میں فاتح عالم ہوں... صدیوں کا راکب ہوں
مٹی کا سفینہ ہوں.... پانی پہ روانہ ہوں
ہے چشم تماشائی.... حیرت سے تعاقب میں
نگران نگاہیں بھی.... تکتی ہیں مری چھب کو
نہیں تخت پہ بیٹھا میں .. بٹھایا ہے فلک نے خود
جھنڈا ہے نیابت کا .... میرے ہاتھوں کا حلقہ ہے
میرے لشکر عسکر ہیں سارے....شجر، حجر اور سیارے
میں پسر ہوں آدم کا .... اور جایا حوا کا
ہر ہستی کو جِلا دینے.... اس بستی کو بسا دینے
آیا ہوں پھر سے میں...اُس مستی کو ہوا دینے
نغمہ جو سناتی تھی..... الست کے تاروں پہ
سچائی عَلَم میرا... فطرت ہے پناہ میری
میرا میمنہ میسرہ ہیں سارے
یہ ست رنگوں کے فوارے
عصمت عفت سُر دھارے
قلم کمان اور رنگوں سے..... محبت کے دھیمے آہنگوں سے
دیواروں سے اداسی چھینوں گا.... یہ جالے تالے اتریں گے
پھر مہک اٹھیں گے چمنستاں.... پھر غرفہ یہ رشنائے گا
بوریت کا بوریا سمٹے گا... اور آنگن آنگن مہکے گا
میں پسر ہوں ابا آدم کا
اور کشتی نوح پیمبر کی ....
مصور.... نامعلوم
نام نہاد کیپشن.... فلک شیر