تشنہ یاد --- ایک نظم

نظم کا عنوان ہے "تشنہ یاد" .. نظم ایک نا مکمل اور ادھوری یاد کے چاروں طرف گھومتی نظر آتی ہے
اس واقعے کو یاد رکھنے میں شاعر جس الجھن سے گزرتا یہ نظم اس الجھن کو بیان کرتی ہے


تشنہ یاد

کچھ واقعے ہوتے ہیں عیاں سے نہ نہاں سے
اس ذہن میں پھرتے ہیں مگر بن کے دھواں سے

کیا ایسا عجب تجربہ تم کو بھی ہوا ہے؟
دھندلی سی ہو اک یاد، نہ نکلے جو زباں سے؟

لو تم کو سناتا ہوں مرے ساتھ ہوا کیا!
اک نغمے کی روداد جو بڑھ کر ہے بیاں سے

اُس شام ٹہلتا ہوا میں گاؤں سے نکلا
اور گانے کی آواز سنی ایک مکاں سے

پرسوز وہ آواز، حسیں گیت، جواں دھن
اور مستی کا عالم وہ کہ باہر ہے بیاں سے

اس گیت سے مسحور زمیں اور سماوات
اک سحر کہ الجھا دے برہمن کو بتاں سے

کچھ رنگ وہاں سے بھی تھے آواز میں شاید
بھنورے زرِ گل لے کے نکلتے ہیں جہاں سے!

وہ گیت وہ آواز مری روح پہ چھائی
بے خود تھا میں، لگتا تھا کہ ہوں اور زماں سے!

اِس ظرفِ سخن، حسنِ سماعت، سے بھی لے پوچھ!
کیا ایسے سنے تھے کبھی الفاظ زباں سے؟

کہنے کو تو اب ہوش ہے، لگتا ہے مگر یوں
وہ خواب سا اب تک ہے، وہ لمحے ہیں رواں سے !

اک طرفہ تماشہ ہے کہ اب یاد نہیں کچھ
اس گیت سے، جو حسن میں بڑھ کر تھا بتاں سے

صد حیف کہ میں بول وہ سب بھول گیا ہوں!
الفاظ، جو تاثیر میں بڑھ کر تھے بیاں سے

دستک، کبھی آہٹ، کوئی جھونکا، کبھی خوشبو
اس کے ہی اشارے ہیں، گزرتا ہے گماں سے

الفاظ تو مانوس تھے اور ذہن میں میرے
رہ رہ کے چمکتے ہیں، مگر دور زباں سے

کوشش تو بہت کی ہے مگر جوڑ نہ پایا
اب بول وہ بھولے ہوئے میں لاؤں کہاں سے

اس بھولے ہوئے گیت نے، اس یاد نے چھوڑی
اک تشنگی ایسی کہ جو باہر ہے بیاں سے

صفحات پہ لکھ ڈالوں میں اس گیت کو، شاید
قرطاس پہ آ جائے نکل کر وہ گماں سے

ہر لفظ کو امیّد سے لکھ کر میں یہ چاہوں
کاشف ہو وہ اسرار عیاں میری زباں سے

سید کاشف

شکریہ
 

عندلیب

محفلین
نظم کا عنوان ہے "تشنہ یاد" .. نظم ایک نا مکمل اور ادھوری یاد کے چاروں طرف گھومتی نظر آتی ہے
اس واقعے کو یاد رکھنے میں شاعر جس الجھن سے گزرتا یہ نظم اس الجھن کو بیان کرتی ہے

تشنہ یاد


کچھ واقعے ہوتے ہیں عیاں سے نہ نہاں سے
اس ذہن میں پھرتے ہیں مگر بن کے دھواں سے

کیا ایسا عجب تجربہ تم کو بھی ہوا ہے؟
دھندلی سی ہو اک یاد، نہ نکلے جو زباں سے؟

لو تم کو سناتا ہوں مرے ساتھ ہوا کیا!
اک نغمے کی روداد جو بڑھ کر ہے بیاں سے

اُس شام ٹہلتا ہوا میں گاؤں سے نکلا
اور گانے کی آواز سنی ایک مکاں سے

پرسوز وہ آواز، حسیں گیت، جواں دھن
اور مستی کا عالم وہ کہ باہر ہے بیاں سے

اس گیت سے مسحور زمیں اور سماوات
اک سحر کہ الجھا دے برہمن کو بتاں سے

کچھ رنگ وہاں سے بھی تھے آواز میں شاید
بھنورے زرِ گل لے کے نکلتے ہیں جہاں سے!

وہ گیت وہ آواز مری روح پہ چھائی
بے خود تھا میں، لگتا تھا کہ ہوں اور زماں سے!

اِس ظرفِ سخن، حسنِ سماعت، سے بھی لے پوچھ!
کیا ایسے سنے تھے کبھی الفاظ زباں سے؟

کہنے کو تو اب ہوش ہے، لگتا ہے مگر یوں
وہ خواب سا اب تک ہے، وہ لمحے ہیں رواں سے !

اک طرفہ تماشہ ہے کہ اب یاد نہیں کچھ
اس گیت سے، جو حسن میں بڑھ کر تھا بتاں سے

صد حیف کہ میں بول وہ سب بھول گیا ہوں!
الفاظ، جو تاثیر میں بڑھ کر تھے بیاں سے

دستک، کبھی آہٹ، کوئی جھونکا، کبھی خوشبو
اس کے ہی اشارے ہیں، گزرتا ہے گماں سے

الفاظ تو مانوس تھے اور ذہن میں میرے
رہ رہ کے چمکتے ہیں، مگر دور زباں سے

کوشش تو بہت کی ہے مگر جوڑ نہ پایا
اب بول وہ بھولے ہوئے میں لاؤں کہاں سے

اس بھولے ہوئے گیت نے، اس یاد نے چھوڑی
اک تشنگی ایسی کہ جو باہر ہے بیاں سے

صفحات پہ لکھ ڈالوں میں اس گیت کو، شاید
قرطاس پہ آ جائے نکل کر وہ گماں سے

ہر لفظ کو امیّد سے لکھ کر میں یہ چاہوں
کاشف ہو وہ اسرار عیاں میری زباں سے

سید کاشف

شکریہ
بہت خوب،
 
نظم کا عنوان ہے "تشنہ یاد" .. نظم ایک نا مکمل اور ادھوری یاد کے چاروں طرف گھومتی نظر آتی ہے
اس واقعے کو یاد رکھنے میں شاعر جس الجھن سے گزرتا یہ نظم اس الجھن کو بیان کرتی ہے

تشنہ یاد


کچھ واقعے ہوتے ہیں عیاں سے نہ نہاں سے
اس ذہن میں پھرتے ہیں مگر بن کے دھواں سے

کیا ایسا عجب تجربہ تم کو بھی ہوا ہے؟
دھندلی سی ہو اک یاد، نہ نکلے جو زباں سے؟

لو تم کو سناتا ہوں مرے ساتھ ہوا کیا!
اک نغمے کی روداد جو بڑھ کر ہے بیاں سے

اُس شام ٹہلتا ہوا میں گاؤں سے نکلا
اور گانے کی آواز سنی ایک مکاں سے

پرسوز وہ آواز، حسیں گیت، جواں دھن
اور مستی کا عالم وہ کہ باہر ہے بیاں سے

اس گیت سے مسحور زمیں اور سماوات
اک سحر کہ الجھا دے برہمن کو بتاں سے

کچھ رنگ وہاں سے بھی تھے آواز میں شاید
بھنورے زرِ گل لے کے نکلتے ہیں جہاں سے!

وہ گیت وہ آواز مری روح پہ چھائی
بے خود تھا میں، لگتا تھا کہ ہوں اور زماں سے!

اِس ظرفِ سخن، حسنِ سماعت، سے بھی لے پوچھ!
کیا ایسے سنے تھے کبھی الفاظ زباں سے؟

کہنے کو تو اب ہوش ہے، لگتا ہے مگر یوں
وہ خواب سا اب تک ہے، وہ لمحے ہیں رواں سے !

اک طرفہ تماشہ ہے کہ اب یاد نہیں کچھ
اس گیت سے، جو حسن میں بڑھ کر تھا بتاں سے

صد حیف کہ میں بول وہ سب بھول گیا ہوں!
الفاظ، جو تاثیر میں بڑھ کر تھے بیاں سے

دستک، کبھی آہٹ، کوئی جھونکا، کبھی خوشبو
اس کے ہی اشارے ہیں، گزرتا ہے گماں سے

الفاظ تو مانوس تھے اور ذہن میں میرے
رہ رہ کے چمکتے ہیں، مگر دور زباں سے

کوشش تو بہت کی ہے مگر جوڑ نہ پایا
اب بول وہ بھولے ہوئے میں لاؤں کہاں سے

اس بھولے ہوئے گیت نے، اس یاد نے چھوڑی
اک تشنگی ایسی کہ جو باہر ہے بیاں سے

صفحات پہ لکھ ڈالوں میں اس گیت کو، شاید
قرطاس پہ آ جائے نکل کر وہ گماں سے

ہر لفظ کو امیّد سے لکھ کر میں یہ چاہوں
کاشف ہو وہ اسرار عیاں میری زباں سے

سید کاشف

شکریہ

کیا کہنے کیا کہنے کاشف بھائی بہت اعلیٰ
پوری نظم ہی اچھی ہے مگر اس مصرعے کی روانی الگ ہی ہے ، داد قبول کیجیئے
پرسوز وہ آواز، حسیں گیت، جواں دھن
 
بہت خوب!! نظم کا بنیادی خیال اچھا ہے ۔ اگرچہ بنیادی خیال اور موضوع کو آپ نے کہیں بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے لیکن بعض اشعار میں زبان و بیان پر گرفت کمزور ہے ۔ مجموعی طور پر نظم اچھی لگی ۔ داد قبول کیجئے !
 
بہت خوب!! نظم کا بنیادی خیال اچھا ہے ۔ اگرچہ بنیادی خیال اور موضوع کو آپ نے کہیں بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے لیکن بعض اشعار میں زبان و بیان پر گرفت کمزور ہے ۔ مجموعی طور پر نظم اچھی لگی ۔ داد قبول کیجئے !
نوازش جناب کی۔
ان اشعار کی نشاندہی بھی کر دیں تاکہ درست کر سکوں۔۔۔
 
نوازش جناب کی۔
ان اشعار کی نشاندہی بھی کر دیں تاکہ درست کر سکوں۔۔۔
یہ میرا مقام تو نہیں لیکن چونکہ میں نے ایسا تبصرہ کر دیا ہے تو پھر بطور نمونہ دو چار اشعار کی نشاندہی کردیتی ہوں کہ جہاں میری دانست میں زبان و بیان کی گرفت کمزور ہے ۔

کیا ایسا عجب تجربہ تم کو بھی ہوا ہے؟
دھندلی سی ہو اک یاد، نہ نکلے جو زباں سے؟

یاد ذہن سے تو نکل سکتی ہے زبان سے کس طرح؟ شاید آپ زبان سے ادا ہونا کہنا چاہ رہے ہیں ۔
اک یاد ہو دھندلی جو ادا ہو نہ زباں سے
------------------------------------------------------------
اِس ظرفِ سخن، حسنِ سماعت، سے بھی لے پوچھ!
کیا ایسے سنے تھے کبھی الفاظ زباں سے؟

دوسرے مصرع کو " اس ظرفِ سخن ، حسن ِ سماعت سے بھی پوچھو " کہنے میں کیا ہرج ہے ؟
---------------------------------------------------------------
پرسوز وہ آواز، حسیں گیت، جواں دھن
اور مستی کا عالم وہ کہ باہر ہے بیاں سے

اس کو اگر یوں کہیں تو زیادہ رواں ہے ۔

آواز تھی پرسوز ، حسیں گیت، جواں دھن
مستی کا وہ عالم کہ جو باہر ہے بیاں سے
------------------------------------------------------------------------
کہنے کو تو اب ہوش ہے، لگتا ہے مگر یوں
وہ خواب سا اب تک ہے، وہ لمحے ہیں رواں سے !

دوسرے مصرع کو اگر یوں کہیں تو میری دانست میں زیادہ رواں ہے
باقی ہے ابھی خواب ، وہ لمحے ہیں رواں سے

براہِ کرم اس کو تنقید یا اصلاح کی کوشش نہ سمجھئے گا ۔ چند باتیں جو میری سمجھ میں آئیں وہ لکھ دی ہیں ۔ میں خود ابھی طفلِ مکتب ہوں ۔ بس یہ ہے کہ کوئی پہلو ایسا نظر آئے تو بتانے میں ہرج نہیں سمجھتی کہ اسی طرح فن نکھرتا ہے ۔ :):)
 
یہ میرا مقام تو نہیں لیکن چونکہ میں نے ایسا تبصرہ کر دیا ہے تو پھر بطور نمونہ دو چار اشعار کی نشاندہی کردیتی ہوں کہ جہاں میری دانست میں زبان و بیان کی گرفت کمزور ہے ۔

کیا ایسا عجب تجربہ تم کو بھی ہوا ہے؟
دھندلی سی ہو اک یاد، نہ نکلے جو زباں سے؟

یاد ذہن سے تو نکل سکتی ہے زبان سے کس طرح؟ شاید آپ زبان سے ادا ہونا کہنا چاہ رہے ہیں ۔
اک یاد ہو دھندلی جو ادا ہو نہ زباں سے
------------------------------------------------------------
اِس ظرفِ سخن، حسنِ سماعت، سے بھی لے پوچھ!
کیا ایسے سنے تھے کبھی الفاظ زباں سے؟

دوسرے مصرع کو " اس ظرفِ سخن ، حسن ِ سماعت سے بھی پوچھو " کہنے میں کیا ہرج ہے ؟
---------------------------------------------------------------
پرسوز وہ آواز، حسیں گیت، جواں دھن
اور مستی کا عالم وہ کہ باہر ہے بیاں سے

اس کو اگر یوں کہیں تو زیادہ رواں ہے ۔

آواز تھی پرسوز ، حسیں گیت، جواں دھن
مستی کا وہ عالم کہ جو باہر ہے بیاں سے
------------------------------------------------------------------------
کہنے کو تو اب ہوش ہے، لگتا ہے مگر یوں
وہ خواب سا اب تک ہے، وہ لمحے ہیں رواں سے !

دوسرے مصرع کو اگر یوں کہیں تو میری دانست میں زیادہ رواں ہے
باقی ہے ابھی خواب ، وہ لمحے ہیں رواں سے

براہِ کرم اس کو تنقید یا اصلاح کی کوشش نہ سمجھئے گا ۔ چند باتیں جو میری سمجھ میں آئیں وہ لکھ دی ہیں ۔ میں خود ابھی طفلِ مکتب ہوں ۔ بس یہ ہے کہ کوئی پہلو ایسا نظر آئے تو بتانے میں ہرج نہیں سمجھتی کہ اسی طرح فن نکھرتا ہے ۔ :):)
ماشا اللہ۔
یہ ہوئی نا بات۔
پہلی بات تو یہ کہ یہاں ہم سب سیکھنے سکھانے کے لئےہی آتے ہیں۔ سو شرم اور جھجھک کیسی؟
دوسری بات یہ کے آپ کی تمام تجاویز عمدہ اور بہترین ہیں۔
بس "اور مستی کا عالم وہ کہ باہر ہے بیاں سے" میں مجھے روانی زیادہ محسوس ہوئی۔
باٖقی تجاویزنظم میں شامل کر رہا ہوں۔
جزاک اللہ۔
 
تشنہ یاد

کچھ واقعے ہوتے ہیں عیاں سے نہ نہاں سے
اس ذہن میں پھرتے ہیں مگر بن کے دھواں سے

کیا ایسا عجب تجربہ تم کو بھی ہوا ہے؟
اک یاد ہو دھندلی جو ادا ہو نہ زباں سے!

لو تم کو سناتا ہوں مرے ساتھ ہوا کیا!
اک نغمے کی روداد جو بڑھ کر ہے بیاں سے

اُس شام ٹہلتا ہوا میں گاؤں سے نکلا
اور گانے کی آواز سنی ایک مکاں سے

آواز تھی پرسوز ، حسیں گیت، جواں دھن
اور مستی کا عالم وہ کہ باہر ہے بیاں سے

اس گیت سے مسحور زمیں اور سماوات
اک سحر کہ الجھا دے برہمن کو بتاں سے

کچھ رنگ وہاں سے بھی تھے آواز میں شاید
بھنورے زرِ گل لے کے نکلتے ہیں جہاں سے!

وہ گیت وہ آواز مری روح پہ چھائی
بے خود تھا میں، لگتا تھا کہ ہوں اور زماں سے!

اس ظرفِ سخن ، حسن ِ سماعت سے بھی پوچھو!
کیا ایسے سنے تھے کبھی الفاظ زباں سے؟

کہنے کو تو اب ہوش ہے، لگتا ہے مگر یوں
باقی ہے ابھی خواب ، وہ لمحے ہیں رواں سے !

اک طرفہ تماشہ ہے کہ اب یاد نہیں کچھ
اس گیت سے، جو حسن میں بڑھ کر تھا بتاں سے

صد حیف کہ میں بول وہ سب بھول گیا ہوں!
الفاظ، جو تاثیر میں بڑھ کر تھے بیاں سے

دستک، کبھی آہٹ، کوئی جھونکا، کبھی خوشبو
اس کے ہی اشارے ہیں، گزرتا ہے گماں سے

الفاظ تو مانوس تھے اور ذہن میں میرے
رہ رہ کے چمکتے ہیں، مگر دور زباں سے

کوشش تو بہت کی ہے مگر جوڑ نہ پایا
اب بول وہ بھولے ہوئے میں لاؤں کہاں سے

اس بھولے ہوئے گیت نے، اس یاد نے چھوڑی
اک تشنگی ایسی کہ جو باہر ہے بیاں سے

صفحات پہ لکھ ڈالوں میں اس گیت کو، شاید
قرطاس پہ آ جائے نکل کر وہ گماں سے

ہر لفظ کو امیّد سے لکھ کر میں یہ چاہوں
کاشف ہو وہ اسرار عیاں میری زباں سے

سید کاشف

شکریہ
 
Top