طالوت آپ نے صحیح تشخیص کی ہے ۔میں ذرا بڑی چھلانگ لگا گیا۔ ذرا واپس آتے ہیں ۔اسلام اجتماعیت کا نام ہے نہ کہ انفرادیت کا ۔ یعنی اسلام کی اصل روح اس معاشرے کی تکمیل ہے جہاں انسانوں کو حکومت الہی کے تحت بسایا جائے ان سے معاملات کئے جائیں ۔ جبکہ صوفیت کا کردار کلی طور پر فرد کے لئے ہے نہ کہ معاشرے کے لئے ۔ اگر دلیل یہ دی جائے کہ صوفیا فرد کی تربیت کر کے اس سے ایک متوازن معاشرہ تشکیل دیتے ہیں تو یہ مفروضہ ہی غلط ہو جائے گا کہ آج تک کوئی صوفی اس کام کو انجام نہ دے سکے ۔ اور سب سے اہم چیز ہے کہ صوفیت کا تصور نہ تو محسن انسانیت کے یہاں ملتا ہے اور نہ ان کے رفقاء کے یہاں ۔ ہمیں کہیں بھی یہ اعلٰی ہستیاں گوشہ نشین نظر نہیں آتیں ۔ بلکہ ان کا کردار چند افراد کی تربیت ، پھر اس سے ایک حکومت الہٰی اور اس کے ذریعے سے ایک مکمل متوازن معاشرے کی تشکیل نظر آتی ہے۔ جبکہ صوفیت اس سے قطعی طور پر محروم ہے ۔ پھر انھیں کامیاب قرار دینا ایک مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
وسلام
دین بذات خود دو مقاصد رکھتا ہے یعنی دین تزکیہ نفس کے ساتھ معاشرے کی اصلاح اور تربیت کے مواقع بھی پیدا کرتا ہے ۔اس حوالے سے دین کی حیثیت انقلاب کی سی ہے ۔ اور انقلاب کے لیئے ضروری ہے کہ اس میں ٹہراؤ نہ آئے ، جمود کا شکار نہ ہو ۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جتنے بھی انقلابات دنیا میں آئے ۔ خواہ وہ مذہبی ہوں یا معاشی ، وہ انتشار کا شکار ہوئے ۔ ان پر جمود کا غلبہ ہوا ۔ اسی نتیجے میں فرقہ پیدا ہوئے ۔ مختلف مکتبِ فکر کا وجود پذیر ہوا ۔ اختلافِ رائے نظر آئے ، اور وقت گذرنے کیساتھ ساتھ معاشرے میں بھی بہت سی تبدیلوں نے جنم لیا ۔ حکومتوں نے بھی اپنے رنگ بدلے ۔ مثال کے طور پر خلافتِ راشدہ ملوکیت میں تبدیل ہوگئی ۔ جبر اور استبداد کا عمل شروع ہوگیا ۔اس دوران جتنے بھی عالم اور مبلغ تھے ۔ ان ایک بڑی صف ملوکیت اور بادشاہت کے زیرِ اثر آگئی ۔ جس سے کئی قسم کے رویوں پیدا ہوئے ۔ جس میں اک رویہ صوفی ازم کا رویہ ہے ۔ اور میرا خیال ہے تاریخی طور پر صوفی ازم کو صوفی ازم بھی کہنا ٹھیک نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ کوئی یونیفائید یا آرگنائزیڈ تحریک نہیں ہے ۔ اس کا کوئی مستقل ایجنڈا نہیں ہے جو اس انقلاب کو بڑھانے میں معاون ہوسکے یا ان مقاصد کو جس کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ۔ لہذا تزکیہ نفس اس حوالے سے ایک معمولی بات رہ جاتی ہے ۔ جب معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہو ۔ دین کے راستے سے لوگ ہٹ رہے ہوں ۔ یعنی آپ اپنے مقصدِ اولیٰ سے ہٹ جاتے ہیں تو ذاتیات میں جو تزکیہ نفس ہے ۔ اس کا کیا مقصد رہ جاتا ہے ۔ صوفیوں کے ہاں اجتماعیت کے مسائل کبھی بھی زیرِ بحث نہیں آئے ۔ یعنی جب اسلامی معاشرہ دورِ انحطاط میں تھا ۔ جبر و استبداد دین اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہے تھے ۔ اس وقت صوفیاء نے دین کی اشاعت و ترویح اور معاشرے کی اصلاح کا کام نہیں کیا ۔ صرف تزکیہ ِ نفس پر اکتفا کیا ۔ جو کہ سو فیصد انفرادی عمل تھا ۔ وہ دین کی ان توجہات اور تشریحات میں الجھے رہے جن میں کسی کو بھی اختلاف نہیں تھا ۔ ان توجہات اور تشریحات پر تو جابر حکمران بھی اختلاف نہیں رکھتے تھے کہ ہم قرآن یا رسالت وغیرہ کو نہیں مانتے ۔ لہذا جو کیا جارہا تھا وہ دین کے مقصدِ اولیٰ یا بنیادی مقاصد سے مکمل انحراف تھا ۔