تشریح و توضیح خطبہ اول اقبال " علم اور مذہبی تجربہ" از ڈاکٹر جاوید اقبال (تجزیاتی مطالعہ)محمد خرم یاسین

تشریح و توضیح خطبہ اول اقبال " علم اور مذہبی تجربہ" از ڈاکٹر جاوید اقبال (تجزیاتی مطالعہ)
محمد خرم یاسین

علامہ محمد اقبال کے معروف سات خطبات" The Reconstruction of Religious Thought in Islam"(ترجمہ از سید نذیر نیازی: تشکیل ِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ )میں پہلا خطبہ " "Knowledge and Religious Experience بمعنی ‘‘علم اور مذہبی تجربہ’’ ہے۔ اس خطبے میں انھوں نے عصرِ حاضر میں موجود ذرائع علم کی بات کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ سائنسی علم وقت کے ساتھ تغیر و تبدل سے گزرتا رہتا ہے البتہ علم کا ایک ایسا ذریعہ بھی موجود ہے جس کو ٹھوس سائنسی فکر نے بڑی حد تک نہ صرف نظر انداز کردیا ہے بل کہ وہ اسے علم کا ذریعہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ذریعہ وہبی ہے اوراس کا اعلیٰ ترین درجہ علم بالوحی ہے ۔ چوں کہ وحی کا تعلق انبیا کرام سے رہا ہے اور اب انبیا کی آمد کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے اس لیے اس لیے ان کا لایا ہوا علم اور اس کے بعد وجدان ایسے ذرائع ہیں جو محض ٹھوس عقل سے ہی تعلق نہیں رکھتے بل کہ ان میں فواد یا قلبی واردات کا بھی بڑا حصہ موجود رہتا ہے۔ عصرِ حاضر کا انسان جن ذہنی پراگندگیوں کا شکار ہے اس کا واحد حل اس کا مذہب سے ازسرِ نو رابطہ بحال کرنا ہے کیوں کہ یہ زندگی کے ان لا ینحل مسائل کا حل بھی پیش کرتا ہے جہاں دیگر تمام علوم بے بس ہوجاتے ہیں۔

خطبے کے موضوع کو پر اثر بنانے کے لیے انھوں نے حیات و کائنات کے بارے میں متشکک لہجے میں ٹھوس فلسفیانہ سوالات اٹھائے ہیں۔یہ سوالات فطری طورپر ہر انسان کے دماغ میں موجود ہوتے ہیں اور جوں جوں وہ ان پر غورو فکر کرتا ہے، یا تو اس پر کائنات کے اسرار و رموز آشکار ہوتے ہیں یا پھر وہ کسی حد تک ان میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ سوالات ہی انسان کو زندگی کے حقائق کی تلاش و جستجو کی بنیادمہیاکرتے ہیں ۔ لکھتے ہیں:

۔۔"WHAT is the character and general structure of the universe in which we live? Is there a permanent element in the constitution of this universe? How are we related to it? What place do we occupy in it, and what is the kind of conduct that befits the place we occupy?" (1)

یعنی یہ کا ئنات جس میں ہم رہتے ہیں اس کی نوعیت اور ساخت کس قسم کی ہے ؟اس کا ہماری زندگی میں کیا کردار ہے؟کیا یہ دوامی ہے یا اس میں کوئی دوامی عنصر بھی موجود ہے؟ اس سے ہمارا تعلق کیا اور کس نوعیت کا ہے ؟ اس میں ہمارا مقام و مرتبہ کیا ہے ؟اور اس مقام و مرتبہ سے متعلق ہمیں اس کائنات کے بارے میں کیسا رویہ روا رکھناچاہیے ؟علامہ محمد اقبال نے ان خطبات کی وجوہات بیان کرتے ہوئے دیباچے میں تحریر کیا تھا کہ دورِ حاضر کا انسان تلاش و جستجو کا خوگر ہے اور اس کے پاس عقلی تقاضے ہی وہ معیارات ہیں جن کی بناپر فکر کی تشکیل ممکن ہے اس لیے ایسے سوالات کا جنم لینا اور ان کی تلاش میں کسی منزل تک پہنچنا یا بھٹک جانا دونوں ہی بعید از امکان نہیں۔ دیکھا جائے تو یہ سوالات فطری اور معرفت ِ الٰہی کے حصول، دونوں ہی حوالوں سے اہم ہیں ۔ کائنات کے اسرار و رموز اور حقائق کے کھوج میں خالقِ کائنات کی معرفت حاصل کرلینا عین ممکنات میں سے ہے بشرطیکہ مذہب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے اور نہ ہی فکر بے بنیاد فلسفے تک محدود رہے۔

علامہ محمداقبال مزید لکھتے ہیں کہ یہ سوالات مذہب، فلسفہ اور شاعری میں مشترک ہیں لیکن شاعری میں ان کا انداز مبہم اور غیر واضح ہے جب کہ مذہب میں واضح اور بہتر۔اس حوالے سے شاعری اور مذہب کا مواز نہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

"Religion, in its more advanced forms, rises higher

(2) than poetry".

یہاں مذہب کی ترقی یافتہ صورتوں کا ذکر گیا ہے ۔ ہرالہامی مذہب اپنے سے قبل مذاہب سے اس لیے ترقی یافتہ کہلانے کا مستحق ہے کہ وہ اس دور کے انسانوں کے فکری میلانات اور ذہنی رجحانات کے مطابق احکامات و تعلیماتِ الٰہی لے کر آیا اور یہ سلسلہ اسلام تک آکر رک گیا۔ سید نذیر نیازی نے ترجمہ کرتے ہوئے’’ forms Religion, in its more advanced ‘‘کا ترجمہ ’’مذہب کے مدارج عالیہ‘‘ اور وحید عشر ت نے ’’مذہب اپنی ترقی یافتہ صورتوں میں‘‘کیا ہے۔یوں علامہ محمد اقبال نے خطبے کے آغاز میں ہی ایسے مابعدالطبیعاتی فکر کے حامل سوالات کے جوابات کی تلاش میں مذہب کی اولین اہمیت کو تسلیم کیا ہے ۔ یعنی مذہب حتمی سچائیوں کا مرکز ہے تاوقتیکہ اس میں انسانی تحریفات شامل نہ ہوگئی ہوں یابعد کے الہامی مذاہب کی وجہ سے متروک نہ ہوچکا ہو۔

ٍٍ علامہ محمد اقبال مذہب کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ فردسے معاشرے کی جانب بڑھتاہے ۔ اسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ انفرادی اصلاح سے اجتماعی بہبود کی جانب جاتا ہے اور یہ بھی کہ یہ نبی سے امت کی جانب بڑھتا ہے ۔ اس کی حتمی سچائی اور انسان کے ایمان و ایقان میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے علم کو وسعت دینے کی بھی کوشش کرتی ہے۔ یہاں وہ اس بات کا اضافہ بھی کرتے ہیں کہ فلسفہ، جو کہ خود تشکک پرست اور بار بار اپنی ہی بنیاد پر سوال اٹھانے والا ہے، اسے یہ اختیار حاصل نہیں کہ الہامی مذہب پر سوال اٹھائے۔

۔۔"The spirit of philosophy is one of free inquiry. It suspects all authority. Its function is to trace the uncritical assumptions of human thought to their hiding places, and in this pursuit it may finally end in denial or a frank admission of the incapacity of pure reason to reach the Ultimate Reality." (3)

مذہب انسان کو حقیقتِ مطلق کا پتہ بھی دیتا ہے اور اسے اس کی منزلِ مقصود تک بھی پہنچاتا ہے۔ یہ حتمی سچائیوں کا ایسا بے داغ سلسلہ ہے جو انسان کے کردار اور افعال میں بہتری پیدا کرتا ہے اور اس کی سیرت کو نکھارتا ہے۔ مذہب اور فلسفے کے بعد کی نشان دہی کے بعد وہ عقل اور وجدان کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عقل اور وجدان کا منبع ایک ہی ہے۔ بظاہر نفسیات کے مطابق ان دونوں کا تعلق دماغ سے ہے جب کہ روحانی حوالے سے یہ منبع قلب کی جانب ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل بھی کرتے ہیں اور سہارا دے کر آگے بھی بڑھاتے ہیں۔خطبے کے اختتام پر علامہ اقبا ل، مذہبی تجربے اور وجدان کے مشمولات پر بات کرتے ہوئے اختتام کرتے ہیں جس سے دوسرے خطبے کاآغاز ہوجاتاہے۔ یہ خطبہ نہایت فکر انگیز ہے اور عصرِ حاضر کے سائنس پسند دماغ کے لیے اہم روحانی ضرورت کے تحت سامنے آتا ہے۔ ذیل میں خطبہ اول کی اہم توضیح تفہیم از ڈاکٹر جاوید اقبال کی تحقیق و تنقید پیش کی جارہی ہے۔

فرزندِ اقبال ،ڈاکٹر جاوید اقبال نے خطباتِ اقبال کی شرح کے سلسلے میں ’’خطباتِ اقبال تسہیل وتفہیم‘‘ لکھ کرتفہیمی ادب میں اہم اضافہ کیا ہے ۔یہ کتاب بھی ساتوں خطبات کی تفہیمات پر مشتمل ہے جس میں سے پہلے خطبے کی تشریح و توضیح درج بالا عنوان کے تحت پیش کی گئی ہے جو کل اکتیس (۳۱)صفحات پر مشتمل ہے ۔ان صفحات میں خطبے کے مباحث کی تشریح و توضیح ساڑھے گیارہ صفحات ، خطبے پر اعتراضات کے جوابات کوساڑھے سترہ صفحات اور آخر میں حواشی و حوالہ جات کو دو صفحات پر پھیلایا گیا ہے۔ ان حواشی و حوالہ جات کی تعداد چھتیس (۳۶)ہے۔ صفحات کی اس ترتیب سے یہ سمجھنا ہر گز مشکل نہیں کہ ڈاکٹر جاوید اقبال کی توجہ محض خطبہ کی تسہیل و تو ضیح پر ہی نہیں تھی بل کہ ان کے پیشِ نظر خطبے پرہونے والے اعتراضات بھی رہے ہیں۔ اس تشریح و توضیح کا اسلوب آسان فہم ہے اور یہ چندمقامات پر ترجمے سے قریب تر دکھائی دیتی ہیں مزید یہ کہ تشریح و توضیح کو آسانی کی خاطر دو حصوں میں تقسیم کیا ہے جس میں پہلا حصہ انسان اور علم سے بحث کرتا ہے جب کہ دوسرا حصہ تسخیرِ کائنات ، وجدان اور قلب کاعمل بطور ذریعہ ِ علم سے متعلق ہے۔مجموعی طور پر اس شرح کوا س حوالے سے ایک بہتر کاوش قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس میں نہ صرف موضوعاتِ خطباتِ اقبال کی وضاحت دی گئی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جہاں تفہیمی اشکالات پیدا ہوتے ہیں یا فکرِ اقبال پر سوالات اٹھائے گئے، ان کا جواب بھی دیا گیا ہے ۔

ڈاکٹرجاوید اقبال نے خطبہ اول کی شرح میں سب سے پہلے اس کے عنوان ’’علم اور مذہبی تجربہ‘‘سے بحث کی ہے کہ اس میں’’علم‘‘ کیا ہے’’ مذہبی تجربہ‘‘ سے کیا مراد ہے یعنی ان دونوں کا یک جاہونا یا اتصال کی کیا صورت ہے اور انھیں علامہ محمد اقبال نے کیوںاکٹھا کیا؟پہلے ہی صفحے پر اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ علم کے ذرائع عقل، حواس اور وجدان ہیں جب کہ مذہبی تجربے کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے۔ مذہبی تجربہ وحی یا الہام کی صورت میں پیغمبر، کشف کی صورت میںولی اور القاء کی صورت میں شاعر سے نسبت رکھتا ہے۔یہ وہ وضاحت ہے جسے اس سے قبل کی کسی شرح میں بیان نہیں کیا گیا۔ا س کے بعد اس خطبے کے آغاز میں کائنات سے متعلق سوالات کو دوبارہ دہرا کر ان کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔علامہ محمد اقبال نے تحریر کیا تھا کہ حیات و کائنات سے متعلق سوالات فلسفہ، ارفع شاعری اور مذہب تینوں میں ملتے ہیں جن کے جواب بھی بالترتیب تینوں ہی پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے دیگر شارحین کی نسبت ’’ارفع شاعری ‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے اس کے دائرہ عمل اور عالمگیر روحانی پیغام کی ترسیل میں اسے مذہب سے کم تر سطح پرافراد کو متاثر کربنے والی بیان کیا ہے۔ اس کے بعد انھوںنے فلسفہ اور ایمان کا موازنہ کرتے ہوئے اقبال ہی کی اس مثال کو دہرا یا ہے کہ فلسفہ شکوک و شبہات کا شکار رہتا ہے اور ایمان ایک پرندے کی طرح حقیقتِ مطلق تک پہنچنے کے لیے ان حقائق کو بھی پہچان لیتا ہے جو بظاہر نظر نہیں آتے لیکن ا س وضاحت میں پرندے کی عقل اور حس کے حوالے سے کچھ ابہام باقی ہے۔لکھتے ہیں:

’’فلسفہ کے برعکس مذہب کی بنیاد ایمان پر استعار کی گئی ہے اور ایمان ایک پرندے کی طرح عقل کی رہبری کے بغیر اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے اپنا بے نشان رستہ ڈھونڈ نکالتا ہے۔ یہ دلیل اس اعتبار سے تو درست ہے کہ پرندہ عقل استعمال نہیں کرتا مگر ’’حس‘‘ تو استعمال میں لاتا ہے اور جدید نفسیات کی دریافت کے مطابق ’’حس ‘‘ وجدان کی بنیادی قرار دی گئی ہے اور وجدان بقول اقبال عقل ہی کی ترقی یافتہ صورت ہے۔‘‘ (۴)

خطبہ اول کا اصل متن یہ ہے :

"The essence of religion, on the other hand, is faith; and faith, like (۵the bird, sees its “trackless way” unattended by intellect" (

اس میں علامہ محمد اقبال ایمان کو پرندے سے تشبیہ دے رہے ہیں نہ کہ حقیقتاً پرندہ کہہ رہے ہیں ۔ یہ استعاراتی گفتگو ہے، اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسے اپنے آشیانے سے نکلتے، شکار پر جاتے یا واپس آتے ہر گز عقل کی ضرورت نہیں پڑتی یا ‘‘عقل استعمال نہیں کرتا’’۔درج بالا اقتباس میں تیسری سطر میں اگر پرندے کی جگہ ایمان کی بات کرتے ہوئے کچھ وضاحت کردی جاتی یا جدید نفسیات کابھی کوئی حوالہ پیش کر دیا جاتا تو بات کو زیادہ آسان اور مدلل بنایا جاسکتا تھا اس کے بعد انھوں نے عقل اور مذہب کے حوالے سے اقبال کے خیالات کی وضاحت کی کوشش کی ہے۔ علامہ محمد اقبال نے اس حوالے سے متکلمین و صوفیہ اور پروفیسر وائٹ ہیڈ کو الگ الگ بیان کیا تھا، ڈاکٹر جاوید اقبال نے وضاحت کرتے ہوئے انھیں ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ تفہیمی حوالے سے تو ان کی کاوش قابلِ قدر ہے لیکن معنوی لحاظ سے اس میں ردو بدل ہے۔علامہ محمد اقبال مذہب کے بارے میں کہتے ہیں:

"It has something like a cognitive content, and the existence of rival parties– scholastics and mystics– in the history of religion shows that idea is a vital element in religion. Apart from this, religion on its doctrinal side, as defined by Professor Whitehead, is “a system of general truths which have the effect of transforming character when they are sincerely held and vividly )۶apprehended." (

جب کہ ڈاکٹرجاوید اقبال نے ان دونوں یعنی متکلمین و صوفیہ اور وائٹ ہیڈ کے حوالے سے علامہ محمد اقبال کے بیان کو ایک ہی بیان بنانے کی کوشش کی ہے جو مفہومی حوالے سے تو درست البتہ از روئے ترجمہ سید نذیر نیازی و ڈاکٹر وحید عشرت بھی درست نہیں۔ اس ضمن میں لکھتے ہیں:

’’اقبال تسلیم کرتے ہیں کہ ایمان محض جذبہ ہی نہیں بلکہ اپنے عقائد عقل سے واضح کرسکنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ آپ تاریخ اسلام کی روشنی میں فرماتے ہیں کہ متکلمین اور صوفیہ کے آپس میںتنازعہ ثابت کرتے ہیں کہ اگرچہ مذہب اپنے عقائدکے اعتبار سے بعض صداقتوں کا نظام ہے جسے خلوصِ نیت سے اپنایا جائے تو انسان کا کردار بدل جاتا ہے۔‘‘(۷(

اس کے بعدڈاکٹر جاوید اقبال نے علامہ محمد اقبال کے خیالات کہ مذہب کے لیے عقلی دلائل کا مطلب مذہب پر عقلیت کی فوقیت تسلیم کرنا نہیں اور اسلام میں قدیم مذہبی تحاریک کا ذکر کیا اور قرآنِ مجید کو سمجھنے کے لیے ’’یونانی فلسفے ‘‘ کی عینک کو ضدِ قرآن بھی قرار دیتے ہوئے اصل متن کا اقتباس پیش کیا ہے پھر خطبے کی ترتیب کے مطابق اشاعرہ اور معتزلہ کی تحاریک اور ا ن کے بعد غزالی و کانٹ کا ذکر کیا ہے۔ ترتیب کے اہتمام کے حوالے سے شرح ترجمے سے قریب دکھائی دیتی ہے مثلاً خطبے کا اصل متن اور تشریح کا موازنہ ملاحظہ کیجیے جس میں علامہ محمد اقبال نے غزالی اور ابنِ رشد کے مذہبی و فلسفیانہ نظریات کا ذکر کیا ہے۔علامہ محمد اقبال لکھتے ہیں:

توضیح و تشریح از ڈاکٹر جاوید اقبالاصل متن خطبہ اول
اقبال کے خیال میں اسی بغاوت کے زیرِ اثر امام غزالی نے مذہب کی بنیاد ردِ فلسفہ پر رکھی۔ حالانکہ مذہب کو عقلی طور پر سمجھنے کے لیے یہ ایک غیر محفوظ بنیاد تھی بلکہ قرآن کی روح کے بھی خلاف تھی۔بہر حال اس کے جواب میں ابنِ رشد نے یونانی فلسفہ کے دفاع میں بہت کچھ لکھا۔ ‘‘(۹)"Ghazali based religion on philosophical scepticism– a rather unsafe basis for religion and not wholly justified by the spirit of the Qur’an. Ghazali’s chief opponent, Ibn Rushd, who defended Greek philosophy against the rebels."(8)
کانٹ اور غزالی کا موازنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال نے وضاحت کی ہے کہ کانٹ نے عقل کی حدود بتاتے ہوئے یہ کہہ کر بات ختم کردی تھی کہ انسان کو عقلِ عملی بخشی گئی ہے عقلِ خالص نہیں جبکہ عقلِ خالص ہی اس کی روحانی ترقی کے راز منکشف کرسکتی ہے۔ غزالی نے اس کے برعکس تصوف کا سہارا لیا اور عقل و وجدان میں ایک ناقابلِ عبور خلیج حائل کردی جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھاکہ ان دونوں کا آپس میں تعلق ہے ۔یوں اس راہ میں غزالی اور کانٹ دونوں ہی سے کچھ کوتاہی ہوگئی۔ان دونوں فلاسفہ کے حوالے سے اقبا ل کے خیالات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اقبال غزالی اور کانٹ کے خیالات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دونوں اس بات کو نظر انداز کرگئے کہ عقل علم کی تحصیل کی خاطر اپنی حدود سے آگے بھی نکل سکنے کی اہلیت رکھتی ہے اور اس کا یہ عمل ایک طرح سے ۔۔۔’’لامحدود‘‘ کی خاطر ’’محدود‘‘ کا استقبال کرنا ہے۔‘‘(۱۰)

شرح کے پانچویں صفحے پر ڈاکٹر جاوید اقبال نے علامہ محمد اقبال ہی کے خیالات کو آسان کرکے دہرانے کی کوشش کی ہے اس میں کچھ نیا شامل نہیں کیا ۔مثلاً پہلے پیراگراف کی ابتدا ’’اقبال کی نگاہ میں عقل جامد نہیں۔۔‘‘ سے ہوتی ہے،پھر درج بالا پیرا گراف بھی علامہ محمد اقبال کے کانٹ اور غزالی سے متعلق خیالات ہی سے شروع ہوتا ہے، دوسرے پیرا گراف کی پہلی سطر ’’اس مقام تک پہنچ کر علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں۔۔‘‘ چوتھی سطر ’’اقبال کو احساس تھا۔۔۔‘‘پانچویں سطر ’’ان کی نگاہ میں۔۔۔‘‘ساتویں سطر’’انھیں خدشہ تھا۔۔۔‘‘دسویں سطر ’’اقبال آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت کا حوالہ دیتے ہیں۔۔۔‘‘ اور تیسرے پیرا گراف کی پہلی سطر’’اقبال کی رائے میں۔۔۔‘‘سے شروع ہوتی ہیں۔پچیس سطور کے صفحے پر علامہ محمد اقبال ہی کے آٹھ اقوال و خیالات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ علامہ محمد اقبال کے خیالات کوان ہی کی زبانی مختصراً بیان کرکے شرح کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگلے تین صفحات پر علامہ محمد اقبال کے خیالات کے ماخذات کے طو ر پر تیرہ قرآنی حوالہ جات کے ساتھ انسان اور کائنات کے رشتے پر غور وفکر کی دعوت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے جن آیات کو بیان کیا گیا ہے ان میں پہلی میں کائنات کی تخلیق کے پس منظر میں سنجیدہ مقصدکا کارفرما ہونا، اسے تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہونا، اس کی ترکیب میں وسعت کی گنجائش، اس کی جامدیت کے بجائے تبدیلی کے امکانات ، رات اور دن کی تبدیلی میں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں، انسا ن کو کائنات کو مسخر کر لینے کی دعوت دینا اور اس سلسلے میں کائنات کی تسخیر کے حوالے سے ذرائع کی تلاش، کائنات میں انسان کی حقیقت ، گرد و نواح (کائنات ) کے منظر میں انسان کی مطابقت اور بھاری ذمہ داری، انسان کی جوابدہی کا عمل، انسان کی طاقت اور اس کے اختیارات، انسا ن کا اپنی اور کائنات کی تقدیر سازی کا عمل،اپنی پوشیدہ قوتوں کو بروئے کار نہ لانے کی وجہ سے جامدیت کا شکار ہو جانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان آیا ت کے حوالے سے فکرِ علامہ محمد اقبال پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اقبال مطالعہ فطرت یا سائنسی تحقیق کو ایک طرح کی عبادت سمجھتے ہوئے قرآنی آیات کے حوالے سے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام بطور مذہب مشاہداتی یا تجربی علوم کی تحصیل کے ذریعہ کائنات کی تسخیر کی دعوت دیتا ہے۔۔۔بقول اقبال قبل از اسلام کی ساری پرانی دنیا اس لیے ناکام ہوئی کہ اس نے حقیقتِ مطلقہ کو خالصتاً باطنی طور پر جاننے کی کوشش کی اور باطن سے ظاہر کا رستہ اختیار کیا۔‘‘(۱۱)

یہاں تک پہنچ کر انھوں نے ساری بحث کو فلسفہ، مذہب اور ارفع شاعری سے منسلک کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انسان کی فطرت پر برتری مسلم ہے، قرآن ِ مجید انسان کو فطرت کی تسخیر کی دعوت دے رہا ہے البتہ مذہب کومحض یا کلیتاً عقلی بنیادوں پر ثابت کرنا ممکن نہیں۔ خطبے کے دوسرے حصے کا رخ کائنات کی تسخیر کے لیے وجدان کی جانب ہے۔ وجدان کا تعلق قلب سے ہے اور دل محض خون رواں رکھنے کا ایک جسمانی آلہ نہیں بلکہ معرفتِ الٰہی کا ذریعہ بھی ہے۔ اسی کا تعلق مذہبی تجربے سے ہے۔اس حوالے سے فکرِ اقبال کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ علامہ محمد اقبال کی نظر میں ’’دل ‘‘ ایک طرح کا وجدان یا بصیرت ہے اور قرآن ِ کریم کے قول کے مطابق دیکھ سکنے کی طاقت رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ اس کی پہنچائی گئی معلومات کا اگردرست تجزیہ کر لیا جائے تو غلط بھی نہیں ہوتیں۔یوں اسے دیگر تجربوں سے حاصل ہونے والی معلومات سے کم تر نہیں سمجھنا چاہیے۔

تسہیل کے اختتام پر انھوں نے مذہبی تجربات کی اُنھیں خصوصیات کا ذکر کیا ہے جو اقبال نے اجمالاً تشکیلِ جدید میں بیان کی تھیں۔ ان میں پہلی خصوصیت اس تجربہ کا یکلخت اور فی الفور ہونا، دوسری خصوصیت اس کی ناقابلِ تقسیم کلیت، تیسری اس میں ابلاغ کی ایسی صورت کہ صوفی کا گہرا رابطہ ایک ایسے یکتا وجود سے ہوجانا جس کے حاوی ہونے کے سبب اس کی اپنی شخصیت دب جاتی ہے، چوتھی خصوصیت اس تجربے کے اظہار کی ناممکنات اور پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صوفی کو اگرچہ احساس ہوتا ہے کہ وہ زمانِ متسلسل سے کٹ گیا ہے لیکن درحقیقت ایسا نہ ہونا شامل ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر جاوید اقبال نے نہایت مفصل انداز میں اس خطبے پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ عمومی طور پر فکرِ اقبال پر اعتراضات کی نوعیت یہ رہی ہے کہ علامہ محمد اقبال نے آیات کے نئے معانی بیان کیے ہیں اور ان کے مطالب کو حسبِ منشا استعمال کیا ہے۔ اس پران کا یہی جواب رہا ہے کہ قرآنِ مجید کسی ایک دور یا ایک شخص کے لیے نازل نہیں ہوا۔ رہتی دنیا تک نہ صرف مختلف مضامین کے ماہرین اس سے نئے نئے معانی اخذ کرتے رہیں گے بلکہ یہ مساوی طور پر فائدہ مند بھی رہے گا۔ یوں یہ تشریح و توضیح اس حوالے سے بھی ممتازترین مقام رکھتی ہے کہ اس میں ان اعترضات پر بات کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو دیگر شروح میں موجود نہیں۔مجموعی طور پر اس تشریح و توضیح کو فکرِ اقبال کی تفہیمی کاوشات میں اہم اور نمایاں مقام دیا جاسکتا ہے۔
Muhammad Khurram Yasin
حوالہ جات:
 
Top