تشنگی وہ تھی کہ سیرابی کا چہرہ جل گیا ---------------- عزم بہزاد

مغزل

محفلین
غزل

تشنگی وہ تھی کہ سیرابی کا چہرہ جل گیا
میں لب دریا جو پہنچا سارا دریا جل گیا

اب نئے منظر میں بیٹھا ہوں ارادوں کے بغیر
جستجو کی سانس کیا پھولی کہ سینہ جل گیا

میں خزاں کا آئینہ تھا اپنی ویرانی سے خوش
تم نے مجھ میں باغ ڈھونڈا، میرا صحرا جل گیا

کیا بیاں ہو اک تعلق ختم ہوجانے کا حال
دھوپ تھی انکار کی، خواہش کا سایہ جل گیا

رات محفل کی سماعت نے وہ تاریکی دکھائی
قصّہ گو بجھنے ہی والا تھا کہ قصّہ جل گیا

کیا دوا،کیسی بحالی،آخری کوشش کے ساتھ
بسترِ بیمار پر دستِ مسیحا جل گیا

خواب میں دیکھا تھا خود کو راکھ ہونے کے قریب
نیند سے چونکا تو باہر کا تماشا جل گیا

حکم تھا آنکھیں کھلی رکھّوں کہ شمعیں بجھ نہ جائیں
میں بھی اس خوبی سے جاگا جس نے دیکھا جل گیا


عزم بہزاد، کراچی، پاکستان
 
Top