تشویش میں ہے بلبلِ شیدا کئی دن سے - اصغر حسین خاں نظیر لُدھیانوی

کاشفی

محفلین
غزل
(اصغر حسین خاں نظیر لُدھیانوی)

تشویش میں ہے بلبلِ شیدا کئی دن سے
گلشن میں نہیں زمز مہ پیرا کئی دن سے

مضطر ہے بغل میں دلِ شیدا کئی دن سے
بیٹھا ہوں تری یاد میں تنہا کئی دن سے

ہاں قلب کا ہر ذرہ ہے پیاسا کئی دن سے
ہاں ابرِ کرم کی ہے تمنا کئی دن سے

ہر چند کہ خلوت میں ہے وامق کا تصور
پر گھر سےنکلتی نہیں عذرا کئی دن سے

ہر چند کہ مجنوں کی صداؤں سے ہے بیکل
پردے کو الٹتی نہیں لیلٰی کئی دن سے

ہر شب کو ضیا ریز ہے حسن مہ کنعاں
پنہاں ہے شبستاں میں زلیخا کئی دن سے

میں شام و سحر نالہ کناں ہوں پسِ دیوار
ہے زاویہ افروز سویدا کئی دن سے

ہر چند کہ ہے آرزوے جلوہ نمائی
مستور ہے وہ شاہد رعنا کئی دن سے

جس نخل پہ پڑتی ہے نظر میری چمن میں
ہوتا ہے مجھے آپ کا دھوکا کئی دن سے

اے صبحِ درخشا ں تجھے معلوم نہیں ہے
ہے مجھ پہ مسلط شب یلدا کئی دن سے

ہر صبح نظر آتی ہے اک تیری جھلک سی
اب ہے یہی جینے کا سہارا کئی دن سے

ہے کتنی نظیر اُس کی جدائی میں اُداسی
گھر میرا نظر آتا ہے صحرا کئی دن سے
 

فاتح

لائبریرین
عمدہ انتخاب ہے۔ شکریہ کاشفی صاحب۔
ذیل کے مصرع کو دیکھیے گا کہ کیا یوں ہی ہے؟
ہر صبح نظر آتی ہے اک نظر تیری جھلک سی
 
Top