موجود ہونے کی جہت سے، ایک دوسرے سے تعلق رکھنے کا جو اُسلوب رکھتے ہیں، وہ اُسلوب، کائنات ہے۔ اس کی مزید وضاحت ہوگی۔ ابھی تو ہم اس شعر میں داخل ہونے کے لیے جیسے دستک دے رہے ہیں۔ جہتِ وجود سے خدا اور انسان کو کائنات کی ضرورت نہیں ہے۔ جہتِ وجود سے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وجود اپنی ہر تعریف میں واحد ہے۔ وجود کی کوئی ایسی تعریف لائقِ غور، لائقِ توجہ نہیں سمجھی جائے گی، جو الوجود واحدٌ کے علاوہ کسی نتیجے پر پہنچ جائے، یہ غیرعقلی ہوگی، غیرحقیقی ہوگی۔ جس تعریف میں وجود میں تعدد یا کثرت ثابت کی جائے، لائقِ توجہ بھی نہیں ہے۔
اب آئیے علامہ اقبال کے بیانیے کی جانب۔ حسبِ روایت اقبال نے اپنے بیان کا آغاز بیانِ کل سے کیا ہے۔ اقبال کے یہاں آپ نے عام طور پر دیکھا ہوگا، اور اگر آپ نے اقبال کو شاعرانہ تحسین کی نظر سے پڑھا ہو تو آپ جانتے ہوں گے کہ یہ چیز گویا اقبال کا مزاج تخلیق اور اُسلوبِ صنعت ہے کہ اُن کے ہاں نظم یا مسلسل بیان کے آگے بڑھنے کا انداز ایسا ہے جیسے آدمی پہاڑ کی چوٹی سے اُترتا ہے۔ نظم لکھنے کے یا مسلسل غزل وغیرہ لکھنے کے دو ہی اسالیب ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے لیے نظم لکھنا پہاڑ پر چڑھنے کا عمل ہے۔ یہ لوگ اجزا سے، ضمنی اُمور سے، تشبیہ، استعارہ اور دیگر محاسنِ کلام سے آغاز کرتے ہیں اور منتہائے معنی پر اختتام کرتے ہیں۔ یہ عام طریقہ ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک شخص پہلے اُصول بتا دیتا ہے، یعنی پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوکر کلام شروع کرتا ہے اور پھر اس کلام کو شعور کے لیے زیادہ مانوس بنانے کے لیے، انسانی حِس کے لیے زیادہ دُوررس اور اثر انگیز بنانے کے لیے، وہاں سے اُترنا شروع کرتا ہے۔ اقبال کے یہاں کلامِ منظوم کا عمومی عمل یہی ہے کہ وہ پہلا شعر یا پہلا بند ہی ایسا کَہ دیتے ہیں جس میں بات مکمل ہوجاتی ہے، یعنی جہاں انھیں پہنچنا ہوتا ہے یا پہنچانا ہوتا ہے، وہ بات وہ پہلے کردیتے ہیں اور اس کے بعد اس بات میں شگفتگی اور دمیدگی کا سا عمل شروع کردیتے ہیں۔ یہ اقبال کے امتیازات میں سے ایک ہے۔ اس اعتبار سے ہماری شعری روایت میںکوئی شخص بھی اس طرح کی تکنیک نہیں رکھتا۔ یہ تکنیک کا بھی موضوع ہے اور اس سے خیال بندی اور معنی آفرینی کے اس انداز پر بھی روشنی پڑتی ہے جو اقبال سے خاص ہے۔ مثلاً پہلی بات تو سامنے کی ہے کہ یہ شاعر الل ٹپ بات نہیں کرے گا۔ جو آدمی پوری بات پہلے بیان کرے گا اور پھر اس کی تفصیل کرے گا، وہ الل ٹپ بات نہیں کرے گا، غیر ذمہ داری سے بات نہیں کرے گا۔ اس کا کوئی بھی بیان اس کے ارادۂ کلام سے باہر نہیں ہوگا۔ اس کا ہر بیان اس کے اندر مکمل اور مربوط ہوکر اظہار پائے گا۔ یہ نظر میں رکھنے کی چیز ہے۔ انھیں یہ معلوم ہے کہ اُنھوں نے کیا کہنا ہے، کہاں تک کہنا ہے، کہاں جانا اور کس طرح سے جانا ہے۔ مطلب یہ وہ لوگ ہیں جو منزل پہلے بناتے ہیں، راستے بعد میں تراشتے ہیں۔ یہ تکنیک کا عمل ہے اور کم از کم اُردو کی حد تک اس تکنیک کا کوئی دوسرا نمونہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ فارسی میں اس کے بانی ہیں حکیم سنائی غزنوی۔ تاریخ میں لوٹ کر دیکھیے تو سنائی اقبال کی تکنیک رکھتے ہیں، رومی اقبال کی تکنیک رکھتے ہیں، اُتنا ہی بڑا ایک اور نام ہے فریدالدین عطار۔ نیچے سے اوپر جاتے ہوئے تذکرہ ہورہا ہے، کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت نہیں دی جارہی۔ ہم اس امتیازی خصوصیت کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ تمہید غیر متعلق نہیں ہے، اس شعر کی شرح کا حصہ ہے۔ آئیے اس تمہید کے بعد اب اس شعر کو دیکھتے ہیں۔

شارح: احمد جاوید
 
لیجیے صاحب، احمد جاوید صاحب کی تشریح پڑھیے اور سر دھنیے! کاپی پیسٹر کو داد دینا نہ بھولیے گا :)
بہت شکریہ ڈیروں داد اور ڈھیروں دعائیں۔
البتہ اتنی لمبی تشریح دیکھ کر میرا تو سر گھوم گیا۔بہرحال رات کو تنہائی میں پڑھوں گا ضرور ۔
ا. دریائے معانی عقیدت مند بہا سکتے ہیں.
عقیدت مند ہونا ضروری ہے کیا؟
 
تبصرہ: اس شعر کو گرفت میں لینے کی کوئی کوشش بارور نہیں ہو سکتی جب تک ’تخیلات‘، ’نگاہ‘ اور ’تجلیات‘ کی اصطلاحات کے معانی پر نظر نہ ہو۔ یہ کوئی بات نہ ہوئی کہ دو مصرعوں کو دو فقروں میں ڈھال کر شارح فارغ ہو جائے۔ ان اصطلاحات پر توجہ نہ کرنے کی وجہ سے نگاہ کو بھی تخیل کے معنی میں لیا گیاہے۔ ذیل میں ان اصطلاحوں کے معانی درج کیے جا رہے ہیں۔
تخیلات: تخیل کی جمع، غیر محسوس کو محسوس بنانے کا ذہنی عمل۔
نگاہ: وہ نظر جو:
۱۔ حقیقت کا مشاہدہ کرتی ہے۔
۲۔ ظاہر سے گزر کر باطن تک رسائی رکھتی ہے۔
۳۔ غیب کو شہود بنا لیتی ہے، یعنی جو چیزیں مشاہدے کی گرفت سے باہر ہیں انھیں بھی دیکھتی
ہے اور دیکھنے کا یہ عمل تخیٔلی نہیں ہوتا بلکہ واقعی۔
۴۔ کائنات سے خالقِ کائنات تک جا پہنچتی ہے۔ صفات کا پردہ اٹھا کر مشاہدہ ٔذات کی
طالب ہے۔
تجلیات:
۱۔ تجلّی کی جمع۔ جلوہ فرمائی، رونمائی
۲۔ صفاتِ الہیہ کے انوار کا ظہور جو وحدتِ ذاتی کی طرف اشارہ کرے۔
۳۔ شانِ ربوبیت کا اظہار
۴۔ ظہورِ صفات جو بلاواسطۂ مظاہر ہے اور لامتناہی۔
ان معانی تک پہنچنے کے بعد شعر کاضروری مطلب یہ ہوگاکہ عالمِ ملکوت میرے تخیل کی زد میں ہے اور عالمِ الوہیت اپنے مرتبۂ صفات میں میری نگاہ کی رسائی سے بالکل باہر نہیںہے۔ دونوں عالم چونکہ انسان کے لیے غیب ہیں اس لیے ان پر میرا تخیل ہو یا نگاہ، گراں ہے۔ اس سے ان کاغیاب پوری طرح محفوظ نہیں رہتا۔
خواجہ صاحب نے اقبال کو ان کی اس احتیاط پر داددی ہے کہ ’’انھوں نے مادی آنکھوں سے خدا کودیکھنے کا دعویٰ کرنے کی بجائے زورِ تخیل سے اس کا جلوہ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔‘‘ اقبال نے خدا کی تجلیات کو دیکھنے کا دعویٰ زورِ تخیل کی بنیادپر نہیں بلکہ چشمِ دل کے حوالے سے کیا ہے اور اس میں بھی یہ نزاکت ملحوظ رکھی ہے کہ یہ دید تجلیات کے کسی جزو کا بھی احاطہ نہیں کرسکتی۔ ’خلل‘ کا کلمہ یہ دلالت بھی رکھتا ہے۔​
متشکر ہوں استاد محترم.
 
Top