السلام علیکم -
فلسفی صاحب نے مجھے بھی استاد ٹھہرا کر کچھ لکھنے کی دعوت دی ہے تو کچھ استادیاں کرنے میں حرج ہی کیا ہے -
دراصل نثر اور بول چال میں جو بات معیوب ہوتی ہے شعر کا حسن ٹھہرتی ہے -جیسے ابہام کو دیکھ لیجئے ، جو عام بول چال میں معیوب ہے کہ بات جس قدر واضح ہو اچھی لگتی ہے -مگر یہی ابہام شعر میں حسن پیدا کرتا ہے - میر آج بھی میر اسی لئے ہیں کہ ان کی شاعری ابہام سے بھری ہوئی ہے-ایک ایک شعر کے ،سادہ زبان میں ،کئی کئی مطالب ہیں -
یہی شعر دیکھ لیجئے -پہلے مصرع میں لفظ "آئینہ رو " میں ابہام یہ ہے کہ ایک طرف تو آئینہ کی ایک صفت انعکاس کی ہے ،دوسری طرف اس کی کئی صفات ہیں جیسے صفائی 'آراستگی 'چمک اور حیرانگی وغیرہ وغیرہ -
پھر "کیا " کو اس طرح لائیں ہیں مصرع اولیٰ میں کہ یہی "کیا " سوالیہ بھی ہوسکتا ہے ' نافیہ بھی اور مبالغہ بھی -
پھر دوسرے مصرع میں لطف ابہام یہ ہے کہ واضح نہیں مصرع کس کی طرف راجع ہے آئینہ رو یوں کی طرف یا میر صاحب کی طرف یعنی گھر سے حیران کون نکلتے ہیں ،میر صاحب یا آئینہ رو ؟
پھر اسی دوسرے مصرع میں ایک ابہام اور چھوڑ دیا کہ واضح نہیں ہوتا کہ موصوف گھر کے اندر سے ہی حیران نکلے ہیں یا گھر سے باہر جا کر حیران ہوئے ہیں -
اب ان ابہامات کو شعر میں چھوڑ کر میر صاحب کبھی مراد یہ لیتے ہیں کہ عاشق و معشوق الگ الگ ہیں اور کبھی مراد یہ لیتے ہیں کہ عاشق و معشوق الگ الگ نہیں دونوں ایک ہیں اور سامنے آئینہ ہے -پھر اسی ایک شعر میں یہ پہلو بھی پیدا کر رہے ہیں کہ اگر عاشق و معشوق دونوں ایک ہیں الگ نہیں تو، ایک قبیل تو عاشق کی وہ ہے جس کو پہلے ہی اپنی معشوقیت کا علم ہے،اسے آئینے کی حاجت نہیں اور دوسری قسم وہ ہے جس کو اپنا معشوق ہونا معلوم نہیں ،اسے آئینے کی ضرورت رہتی ہے یہ معلوم کرنے کے لئے -
بھٹی صاحب سر چکرا نہ گیا ہو تو پوچھئے کونسا معنی آپ پر نہ کھل سکا تاکہ میں واضح کرنے کی کوشش کروں-وگرنہ تو ایک طویل مضمون چاہئے ہر مطلب کو کھول کر بیان کرنے کے لئے-