طارق اقبال
محفلین
تصوف کی کہانی قدرت اللہ شہاب کی زبانی
قدرت اللہ شہاب پاکستان کے قیام سے قبل بطور آئی سی ایس آفیسر ہندوستان میں مختلف عہدوں پر تعینات رہے ہیں ۔پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد وہ پاکستان تشریف لے آئے اور صدرمحمد ایوب کے دور تک وہ اعلی عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں ۔اپنی زندگی کے ان اہم ادوار کو انہوں نے اپنی مشہورِزمانہ کتاب ”شہاب نامہ “ میں بڑی تفصیل سے بیان کیاہے جو تاریخ کے قاری کے لیے نہائت معلومات افز ا ہے ۔ شہاب نامہ مجموعی طور پر پاکستان کی سیاست کے گرد گھومتا ہے مگر اس کا آخری باب ”چھوٹا منہ بڑی بات “جہاں مروجہ سلسلہ تصوّف سے ان کی مذہبی و جذباتی وابستگی کا اظہارکرتاہے وہیں وہ اس کی مختلف ناقابل فہم گھتیوں کو سلجھانے کی ناکام کوشش کرتے نظرا ٓتا ہے ۔ہمارامضمون بھی ان کی کتاب کے اسی باب سے متعلق ہے۔یوں تو تصوف کے دفاع اور اس کے رد میں اہل علم نے سینکڑوں کتابیں تصنیف کرڈالی ہیں جن کو پڑھ کر حق کے متلاشی کو راہ راست نصیب ہو سکتاہے ۔تاہم میرے اس مضمون کا مقصد ایک عام آدمی پر پڑنے والے تصوف کے تباہ کن اثرات و نتائج سے عوام الناس کو آگاہ کرناہے تاکہ وہ بذات ِخود اچھے اوربرے میں تمیزکرنے کے قابل ہو سکیں۔
قارئین کرام : درج ذیل تما م کہانی اوربیانات قدرت اللہ شہاب کے ہی ہیں جن کو میں نے انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ ضروری مقامات پر میرا مختصرتبصرہ صرف بریکٹ میں ہوگاتاکہ ان کی تحریر اور میرے تبصرے میں انفرادیت برقرار رہے اور قارئین کو حقائق کے سمجھنے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔
(قدرت اللہ شہاب تصوف کو آسان لفظوں میں سمجھاتے ہوئے رقمطراز ہیں )اپنے ظاہر اورباطن کو شریعت کی راہ پر توازن اور اعتدال سے چلانے ہی سے عبدیت کا سفر طے ہوتاہے اگر عبدیت میسر ہوجائے تو ولایت ،اوتادیّت،ابدالیت ،قطبیت ،غوثیت وغیرہ سب اس پر قربان ہیں۔
ایک غلط فہمی یہ عام ہے کہ یہ تصوّف کے مسائل ہیں ۔دراصل یہ تصوّف کے نہیں بلکہ شریعت کے مسائل ہیں۔دین کی اصلی شاہرہ شریعت ہے ۔تصوّف کے سارے سلسلے چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیاں ہیں جو اپنے اپنے طریق سے انجام کار شریعت کی شاہراہ سے جاکر مل جاتی ہیں۔ان پگڈنڈیوں کی اپنی کوئی الگ منزل ِمقصود نہیں۔ان سب کی مشترکہ اورواحد منزل ِمقصود شاہراہ شریعت تک پہنچانا ہے (یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔ایک حدیث مبارکہ کامفہوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کے سامنے ایک سید ھا خط کھینچا اور پھراس کے اطراف چند ٹیڑھی او ر ترچھی لائنیں لگائیں اور صحابہ سے فرمایا کہ یہ سیدھا خط صراط مستقیم ہے جبکہ ترچھی لائنیں گمراہی کے راستے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تصوف کی یہ چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیاں انسان کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیتی ہیں جس کا اعتراف قدرت اللہ شہاب نے بھی اگے چل کر کیاہے) ۔ اس شاہراہ پر مزید سفر کرنے سے وہ راہ سلوک طے ہوتی ہے جس کا مقصد نسبت ِباطنی ،نسبتِ مع اللہ ،معرفت الہیٰ اور رضاءالہیٰ کا حصول ہے ۔کچھ لوگ ہمت مردانہ رکھتے ہیں اور خودبخود راہ ِ شریعت پر گامزن ہوکر زندگی کا سفر بغیر کسی تکان،ہیجان اورخلجان کے پورا کرلیتے ہیں۔ ان کی خوش قسمتی قابلِ رشک ہے اور میں انہیں دلیِ عزت واحترام سے سلام کرتاہوں۔
لیکن بعض لوگ ایسے ہیں جن کے قدم شریعت کی راہ پررواں ہونے سے ہچکچاتے اور ڈگمگاتے ہیں،جس طرح کچھ بچے سکول میں داخل ہونے کے بعد پڑھنے سے گھبراتے اور کتراتے ہیں۔ان کے علاج کے لیے تعلیمی ماہرین نے کنڈرگارٹن (Kindergarten) اور مونیٹسوری (Montessori) سکول ایجاد کیے ۔جن میں بچوں کو کھیل کود اور کھلونوں وغیرہ سے بہلا پھسلا کر پڑھنے لکھنے سے مانوس کیا جاتاہے ،یہ صرف چھوٹی جماعتوں کے سکول ہوتے ہیں۔ان کا مقصد یہ ہوتاہے کہ بچوں کا رجحان لکھنے پڑھنے کی طرف مائل کرکے وہ انہیں معاشرے کے عام تعلیمی نظام میں شامل کردیں۔ تصوّف کے سلسلے بھی ایک طرح کے کنڈر گارٹن اور مونیٹسوری سکولوں کی مانند ہیں جو شریعت سے بھٹکے ہوئے بندوں کو طرح طرح کے اذکار ،اشغال اور مراقبات کے انوار و آثار وتجلّیات وبرکات سے چکا چوند کرکے انہیں شاہراہ شریعت پر خوشدلی سے گامزن ہونے کے قابل بنادیتے ہیں ،اس کے علاوہ تصوّف کا اور کوئی مقصود نہیں۔۔۔۔۔۔
(اب قدر ت اللہ شہاب بتا رہے ہیں کہ و ہ تصوف کی طرف کس طرح مائل ہوئے )لیکن ایک بار پھر میری خوش قسمتی آڑے آئی ۔اتفاق سے حضرت شہاب ُا لدّین سہروردی ؒ کی تصنیف ”عوارف المعارف “ کہیں سے میرے ہاتھ آ گئی ۔ بے حد دقیق کتاب تھی۔میں نے اسے کئی بار پڑھا ،لیکن کچھ پلّے نہ پڑا،لیکن اتنا ضرور ہوا کہ میری سوچ کے ظلمت کدے میں ایک نیا روشندان کھل گیا ۔ا س کے بعد میں نے حضرت غوث الاعظم ؒ سے لے کر مولانا اشرف علی تھانوی ؒ تک درجنوں ایسی کتابیں کھنگال ڈالیں جو ان بزرگان ِ شریعت وطریقت کی اپنی تصانیف تھیں یا دوسروں نے ان کے حالات یا ملفوظات یا تعلیمات قلمبند کر رکھی تھیں ۔اس عملی ذخیرہ نے مجھے طریقت کے چاروں بڑے سلسلوں اور ان کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے ضمنی سلسلوں کے بارے میں کافی آگاہی بخشی ،لیکن ساتھ ہی ایک الجھن بھی میرے دِل میں پیداہوگئی ۔یہ الجھن تلاشِ مرشد یا تلاشِ شیخ کے بارے میں تھی ۔طریقت کے سارے سلسلوں میں ایک بات مشترک تھی وہ یہ کہ اس راستے پر قدم اٹھانے سے پہلے کسی مرشد کو اپنا رہنما بنانا لازمی ہے ۔
مجھے یقین تھا کہ میرے آس پاس اور ارد گرد بہت سے ایسے بزرگان ِدین اور پیر ِطریقت موجود ہوں گے جنہیں میرا مرشد بننے کا حق حاصل تھا لیکن مرید کے طورپر اپنے شیخ کے سامنے بلاسوال جواب مکمل ذہنی اطاعت قبول کرنے کی جو شرط لازمی تھی اسے نبھانا میرے بس کا روگ نہ تھا(ایسی اطاعت کے لائق صرف رسول اللہ ﷺ ہیں او رکوئی نہیں )،اس لیے میں نے تلاِش شیخ کے لیے کوئی خاص کوشش نہ کی بلکہ اپنی نگاہ سلسلہ اویسیہ پر رکھی جس کے بارے میں بہت سے بزرگان ِ سلف کی تصنیفات میں چھوٹے چھوٹے اشارے ملتے تھے لیکن کہیں یہ درج نہ تھا کہ اس سلسلہ میں قدم رکھنے کے لیے کون سا دروازہ کھٹکھٹایا جاتاہے اور نہ یہ معلوم تھا کہ اس میں داخل ہونے کے کیاکیا قواعد وضوابط اورآداب ہیں لیکن ایک بار پھر یونہی بیٹھے بٹھائے خوش قسمتی کی لاٹری میرے نام نکل آئی ۔
ایک بار میں کسی دور دراز علاقے میں گیا ہوا تھا وہاں پر ایک چھوٹے سے گاوں میں ایک بوسیدہ سی مسجد تھی۔میں جمعہ کی نماز پڑھنے اس مسجد میں گیا ہوا تھا ،تو ایک نیم خواندہ سے مولوی صاحب اردو میں بے حد طویل خطبہ دے رہے تھے ۔ان کا خطبہ گزرے ہوئے زمانوں کی عجیب وغریب داستانوں سے اٹااٹ بھرا ہوا تھا ۔کسی کہانی پر ہنسنے کو جی چاہتا تھا ،کسی پر حیرت ہوتی تھی ،لیکن ایک داستا ن کچھ ایسے انداز سے سنائی کہ تھوڑی سے رقت طاری کرکے وہ سیدھی میرے دل میں اتر گئی ۔یہ قصہ ایک باپ اور بیٹی کی باہمی محبت واحترام کا تھا۔باپ حضرت محمد ﷺ تھے اور بیٹی حضرت بی بی فاطمہؓ تھیں۔مولوی صاحب بتا رہے تھے کہ حضور رسولِ کریم ﷺ جب اپنے صحابہ کرام ؓ کی کوئی درخواست یافرمائش منظور نہ فرماتے تھے تو بڑے بڑے برگزیدہ صحابہ کرام ؓ بی بی فاطمہ ؓ کی خدمت میں حاظر ہو کر ان کی منّت کرتے تھے کہ وہ ان کی درخواست حضور ﷺ کی خدمت میں لے جائیں او راسے منظور کروالائیں ۔حضور نبی کریم ﷺ کے دِل میں بیٹی کا اتنا پیار اور احترام تھا کہ اکثر اوقات جب
بی بی فاطمہ ؓ ایسی کوئی درخواست یا فرمائش لے کر حاضر خدمت ہوتی تھیں تو حضور ﷺ خوش دلی سے منظور فرما لیتے تھے ۔ ا س کہانی کو قبول کرنے کے لیے میرا دل بے اختیار آمادہ ہو گیا۔
جمعہ کی نماز کے بعد میں اسی بوسیدہ سی مسجد میں بیٹھ کر نوافل پڑھتا رہا۔کچھ نفل میں نے حضرت بی بی فاطمہ ؓ کی روح مبارک کو ایصالِ ثواب کی نیّت سے پڑھے ۔پھر میں نے پوری یکسوئی سے گڑگڑا کر یہ دعا مانگی،”یا اللہ میں نہیں جانتا کہ یہ داستان صحیح ہے یا غلط لیکن میرا دل گواہی دیتاہے کہ تیرے آخری رسول کے دل میں اپنی بیٹی خاتون ِ جنت کے لیے اس سے بھی زیادہ محبت اورعزت کاجذبہ موجزن ہو گا۔اس لیے میں اللہ سے درخواست کرتاہوں کہ وہ حضرت
بی بی فاطمہ ؓ کی روح کو اجازت مرحمت فرمائیں کہ وہ میری ایک درخواست اپنے والد گرامی ﷺ کے حضور میں پیش کرکے منظور کروالیں(روحوں سے مدد مانگناچاہے اللہ کے واسطے سے ہی ہو،غیر اسلامی عقیدہ ہے مگراہل تصوف کے ہاں ایسا عقیدہ رکھناگویا شرط اولین ہے۔اس کے بغیر ان کی سلطنت دھڑام سے گر جائے گی ) ۔ درخواست یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ کا متلاشی ہوں ،سیدھے سادھے مروّجہ راستوں پر چلنے کی سکت نہیں رکھتا اگر سلسلہ اویسیہ واقعی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے تو اللہ کی اجازت سے مجھے اس سلسلہ سے استفادہ کرنے کی ترکیب اور توفیق عطافرمائی جائے۔
اس بات کا میں نے اپنے گھرمیں یا باہر کسی سے ذکر تک نہ کیا ۔چھ سات ہفتے گزر گئے اور میں اس واقعہ کو بھو ل بھال گیا ،پھر اچانک سات سمندر پار کی میری ایک جرمن بھابھی کا ایک عجیب خط موصول ہوا ۔وہ مشرف بہ اسلام ہو چکی تھیں اور نہایت اعلیٰ درجہ کی پابندِ صوم و صلوٰة خاتون تھیں ۔انہوں نے لکھا تھا:
The other night I had the good fortune to see''Fatima '' daughter of the Holy Prophet (peace be upon him)in my dream .She talked to me most graciously and said ,''Tell your brother-in-law Qudrat Ullah Shahab, that I have submitted his request to my exalted Father who has very kindly accepted it''.
اگلی رات میں نے خوش قسمتی سے فاطمہ ؓ بنتِ رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا انہوں نے میرے ساتھ نہایت تواضع او ر شفقت سے باتیں کیں اورفرمایا کہ اپنے دیور قدرت اللہ شہاب کو بتادو کہ میں نے اس کی درخواست اپنے برگزیدہ والد گرامی ﷺ کی خدمت میں پیش کردی تھی ۔انہوں نے ازراہ ِ نوازش منظور فرمالیا ہے“۔
یہ خط پڑھتے ہی میرے ہوش وحواس پر خوشی اورحیرت کی دیوانگی سی طاری ہوگئی ،مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدم زمین پر نہیں پڑرہے بلکہ ہوا میں چل رہے ہیں۔یہ تصور کہ اس برگزیدہ محفل میں ان باپ بیٹی کے درمیان میر ا ذکر ہوا ۔میرے روئیں روئیں پر ایک تیزوتند نشے کی طرح چھاجاتا تھا ،کیسا عظیم باپ ﷺ ! او ر کیسی عظیم بیٹی !دو تین دن میں اپنے کمرے میں بند ہو کر دیوانوں کی طرح اس مصرعہ کی مجسّم صورت بنا بیٹھا رہا ۔
ع۔ مجھ سے بہتر ذکر میراہے کہ اس محفل میں ہے !
اس کے بعد کچھ عرصہ تک مجھے خواب میں طرح طرح کی بزرگ صورت ہستیاں نظر آتی رہیں جن کو نہ تو میں جانتا تھا نہ ان کی باتیں سمجھ میں آتی تھیں اور نہ ان کے ساتھ میرا دل بھیگتا تھا پھر ایک خواب میں مجھے ایک نہایت دلنواز اور صاحب جما ل بزرگ نظرآئے جو احرام پہنے ایک عجیب سرور اورمستی کے عالم میں خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے ،میرا دل بے اختیار ان کے قدموں میں بچھ گیا ،وہ بھی مسکراتے ہوئے میری جانب آئے او رمطاف سے باہر حطیم کی جانب ایک جگہ مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اوربولے ”میر انام قطب الدّین بختیار کاکی ہے تم اس راہ کے آدمی تو نہیں ہو لیکن جس دربار گہر بار سے تمہیں منظوری حاصل ہوئی ہے اس کے سامنے ہم سب کا سر ِ تسلیم خم ہے “۔(تصوف کی دنیا میں ارواح نے ایک سلطنت قائم کررکھی ہے اس کے دربار میں ہر بزرگ کو اس کی حیثیت کے مطابق عہدے اور لا محدود اختیارات دیے جاتے ہیں جو نہ صرف اپنے مریدوں کے دلوں کے حالات کو جانتے ہیں بلکہ ان کی حاجت روای اور مشکل کشائی کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔العیاذ باللہ)
قطب الدّین بختیار کاکی صاحب نے ایک پیالہ ہمارے درمیان رکھا ،جس میں کھانے یا پینے کی کوئی چیز پڑی تھی ،انہوں نے اچانک فرمایا ۔”تم یہ زندگی چاہتے ہو یا وہ زندگی ؟“خواب میں بھی میرے دل کا چور انگڑائی لے کر بیدار ہو گیا اور اس نے مجھے گمراہ کیاکہ غالباً اس سوال میں فوری طور پر موت قبول کرنے کی دعوت ہے یعنی دنیاوی زندگی چاہتے ہو یا آخرت کی زندگی ،مجھے ابھی زندہ رہنے کا لالچ تھا اس لیے میں اپنے دل کے چور کی پیدا کی ہوئی بدگمانی کا شکار ہوگیا ۔
”حضر ت کچھ یہ زندگی چاہتا ہوں،کچھ وہ “
میرا یہ کہنا تھا کہ میرے بائیں پہلو کی جانب سے ایک کالے رنگ کا کتا ساجھپٹا ہو اآیا اور ا ٓتے ہی سامنے پڑے ہوئے پیالے میں منہ ڈال دیا ۔قطب صاحب مسکرائے او ربولے ،”افسوس یہ مفت کی نعمت تمہارے مقدرمیں نہ تھی ،تمہار ا نفس تم پر بُری طرح غالب ہے اس لیے مجاہدہ کرنا ہو گا “۔
اس کے بعدکئی ماہ تک نہ کوئی جواب آیا اورنہ ہی کسی قسم کا کوئی واقعہ رونما ہو ا
اسی عالم یا س و اضطراب میں تین سوا تین ماہ گزر گئے ،جو میرے باطنی وجود پر تین صدیوں کی طرح بھاری گزرے ۔ا سکے بعد اچانک 9جون کا مبارک دن طلوع ہو ا،یہ دن میری زندگی کے دو یا تین اہم ترین ایّام میں سے ہے ۔ا س روزمجھے اچانک ”نائنٹی“ Ninetyکا پہلا خط موصول ہوا ۔میں اسے فقط اسی کوڈ نام سے جانتا ہوں۔میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی مجھے یہ معلو م ہے کہ وہ کون ہے ؟کیا ہے؟اور کہاں ہے؟ہماری خط وکتابت بذریعہ ڈاک ایک بار ہوئی ہے ،صرف اس کا پہلا خط بذریعہ ڈاک آیا تھا ،لفافے پر ڈاکخانے کی جو مہر لگی ہوئی تھی وہ یوں تھی ۔
'' June 9,Jammu Market 9.30 a.m.''
ڈاکیہ اسی روز دن کے ساڑھے بارہ بجے یہ خط ڈِلِیور کر گیا تھا ،شہر کے پوسٹل نظام میں ایسا ممکن ہی نہ تھا کہ صبح ساڑھے نو بجے کا پوسٹ کیا ہوا خط اسی روز دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے مل بھی جائے۔تیرہ صفحات پر مشتمل اس خط میں میرے ظاہر وباطن کی ایسی ایسی باریک ترین خامیوں،کوتاہیوں اورکمزوریوں کو اس قدر تفصیل اور وضاحت سے بیان کیاگیا تھا جن میں سے بعض کا علم مجھے اورصرف میرے خدا کے علاوہ اورکسی کونہ تھااور بعض کا مجھے خود بھی پورا علم نہ تھا(انسان کے ظاہر و باطن کو اللہ تعالی ٰ کے سو ا کو ئی نہیں جانتا اس کے برعکس عقیدہ رکھنا سراسر شرک ہے )۔یہ خط اس طرز کی فصیح وبلیغ اور دقیق انگریزی زبان میں لکھا ہوا تھا کہ اسے سمجھنے کے لیے مجھے بار بار ڈکشنری کا سہار ا لینا پڑتا تھا(غالباًان دنوں تما م اردوجاننے والے بزرگ کافی مصروف ہوں گے یہی وجہ ہے کہ خواجہ بختیار کاکی صاحب نے کافی محنت یعنی تقریباً تین ماہ کے بعد ایک انگریز بزرگ کو قدرت اللہ شہاب صاحب کی تدریس کے لیے مقرر کیایاخواجہ صاحب نے خود وفات پانے کے بعد ارواح کی کسی یونیورسٹی سے انگلش میں ماسٹر کیاہوگا۔مولانااشرف علی تھانوی صاحب نے ارواح ثلاثہ حکایت نمبر 40 میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بمعہ صاحبین کے آسمان سے نازل ہو کر مدرسہ دیوبندکا حساب لینے آیاکرتے تھے او ر مولوی خلیل احمد صاحب مولف بزل المجھودفی حل ابی داود نے براہین قاطعہ نامی کتاب تالیف کی ہے اس کے صفحہ 30پرلکھتے ہیںایک صالح ،رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے تو آپ کو اردو میں کلام کرتے دیکھا کر پوچھا ۔آپ کو یہ کلام کہاں سے آگیا آپ تو عربی ہیں؟(آپ ﷺ نے ) فرمایا،جب سے علماءدیوبند کے مدرسے میں آنا جانا ہوا ہم کو یہ زبان آگئی )۔نصف خط اس تجزیے پرمشتمل تھا اور باقی کا نصف احکامات و ہدایات اور مستقبل کے لائحہ عمل سے پُر تھا۔آخر میں لکھنے والے کے نام کی جگہ فقط یہ درج تھا۔
'' A ninety years young fakir'' یعنی” ایک نوّے سالہ جوان فقیر “
اس خط میں ایک حکم یہ تھا کہ چند سوالات جو اس میں اٹھا ئے گئے تھے ،ان کا مکمل جواب انگریزی میں لکھ کر اسے اپنی کتابوں والی الماری کے کسی خانے میں رکھ دوں۔میں نے فوراً تعمیل حکم کردی ۔ چند لمحوں کے بعد الماری کے پٹ کھولے تو میرا لکھا ہوا خط وہاں سے غائب تھا۔اس خط کاجو جواب آیاوہ اسی شب میرے تکیے کے نیچے پڑا ہو املا۔جواب کے آخر میں”ایک نوے سالہ جوان فقیر “کی جگہ فقط ایک لفظ Ninety (نوّے)درج تھا۔اس حیرت ناک واقعہ سے میرے تن بدن پر شدید ہیبت اور گھبراہٹ طاری ہوگئی ،کچھ عرصہ مجھ پر نیم بے ہوشی کا سا عالم طاری رہا،میری بے بسی اوربے کسی پر ترس کھا کر ”نائنٹی “ نے آئندہ سے میرے چھوٹے بھائی حبیب اللہ شہاب کو بھی میرا رفیق ِکار بنادیا،حبیب کی رفاقت میرے لیے سونے پر سہاگہ ثابت ہوئی ۔
اس کے بعد کم وبیش پچیس برس تک ہمارے درمیان اس عجیب وغریب خط وکتابت کا سلسلہ قریباًقریباًروزانہ جاری رہا۔بعض اوقات ہمارے درمیان خطوط کی آمدورفت دِن اوررات کے دوران دو دو ،تین تین یا چار چار بار تک بھی پہنچ جاتی تھی ،حبیب ہمار ا پوسٹ آفس تھا ،ہمار ا لیٹر بکس کبھی الماری ہوتی تھی ،کبھی اپنی جیب کبھی کوئی کتاب یا کاپی یا کبھی یونہی سرِراہ چلتے چلتے ”نائنٹی“کے تحریر کردہ خطوط ہوا کے دوش پر سوار پھول کی پتّیوں کی طرح سر پر آلگتے تھے۔(یادرہے کہ شہاب صاحب کسی بزرگ کا تذکرہ کررہے ہیں ،جن کانہیں)
حکم یہ تھا کہ اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہر تحریر کو جلد ازجلد تلف کردیاجائے۔البتہ اتنی اجازت ضرور تھی کہ اس کے احکامات اور اس کی ہدایات کو اپنے طور پراپنے الفاظ میں اس طور پر بے شک محفوظ کرلوں گاکہ اگر یہ کاغذات کسی اور کے ہاتھ لگ جائیں،تو یہ سب باتیں محض پراگندہ خیالی اور بے معنی رطب ویابس نظر آئیں(یہ کونسی ہدایات ہیں کہ جن کو دوسروں سے چھپانے کا حکم دیا جارہا ہے ۔ قرآن وحدیث تو ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو بے معنی رطب ویابس ہو)۔فقط ایک بار چھوڑکرمیں اس حکم کو بھی پوری پوری پابندی سے بجالاتا رہا۔
ایک روز میرے دل میں لالچ آیاکہ میں اپنے گمنام اور نادیدہ خضرراہ کاکم ازکم ایک دستخط Ninety اس کے کسی خط سے پھاڑ کر نشانی اور برکت کے طور پر اپنے پاس محفوظ کرلوں۔یہ خیال آنا تھا کہ سزا ک اتازیانہ فوراً نازل ہو گیا۔رات کاوقت تھا ،بجلی کے بلب کے اردگردچند پروانے منڈلارہے تھے،دیکھتے ہی دیکھتے وہاں پر ایک کاغذ منڈلانے لگااورآہستہ آہستہ بل کھاتا ہوا نیچے میری گود میں آگرا۔اس میں تحریر تھا کہ حکم عدولی کا یہ منصوبہ فوری سزا کا مستحق ہے سزا یہ تجویز ہوئی کہ بتیاں چند لمحوں کے بعد اپنے آپ گل ہوجائیں گی اور میرے دونوں ہاتھ اور دونوں پاوں نصف گھنٹہ تک ایک ایک زندہ سانپ سے باندہ کررکھے جائیں گے۔اس خوفناک سزا کا فیصلہ سن کر میں بے اختیار روپڑا۔میں نے جلدی جلدی اپنے ارادہ سے توبہ کی ۔دل کی گہرائیوں سے معافی مانگی اور غالب کا یہ شعر انگریزی ترجمہ کے ساتھ لکھ کر الماری میں رکھ دیا۔
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گنہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں
دیکھتے ہی دیکھتے بجلی کے بلب کی جانب سے نائنٹی کاجواب لہراتا ہوا میرے ہاتھ میں آیا جس میں تحریر تھا،”ہاہاہا“۔بس دو زندہ سانپوں کے تصور سے ڈر گئے۔بزدل ہو۔چلو معاف کیا ۔لیکن یہ بات ہرگز نہ بھولوکہ قبر میں دیگر حشرات الارض کے علاوہ زندہ سانپ بھی موجود ہوں گئے،وہاں پر نہ توبہ کرنے کاوقت ہوگا اور نہ ہی توبہ قبول ہوگی ۔اوغافل بندے ،تجھے کیا معلوم کہ دن رات تمہارے بدن اور باطن کے ساتھ کتنے خوفناک اژدہے زبانیں نکال نکال کر لپٹے رہتے ہیں اور وقت آنے پر زیر ِزمین کتنے اژدہے بے تابی سے تمہارا انتظارکررہے ہیں،کاش کہ تم لوگ جانتے ،نائٹی“
ایک روز میں نے اپنے رہنما سے دریافت کیا ۔”آپ کون ہیں،کہاں ہیں ؟کیاکرتے ہیں ؟اور روحانیت کے کس مقام پر فائز ہیں؟“
جواب ملا۔”پہلے تین سوال فضول ہیں،ان کا جواب تمہیں کبھی نہیں ملے گا ،باقی رہی روحانیت کے مقام کی بات ،اس طویل راستے پرکہیں کہیں گھاٹیاں اورکہیں کہیں سنگ ِمیل آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں ۔منزل یامقام کا کسی کو علم نہیں ۔اس سڑک پر سب راہی ہیں۔کوئی آگے کوئی پیچھے ۔منزل صرف ایک بشر کو ملی ہے جس کے بعد اور کوئی مقام نہیں۔ اس بشر کا نام محمد ﷺہے تم اس کا نام رٹتے تو بہت ہو لیکن کیا کبھی اس کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش بھی کی ہے؟اگرایسا کرتے تو آج ایک کچی دیوار پر گوبر کے اُپلے کی مانند چسپاں نہ ہوتے جس پر مکھیاں تک بھنبھنانا چھوڑدیتی ہیں “۔
یہی میرا سلسلہ اویسیہ تھا ،جس کی رہنمائی میں اس گنہگارنے راہِ سلوک پر چند قدم ڈگمگانے کی سعادت حاصل کی(تصوف کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ زندہ بزرگوں کی بجائے مردہ بزرگوں میں طاقت اور صلاحتیں لامحدود ہوجاتی ہیں۔ان کی روحیں اپنے مریدوں کی پکارلاکھوں ،ہزاروں میل سے ناصرف سنتی ہیں بلکہ ان کی قدم قد م پر رہنمائی اور مد د کرتی ہیں۔استغفراللہ العظیم) ۔زندگی کے اس طرح کے باطنی تجربات اور مشاہدات کو بیان کرنے کی سکت مجھ میں نہیں ،البتہ مختصر طورپر ان کا تھوڑا سا ذکر کرتاہوں ۔یہ موضوع میرے لیے اجنبی ہے اس لیے اپنے بیان اور اظہار میں مَیں نے بزرگان سلف کی تصنیفات ،مکتوبات ،ملفوظات اور فرمودات کی زبان اورکلام سے بے دریغ استفادہ کیاہے ،تجربات اور مشاہدات میرے ہیں۔ان کا اظہار حتی الوسع ان کے الفاظ میں ہے تاکہ سہواً یا اپنی کم فہمی کی وجہ سے کوئی فاش غلطی نہ کر بیٹھوں۔
خاص طور پر یہ بات مجھ پر بالکل صاف اورواضح ہوگئی کہ سلوک یا تصوّف میں کسی قسم کا کوئی راز یا اسرار پوشیدہ نہیں ،اذکار،اشغال اورمراقبات وغیرہ کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں بلکہ عام طور پر جانے پہچانے معمولات ہیں جو ہر سلسلے میں اپنے اپنے طریق پر اظہر من الشمس ہیں البتہ اذکار ،اشغال اور مراقبات کے دوران سالک پر جو کیفیات اور مشاہدات اپنی اپنی استعداد کے مطابق وارد ہوتے ہیں ان کا ذکر کرنا بے معنی اور فضول ہے ۔ اس لیے ان کاذکر عام ِطور پر ممنوع قراردیا جاتاہے(چونکہ یہ تمام طریقے شریعت سے متصادم ہیں لہذا ان کے بھید کے کھل جانے کے ڈر سے ان کا ذکر ممنوع کردیا جاتاہے )۔اس کی مثال شادی کی ہے ،شادی کوئی خفیہ راز نہیں ،میاں بیوی کے رشتہ ءازدواج میں منسلک ہونے کے مقاصد ،عوامل او رعواقب سب پر روزِروشن کی طرح عیاں ہوتے ہیں۔لیکن حجلہ ءعروسی کی تفصیلی روئیداد کوئی بیان نہیں کرتااور نہ ہی زندگی بھرزن وشوہر کے خِلوت خانوں کی داستانیں برسرِ عام سنائی جاتی ہیں۔
شریعت کی طرف مائل کرنے کے لیے طریقت کاکنڈر گارٹن سکول لذت وسرور کے علاوہ بعض انتہائی خوشگواراور پرلطف انکشافات سے مالا مال ہوتاہے ۔سالکوں کی ایک بڑی تعداداس لذّت وسرور کی مستی میں محو ہوکر یہیں کی ہو رہتی ہے اور اپنے اصلی مقصد یعنی شریعت کی جانب قدم بڑھانے کی بجائے جمود کا شکار ہوکر اپنی منزل کھوٹی کر بیٹھتی ہے ۔یہ بدقسمت لوگ کہیں ڈبہ پیر بن کر ابھر تے ہیں، کہیں مصنوعی دکانیں سجاکر تصوّف کی بلیک مارکیٹ کرتے ہیں،کہیں طریقت کی آر میں شریعت کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں۔ان کی پیری فقیری جعلسازی کاگورکھ دھندا ہوتی ہے اوران کا سارا کاروبار مداریوں اوربازیگروں کی طرح شعبدہ بازی کا کرتب بن جاتا ہے ۔(شریعت کی صراط مستقیم کے بجائے چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں پر چلنے کا یہی انجام ہوتاہے )جو اس راہ میں ان پرکشش اور پرفریب گڑھوں میں منہ کے بل گرنے سے بچ جائیں ان کا انعام یہی ہوتاہے کہ چلتے چلتے انجام کار ان کے قدم شریعت کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں،سلوک اور تصوّف کا اس کے علاوہ اور کوئی نہ مقصد ہے نہ مفہوم۔
(ذکر واذکار کا تذکرہ کرتے ہوئے شہاب صاحب رقمطراز ہیں )ذکرکی کوئی حد نہیں۔نماز ،روزہ ،زکوٰة،حج سب کی حد ہے لیکن ذِکر لامحدود ہے ۔اللہ کے ذِکرمیں ایک عجیب توانائی ،لطیف نشاط اورعمیق سکون ہے ۔عام طور پر ذِکر کی چار قسمیں ہیں جنہیں آسانی سے آزمایا جا سکتاہے ۔اول ناسُوتی جیسے لا اِلہ اِلاَّاللہُ دوسرے ملکوتی جیسے اِلاَّاللہ،تیسرے جبروتی جیسے اَللہُ،چوتھے لا ہوتی جیسے ہُو، ہُو، زبان کے ذکرکو ناسوتی ،دل کے ذکرکو ملکوتی ،روح کے ذکرکو جبروتی اور سارے وجود کے اجتماعی ذکر کو لا ہوتی کہتے ہیں۔(شریعت میں ان ازکار کی قسموں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا)
ذکر کی ان چارقسموں میں بھی ایک ایک قسم کے کئی طریقے ہیں،جن طریقوں کی تھوڑی بہت مشق مجھے نصیب ہوئی ،ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں ۔
اسم ذات یعنی اَللہ اَللہ کا ذکر یک ضربی ،دو ضربی ،سہ ضربی اور چہار ضربی ۔اگر ا س ذکر کو ہر ضرب میں اس تصور کے ساتھ کیا جائے کہ جدھر منہ پھیرو ادھر ہی خدا ہے ،تو استغراق اور محویّت کی کیفیت پیدا ہوکر ہر شئے سے ذکر کی آواز سنائی دینے لگتی ہے اور قرآن مجید کے اس فرمان کی کامل تصدیق ہوجاتی ہے کہ دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو خداکی حمد کی تسبیح نہ کرتی ہو ۔حضرت داود ؑ کا یہ معجزہ تھا کہ جب وہ خود ذکر تے تھے تو پہاڑ اور طیور بھی ان کا ساتھ دیتے تھے۔
اسم ذات کا دوسرا ذکر پاس انفاس ہے ،سانس باہر کرتے وقت لفظ اللہ کو سانس میں لائے اور سانس کو لیتے وقت ھُوکو اندر لائے اور تصور کرئے کہ ظاہر وباطن میں ہر جگہ اللہ ہی کا ظہور ہے(صوفیا کہتے ہیں کہ انسان کے اندر جو روح ہے وہ اللہ کی روح ہے بلکہ کہتے ہیں یہ اللہ کی صفات میں سے اس کی ایک صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات غیر مخلوق ہیں اس لیے انسان کے اندر روح بھی ان کے نزدیک غیر مخلوق ہے اسی عقیدے کی بنا پر حسین بن حلاج نے خدائی کا دعویٰ کیاتھا۔چناچہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں کہ :لوگوں نے خدائی دعوے کیے ہیں مگر حسین بن منصور پر شبہ نہ کیا جائے کہ انہوں نے (اناالحق )میں خدائی دعویٰ کیا تھاکیونکہ ان پر ایک حالت طاری تھی ورنہ وہ عبدیت کے بھی قائل تھے چناچہ وہ نماز بھی پڑھتے تھے کسی نے پوچھا کہ جب تم خود خداہو نما ز کس کی پڑھتے ہو؟جواب دیا کہ میری دو حیثیتں ہیں ایک ظاہر ایک باطن،میر اظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتاہے (الافاضات الیومیہ جلد1 صفحہ 256)۔یعنی حلاج اپنے آ پ کو باطن میں خدامانتاتھا اور باطن سے مراد روح ہے ) ۔اس ذکر کی اس قدر غیر معمولی کثرت کرئے کہ سانس ہمہ وقت ذکرکی عادی ہوجائے،اس طرح پاسِ انفاس سے بہرہ ورہوکر قلب غیر اللہ سے صاف اور دیگر کدورتوں سے پاک ہو کر انور ِالہٰیہ کا محوربن جاتاہے ۔
نفی واثبات (لا اِلہ اِلاَّاللہُ )کو پاس ِانفاس میں رچانا ایک خوشگوارعمل ہے سانس لیتے وقت صرف سانس سے اِلاّ اللہ ُکہے اور سانس باہر آتے وقت لَا اِالٰہ کہے ،منہ بالکل بند رکھے اور زبان کو ادنیٰ حرکت بھی نہ دے اور اس قدر پاپندی اور استقلال سے کام لے کہ سانس خود بخود بِلاارادہ ذِکر کرنے لگے۔(شریعت میں ایسے خود ساختہ طریقوں کی کوئی مثال نہیں ملتی یہ سب بدعات وخرافات ہیں )
اسی طرح حبسِ نفی واثبا ت اور ذِکر اسم ذات کے بھی کئی طریقے ہیں ۔ان اذکار کے ساتھ کئی طرح کا اشغال بھی وابستہ ہیں ۔مثلاً شغل سلطاناً،نصیراً،شغل سلطاناً محموداً،شغل سلطان الاذکار ،شغل سرمدی وغیرہ۔ ہر ذکر اور شغل میں لطف وانبساط کا اپنا اپنا رنگ ہے لیکن شغل سرمدی نے خاص طور پر مجھے اپنے نشاط کی گرفت میں دبوچ لیا ۔اگر خداکی مدد شامل حال نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ میں اسی شغل کی سرمستی وبے خودی میں منہمک ہوکر ساری زندگی اسی میں ضائع کردیتا ۔اس شغل کی خصوصیت یہ تھی کہ شروع میں دماغ پر پہاڑی پر جھرنے کی طرح پانی گرنے کی آواز آنے لگی ۔پھر رفتہ رفتہ اس نے سمندر کی لہروں کے ایک بلند آہنگ اور مستانہ سازینے کا روپ دھارلیا ،بجلی کی لہر کی طرح اس سازینے کی آوازتمام بدن میں سرایت کرکے گنبد کی طرح گونجنے لگی جسے اصطلاح صوفیہ میں صوتِ حسن وہمس کہتے ہیں ۔اس آواز سے کبھی الہام کی شعاعیں پھوٹنے لگتی ہیں،کبھی اس میں عجیب وغریب عارفانہ علوم ورموزمنکشف ہوتے ہیں ،کبھی بجلی کی سی کڑک ،گرج اور کوند ظاہر ہوتی ہے جس سے جسم کانپنے لگتاہے اور بے خودی اور محویت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ،کبھی چاند ،سورج اور بجلی کی طرح کا روشنی کا سیلاب اُمڈ آتا ہے جسے سالک غلطی سے نور ِحق کی تجلی سمجھ بیٹھتا ہے لیکن یہ نورِذات کی تجلی نہیں ہوتی بلکہ راہِ سلوک پر ایک دلفریب اور خوشنما رکاوٹ ہوتی ہے جو شخص یہاں پر آ کر اٹک گیا وہ یقینا منزلِ شریعت کی راہ سے بھٹک گیا ۔ان کیفیات پر میرا اپنا دل بھی بُری طرح لٹّو ہورہاتھا لیکن خدا بھلا کرئے میرے رہنما کا،جس نے ایسی ڈانٹ پلائی کہ کانوں کے کیڑے جھڑ گئے اورگردن سے پکڑ کر مجھے اس جنجال سے نکال باہرکیا۔(اس کے باوجود شہاب صاحب کا کہنا ہے کہ: تصوّف کے سارے سلسلے چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیاں ہیں جو اپنے اپنے طریق سے انجام کار شریعت کی شاہراہ سے جاکر مل جاتی ہیں،ناقابل فہم ہے بلکہ یہاں وہ اعتراف کررہے ہیں کہ ان سلسلوں میں پڑھ کر کئی تو گمراہ ہو جاتے ہیں اور کئی گمراہ ہونے کے بالکل قریب پہنچ جاتے ہیں جبکہ ہما را موقف یہ ہے کہ یہ سب سلسلے انسان کو صرف گمراہ ہی کرسکتے ہیں ،ہدایت نہیں دے سکتے اس لیے کہ یہ راہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی سنت سے متصادم ہے )
قدرت اللہ شہاب پاکستان کے قیام سے قبل بطور آئی سی ایس آفیسر ہندوستان میں مختلف عہدوں پر تعینات رہے ہیں ۔پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد وہ پاکستان تشریف لے آئے اور صدرمحمد ایوب کے دور تک وہ اعلی عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں ۔اپنی زندگی کے ان اہم ادوار کو انہوں نے اپنی مشہورِزمانہ کتاب ”شہاب نامہ “ میں بڑی تفصیل سے بیان کیاہے جو تاریخ کے قاری کے لیے نہائت معلومات افز ا ہے ۔ شہاب نامہ مجموعی طور پر پاکستان کی سیاست کے گرد گھومتا ہے مگر اس کا آخری باب ”چھوٹا منہ بڑی بات “جہاں مروجہ سلسلہ تصوّف سے ان کی مذہبی و جذباتی وابستگی کا اظہارکرتاہے وہیں وہ اس کی مختلف ناقابل فہم گھتیوں کو سلجھانے کی ناکام کوشش کرتے نظرا ٓتا ہے ۔ہمارامضمون بھی ان کی کتاب کے اسی باب سے متعلق ہے۔یوں تو تصوف کے دفاع اور اس کے رد میں اہل علم نے سینکڑوں کتابیں تصنیف کرڈالی ہیں جن کو پڑھ کر حق کے متلاشی کو راہ راست نصیب ہو سکتاہے ۔تاہم میرے اس مضمون کا مقصد ایک عام آدمی پر پڑنے والے تصوف کے تباہ کن اثرات و نتائج سے عوام الناس کو آگاہ کرناہے تاکہ وہ بذات ِخود اچھے اوربرے میں تمیزکرنے کے قابل ہو سکیں۔
قارئین کرام : درج ذیل تما م کہانی اوربیانات قدرت اللہ شہاب کے ہی ہیں جن کو میں نے انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ ضروری مقامات پر میرا مختصرتبصرہ صرف بریکٹ میں ہوگاتاکہ ان کی تحریر اور میرے تبصرے میں انفرادیت برقرار رہے اور قارئین کو حقائق کے سمجھنے میں مشکلات پیش نہ آئیں۔
(قدرت اللہ شہاب تصوف کو آسان لفظوں میں سمجھاتے ہوئے رقمطراز ہیں )اپنے ظاہر اورباطن کو شریعت کی راہ پر توازن اور اعتدال سے چلانے ہی سے عبدیت کا سفر طے ہوتاہے اگر عبدیت میسر ہوجائے تو ولایت ،اوتادیّت،ابدالیت ،قطبیت ،غوثیت وغیرہ سب اس پر قربان ہیں۔
ایک غلط فہمی یہ عام ہے کہ یہ تصوّف کے مسائل ہیں ۔دراصل یہ تصوّف کے نہیں بلکہ شریعت کے مسائل ہیں۔دین کی اصلی شاہرہ شریعت ہے ۔تصوّف کے سارے سلسلے چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیاں ہیں جو اپنے اپنے طریق سے انجام کار شریعت کی شاہراہ سے جاکر مل جاتی ہیں۔ان پگڈنڈیوں کی اپنی کوئی الگ منزل ِمقصود نہیں۔ان سب کی مشترکہ اورواحد منزل ِمقصود شاہراہ شریعت تک پہنچانا ہے (یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔ایک حدیث مبارکہ کامفہوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کے سامنے ایک سید ھا خط کھینچا اور پھراس کے اطراف چند ٹیڑھی او ر ترچھی لائنیں لگائیں اور صحابہ سے فرمایا کہ یہ سیدھا خط صراط مستقیم ہے جبکہ ترچھی لائنیں گمراہی کے راستے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تصوف کی یہ چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیاں انسان کو گمراہی کے راستے پر ڈال دیتی ہیں جس کا اعتراف قدرت اللہ شہاب نے بھی اگے چل کر کیاہے) ۔ اس شاہراہ پر مزید سفر کرنے سے وہ راہ سلوک طے ہوتی ہے جس کا مقصد نسبت ِباطنی ،نسبتِ مع اللہ ،معرفت الہیٰ اور رضاءالہیٰ کا حصول ہے ۔کچھ لوگ ہمت مردانہ رکھتے ہیں اور خودبخود راہ ِ شریعت پر گامزن ہوکر زندگی کا سفر بغیر کسی تکان،ہیجان اورخلجان کے پورا کرلیتے ہیں۔ ان کی خوش قسمتی قابلِ رشک ہے اور میں انہیں دلیِ عزت واحترام سے سلام کرتاہوں۔
لیکن بعض لوگ ایسے ہیں جن کے قدم شریعت کی راہ پررواں ہونے سے ہچکچاتے اور ڈگمگاتے ہیں،جس طرح کچھ بچے سکول میں داخل ہونے کے بعد پڑھنے سے گھبراتے اور کتراتے ہیں۔ان کے علاج کے لیے تعلیمی ماہرین نے کنڈرگارٹن (Kindergarten) اور مونیٹسوری (Montessori) سکول ایجاد کیے ۔جن میں بچوں کو کھیل کود اور کھلونوں وغیرہ سے بہلا پھسلا کر پڑھنے لکھنے سے مانوس کیا جاتاہے ،یہ صرف چھوٹی جماعتوں کے سکول ہوتے ہیں۔ان کا مقصد یہ ہوتاہے کہ بچوں کا رجحان لکھنے پڑھنے کی طرف مائل کرکے وہ انہیں معاشرے کے عام تعلیمی نظام میں شامل کردیں۔ تصوّف کے سلسلے بھی ایک طرح کے کنڈر گارٹن اور مونیٹسوری سکولوں کی مانند ہیں جو شریعت سے بھٹکے ہوئے بندوں کو طرح طرح کے اذکار ،اشغال اور مراقبات کے انوار و آثار وتجلّیات وبرکات سے چکا چوند کرکے انہیں شاہراہ شریعت پر خوشدلی سے گامزن ہونے کے قابل بنادیتے ہیں ،اس کے علاوہ تصوّف کا اور کوئی مقصود نہیں۔۔۔۔۔۔
(اب قدر ت اللہ شہاب بتا رہے ہیں کہ و ہ تصوف کی طرف کس طرح مائل ہوئے )لیکن ایک بار پھر میری خوش قسمتی آڑے آئی ۔اتفاق سے حضرت شہاب ُا لدّین سہروردی ؒ کی تصنیف ”عوارف المعارف “ کہیں سے میرے ہاتھ آ گئی ۔ بے حد دقیق کتاب تھی۔میں نے اسے کئی بار پڑھا ،لیکن کچھ پلّے نہ پڑا،لیکن اتنا ضرور ہوا کہ میری سوچ کے ظلمت کدے میں ایک نیا روشندان کھل گیا ۔ا س کے بعد میں نے حضرت غوث الاعظم ؒ سے لے کر مولانا اشرف علی تھانوی ؒ تک درجنوں ایسی کتابیں کھنگال ڈالیں جو ان بزرگان ِ شریعت وطریقت کی اپنی تصانیف تھیں یا دوسروں نے ان کے حالات یا ملفوظات یا تعلیمات قلمبند کر رکھی تھیں ۔اس عملی ذخیرہ نے مجھے طریقت کے چاروں بڑے سلسلوں اور ان کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے ضمنی سلسلوں کے بارے میں کافی آگاہی بخشی ،لیکن ساتھ ہی ایک الجھن بھی میرے دِل میں پیداہوگئی ۔یہ الجھن تلاشِ مرشد یا تلاشِ شیخ کے بارے میں تھی ۔طریقت کے سارے سلسلوں میں ایک بات مشترک تھی وہ یہ کہ اس راستے پر قدم اٹھانے سے پہلے کسی مرشد کو اپنا رہنما بنانا لازمی ہے ۔
مجھے یقین تھا کہ میرے آس پاس اور ارد گرد بہت سے ایسے بزرگان ِدین اور پیر ِطریقت موجود ہوں گے جنہیں میرا مرشد بننے کا حق حاصل تھا لیکن مرید کے طورپر اپنے شیخ کے سامنے بلاسوال جواب مکمل ذہنی اطاعت قبول کرنے کی جو شرط لازمی تھی اسے نبھانا میرے بس کا روگ نہ تھا(ایسی اطاعت کے لائق صرف رسول اللہ ﷺ ہیں او رکوئی نہیں )،اس لیے میں نے تلاِش شیخ کے لیے کوئی خاص کوشش نہ کی بلکہ اپنی نگاہ سلسلہ اویسیہ پر رکھی جس کے بارے میں بہت سے بزرگان ِ سلف کی تصنیفات میں چھوٹے چھوٹے اشارے ملتے تھے لیکن کہیں یہ درج نہ تھا کہ اس سلسلہ میں قدم رکھنے کے لیے کون سا دروازہ کھٹکھٹایا جاتاہے اور نہ یہ معلوم تھا کہ اس میں داخل ہونے کے کیاکیا قواعد وضوابط اورآداب ہیں لیکن ایک بار پھر یونہی بیٹھے بٹھائے خوش قسمتی کی لاٹری میرے نام نکل آئی ۔
ایک بار میں کسی دور دراز علاقے میں گیا ہوا تھا وہاں پر ایک چھوٹے سے گاوں میں ایک بوسیدہ سی مسجد تھی۔میں جمعہ کی نماز پڑھنے اس مسجد میں گیا ہوا تھا ،تو ایک نیم خواندہ سے مولوی صاحب اردو میں بے حد طویل خطبہ دے رہے تھے ۔ان کا خطبہ گزرے ہوئے زمانوں کی عجیب وغریب داستانوں سے اٹااٹ بھرا ہوا تھا ۔کسی کہانی پر ہنسنے کو جی چاہتا تھا ،کسی پر حیرت ہوتی تھی ،لیکن ایک داستا ن کچھ ایسے انداز سے سنائی کہ تھوڑی سے رقت طاری کرکے وہ سیدھی میرے دل میں اتر گئی ۔یہ قصہ ایک باپ اور بیٹی کی باہمی محبت واحترام کا تھا۔باپ حضرت محمد ﷺ تھے اور بیٹی حضرت بی بی فاطمہؓ تھیں۔مولوی صاحب بتا رہے تھے کہ حضور رسولِ کریم ﷺ جب اپنے صحابہ کرام ؓ کی کوئی درخواست یافرمائش منظور نہ فرماتے تھے تو بڑے بڑے برگزیدہ صحابہ کرام ؓ بی بی فاطمہ ؓ کی خدمت میں حاظر ہو کر ان کی منّت کرتے تھے کہ وہ ان کی درخواست حضور ﷺ کی خدمت میں لے جائیں او راسے منظور کروالائیں ۔حضور نبی کریم ﷺ کے دِل میں بیٹی کا اتنا پیار اور احترام تھا کہ اکثر اوقات جب
بی بی فاطمہ ؓ ایسی کوئی درخواست یا فرمائش لے کر حاضر خدمت ہوتی تھیں تو حضور ﷺ خوش دلی سے منظور فرما لیتے تھے ۔ ا س کہانی کو قبول کرنے کے لیے میرا دل بے اختیار آمادہ ہو گیا۔
جمعہ کی نماز کے بعد میں اسی بوسیدہ سی مسجد میں بیٹھ کر نوافل پڑھتا رہا۔کچھ نفل میں نے حضرت بی بی فاطمہ ؓ کی روح مبارک کو ایصالِ ثواب کی نیّت سے پڑھے ۔پھر میں نے پوری یکسوئی سے گڑگڑا کر یہ دعا مانگی،”یا اللہ میں نہیں جانتا کہ یہ داستان صحیح ہے یا غلط لیکن میرا دل گواہی دیتاہے کہ تیرے آخری رسول کے دل میں اپنی بیٹی خاتون ِ جنت کے لیے اس سے بھی زیادہ محبت اورعزت کاجذبہ موجزن ہو گا۔اس لیے میں اللہ سے درخواست کرتاہوں کہ وہ حضرت
بی بی فاطمہ ؓ کی روح کو اجازت مرحمت فرمائیں کہ وہ میری ایک درخواست اپنے والد گرامی ﷺ کے حضور میں پیش کرکے منظور کروالیں(روحوں سے مدد مانگناچاہے اللہ کے واسطے سے ہی ہو،غیر اسلامی عقیدہ ہے مگراہل تصوف کے ہاں ایسا عقیدہ رکھناگویا شرط اولین ہے۔اس کے بغیر ان کی سلطنت دھڑام سے گر جائے گی ) ۔ درخواست یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ کا متلاشی ہوں ،سیدھے سادھے مروّجہ راستوں پر چلنے کی سکت نہیں رکھتا اگر سلسلہ اویسیہ واقعی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے تو اللہ کی اجازت سے مجھے اس سلسلہ سے استفادہ کرنے کی ترکیب اور توفیق عطافرمائی جائے۔
اس بات کا میں نے اپنے گھرمیں یا باہر کسی سے ذکر تک نہ کیا ۔چھ سات ہفتے گزر گئے اور میں اس واقعہ کو بھو ل بھال گیا ،پھر اچانک سات سمندر پار کی میری ایک جرمن بھابھی کا ایک عجیب خط موصول ہوا ۔وہ مشرف بہ اسلام ہو چکی تھیں اور نہایت اعلیٰ درجہ کی پابندِ صوم و صلوٰة خاتون تھیں ۔انہوں نے لکھا تھا:
The other night I had the good fortune to see''Fatima '' daughter of the Holy Prophet (peace be upon him)in my dream .She talked to me most graciously and said ,''Tell your brother-in-law Qudrat Ullah Shahab, that I have submitted his request to my exalted Father who has very kindly accepted it''.
اگلی رات میں نے خوش قسمتی سے فاطمہ ؓ بنتِ رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا انہوں نے میرے ساتھ نہایت تواضع او ر شفقت سے باتیں کیں اورفرمایا کہ اپنے دیور قدرت اللہ شہاب کو بتادو کہ میں نے اس کی درخواست اپنے برگزیدہ والد گرامی ﷺ کی خدمت میں پیش کردی تھی ۔انہوں نے ازراہ ِ نوازش منظور فرمالیا ہے“۔
یہ خط پڑھتے ہی میرے ہوش وحواس پر خوشی اورحیرت کی دیوانگی سی طاری ہوگئی ،مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدم زمین پر نہیں پڑرہے بلکہ ہوا میں چل رہے ہیں۔یہ تصور کہ اس برگزیدہ محفل میں ان باپ بیٹی کے درمیان میر ا ذکر ہوا ۔میرے روئیں روئیں پر ایک تیزوتند نشے کی طرح چھاجاتا تھا ،کیسا عظیم باپ ﷺ ! او ر کیسی عظیم بیٹی !دو تین دن میں اپنے کمرے میں بند ہو کر دیوانوں کی طرح اس مصرعہ کی مجسّم صورت بنا بیٹھا رہا ۔
ع۔ مجھ سے بہتر ذکر میراہے کہ اس محفل میں ہے !
اس کے بعد کچھ عرصہ تک مجھے خواب میں طرح طرح کی بزرگ صورت ہستیاں نظر آتی رہیں جن کو نہ تو میں جانتا تھا نہ ان کی باتیں سمجھ میں آتی تھیں اور نہ ان کے ساتھ میرا دل بھیگتا تھا پھر ایک خواب میں مجھے ایک نہایت دلنواز اور صاحب جما ل بزرگ نظرآئے جو احرام پہنے ایک عجیب سرور اورمستی کے عالم میں خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے ،میرا دل بے اختیار ان کے قدموں میں بچھ گیا ،وہ بھی مسکراتے ہوئے میری جانب آئے او رمطاف سے باہر حطیم کی جانب ایک جگہ مجھے اپنے پاس بٹھا لیا اوربولے ”میر انام قطب الدّین بختیار کاکی ہے تم اس راہ کے آدمی تو نہیں ہو لیکن جس دربار گہر بار سے تمہیں منظوری حاصل ہوئی ہے اس کے سامنے ہم سب کا سر ِ تسلیم خم ہے “۔(تصوف کی دنیا میں ارواح نے ایک سلطنت قائم کررکھی ہے اس کے دربار میں ہر بزرگ کو اس کی حیثیت کے مطابق عہدے اور لا محدود اختیارات دیے جاتے ہیں جو نہ صرف اپنے مریدوں کے دلوں کے حالات کو جانتے ہیں بلکہ ان کی حاجت روای اور مشکل کشائی کے لیے ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔العیاذ باللہ)
قطب الدّین بختیار کاکی صاحب نے ایک پیالہ ہمارے درمیان رکھا ،جس میں کھانے یا پینے کی کوئی چیز پڑی تھی ،انہوں نے اچانک فرمایا ۔”تم یہ زندگی چاہتے ہو یا وہ زندگی ؟“خواب میں بھی میرے دل کا چور انگڑائی لے کر بیدار ہو گیا اور اس نے مجھے گمراہ کیاکہ غالباً اس سوال میں فوری طور پر موت قبول کرنے کی دعوت ہے یعنی دنیاوی زندگی چاہتے ہو یا آخرت کی زندگی ،مجھے ابھی زندہ رہنے کا لالچ تھا اس لیے میں اپنے دل کے چور کی پیدا کی ہوئی بدگمانی کا شکار ہوگیا ۔
”حضر ت کچھ یہ زندگی چاہتا ہوں،کچھ وہ “
میرا یہ کہنا تھا کہ میرے بائیں پہلو کی جانب سے ایک کالے رنگ کا کتا ساجھپٹا ہو اآیا اور ا ٓتے ہی سامنے پڑے ہوئے پیالے میں منہ ڈال دیا ۔قطب صاحب مسکرائے او ربولے ،”افسوس یہ مفت کی نعمت تمہارے مقدرمیں نہ تھی ،تمہار ا نفس تم پر بُری طرح غالب ہے اس لیے مجاہدہ کرنا ہو گا “۔
اس کے بعدکئی ماہ تک نہ کوئی جواب آیا اورنہ ہی کسی قسم کا کوئی واقعہ رونما ہو ا
اسی عالم یا س و اضطراب میں تین سوا تین ماہ گزر گئے ،جو میرے باطنی وجود پر تین صدیوں کی طرح بھاری گزرے ۔ا سکے بعد اچانک 9جون کا مبارک دن طلوع ہو ا،یہ دن میری زندگی کے دو یا تین اہم ترین ایّام میں سے ہے ۔ا س روزمجھے اچانک ”نائنٹی“ Ninetyکا پہلا خط موصول ہوا ۔میں اسے فقط اسی کوڈ نام سے جانتا ہوں۔میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی مجھے یہ معلو م ہے کہ وہ کون ہے ؟کیا ہے؟اور کہاں ہے؟ہماری خط وکتابت بذریعہ ڈاک ایک بار ہوئی ہے ،صرف اس کا پہلا خط بذریعہ ڈاک آیا تھا ،لفافے پر ڈاکخانے کی جو مہر لگی ہوئی تھی وہ یوں تھی ۔
'' June 9,Jammu Market 9.30 a.m.''
ڈاکیہ اسی روز دن کے ساڑھے بارہ بجے یہ خط ڈِلِیور کر گیا تھا ،شہر کے پوسٹل نظام میں ایسا ممکن ہی نہ تھا کہ صبح ساڑھے نو بجے کا پوسٹ کیا ہوا خط اسی روز دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے مل بھی جائے۔تیرہ صفحات پر مشتمل اس خط میں میرے ظاہر وباطن کی ایسی ایسی باریک ترین خامیوں،کوتاہیوں اورکمزوریوں کو اس قدر تفصیل اور وضاحت سے بیان کیاگیا تھا جن میں سے بعض کا علم مجھے اورصرف میرے خدا کے علاوہ اورکسی کونہ تھااور بعض کا مجھے خود بھی پورا علم نہ تھا(انسان کے ظاہر و باطن کو اللہ تعالی ٰ کے سو ا کو ئی نہیں جانتا اس کے برعکس عقیدہ رکھنا سراسر شرک ہے )۔یہ خط اس طرز کی فصیح وبلیغ اور دقیق انگریزی زبان میں لکھا ہوا تھا کہ اسے سمجھنے کے لیے مجھے بار بار ڈکشنری کا سہار ا لینا پڑتا تھا(غالباًان دنوں تما م اردوجاننے والے بزرگ کافی مصروف ہوں گے یہی وجہ ہے کہ خواجہ بختیار کاکی صاحب نے کافی محنت یعنی تقریباً تین ماہ کے بعد ایک انگریز بزرگ کو قدرت اللہ شہاب صاحب کی تدریس کے لیے مقرر کیایاخواجہ صاحب نے خود وفات پانے کے بعد ارواح کی کسی یونیورسٹی سے انگلش میں ماسٹر کیاہوگا۔مولانااشرف علی تھانوی صاحب نے ارواح ثلاثہ حکایت نمبر 40 میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بمعہ صاحبین کے آسمان سے نازل ہو کر مدرسہ دیوبندکا حساب لینے آیاکرتے تھے او ر مولوی خلیل احمد صاحب مولف بزل المجھودفی حل ابی داود نے براہین قاطعہ نامی کتاب تالیف کی ہے اس کے صفحہ 30پرلکھتے ہیںایک صالح ،رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے تو آپ کو اردو میں کلام کرتے دیکھا کر پوچھا ۔آپ کو یہ کلام کہاں سے آگیا آپ تو عربی ہیں؟(آپ ﷺ نے ) فرمایا،جب سے علماءدیوبند کے مدرسے میں آنا جانا ہوا ہم کو یہ زبان آگئی )۔نصف خط اس تجزیے پرمشتمل تھا اور باقی کا نصف احکامات و ہدایات اور مستقبل کے لائحہ عمل سے پُر تھا۔آخر میں لکھنے والے کے نام کی جگہ فقط یہ درج تھا۔
'' A ninety years young fakir'' یعنی” ایک نوّے سالہ جوان فقیر “
اس خط میں ایک حکم یہ تھا کہ چند سوالات جو اس میں اٹھا ئے گئے تھے ،ان کا مکمل جواب انگریزی میں لکھ کر اسے اپنی کتابوں والی الماری کے کسی خانے میں رکھ دوں۔میں نے فوراً تعمیل حکم کردی ۔ چند لمحوں کے بعد الماری کے پٹ کھولے تو میرا لکھا ہوا خط وہاں سے غائب تھا۔اس خط کاجو جواب آیاوہ اسی شب میرے تکیے کے نیچے پڑا ہو املا۔جواب کے آخر میں”ایک نوے سالہ جوان فقیر “کی جگہ فقط ایک لفظ Ninety (نوّے)درج تھا۔اس حیرت ناک واقعہ سے میرے تن بدن پر شدید ہیبت اور گھبراہٹ طاری ہوگئی ،کچھ عرصہ مجھ پر نیم بے ہوشی کا سا عالم طاری رہا،میری بے بسی اوربے کسی پر ترس کھا کر ”نائنٹی “ نے آئندہ سے میرے چھوٹے بھائی حبیب اللہ شہاب کو بھی میرا رفیق ِکار بنادیا،حبیب کی رفاقت میرے لیے سونے پر سہاگہ ثابت ہوئی ۔
اس کے بعد کم وبیش پچیس برس تک ہمارے درمیان اس عجیب وغریب خط وکتابت کا سلسلہ قریباًقریباًروزانہ جاری رہا۔بعض اوقات ہمارے درمیان خطوط کی آمدورفت دِن اوررات کے دوران دو دو ،تین تین یا چار چار بار تک بھی پہنچ جاتی تھی ،حبیب ہمار ا پوسٹ آفس تھا ،ہمار ا لیٹر بکس کبھی الماری ہوتی تھی ،کبھی اپنی جیب کبھی کوئی کتاب یا کاپی یا کبھی یونہی سرِراہ چلتے چلتے ”نائنٹی“کے تحریر کردہ خطوط ہوا کے دوش پر سوار پھول کی پتّیوں کی طرح سر پر آلگتے تھے۔(یادرہے کہ شہاب صاحب کسی بزرگ کا تذکرہ کررہے ہیں ،جن کانہیں)
حکم یہ تھا کہ اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہر تحریر کو جلد ازجلد تلف کردیاجائے۔البتہ اتنی اجازت ضرور تھی کہ اس کے احکامات اور اس کی ہدایات کو اپنے طور پراپنے الفاظ میں اس طور پر بے شک محفوظ کرلوں گاکہ اگر یہ کاغذات کسی اور کے ہاتھ لگ جائیں،تو یہ سب باتیں محض پراگندہ خیالی اور بے معنی رطب ویابس نظر آئیں(یہ کونسی ہدایات ہیں کہ جن کو دوسروں سے چھپانے کا حکم دیا جارہا ہے ۔ قرآن وحدیث تو ایک کھلی کتاب کی مانند ہیں ان میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو بے معنی رطب ویابس ہو)۔فقط ایک بار چھوڑکرمیں اس حکم کو بھی پوری پوری پابندی سے بجالاتا رہا۔
ایک روز میرے دل میں لالچ آیاکہ میں اپنے گمنام اور نادیدہ خضرراہ کاکم ازکم ایک دستخط Ninety اس کے کسی خط سے پھاڑ کر نشانی اور برکت کے طور پر اپنے پاس محفوظ کرلوں۔یہ خیال آنا تھا کہ سزا ک اتازیانہ فوراً نازل ہو گیا۔رات کاوقت تھا ،بجلی کے بلب کے اردگردچند پروانے منڈلارہے تھے،دیکھتے ہی دیکھتے وہاں پر ایک کاغذ منڈلانے لگااورآہستہ آہستہ بل کھاتا ہوا نیچے میری گود میں آگرا۔اس میں تحریر تھا کہ حکم عدولی کا یہ منصوبہ فوری سزا کا مستحق ہے سزا یہ تجویز ہوئی کہ بتیاں چند لمحوں کے بعد اپنے آپ گل ہوجائیں گی اور میرے دونوں ہاتھ اور دونوں پاوں نصف گھنٹہ تک ایک ایک زندہ سانپ سے باندہ کررکھے جائیں گے۔اس خوفناک سزا کا فیصلہ سن کر میں بے اختیار روپڑا۔میں نے جلدی جلدی اپنے ارادہ سے توبہ کی ۔دل کی گہرائیوں سے معافی مانگی اور غالب کا یہ شعر انگریزی ترجمہ کے ساتھ لکھ کر الماری میں رکھ دیا۔
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گنہگار ہوں کافر نہیں ہوں میں
دیکھتے ہی دیکھتے بجلی کے بلب کی جانب سے نائنٹی کاجواب لہراتا ہوا میرے ہاتھ میں آیا جس میں تحریر تھا،”ہاہاہا“۔بس دو زندہ سانپوں کے تصور سے ڈر گئے۔بزدل ہو۔چلو معاف کیا ۔لیکن یہ بات ہرگز نہ بھولوکہ قبر میں دیگر حشرات الارض کے علاوہ زندہ سانپ بھی موجود ہوں گئے،وہاں پر نہ توبہ کرنے کاوقت ہوگا اور نہ ہی توبہ قبول ہوگی ۔اوغافل بندے ،تجھے کیا معلوم کہ دن رات تمہارے بدن اور باطن کے ساتھ کتنے خوفناک اژدہے زبانیں نکال نکال کر لپٹے رہتے ہیں اور وقت آنے پر زیر ِزمین کتنے اژدہے بے تابی سے تمہارا انتظارکررہے ہیں،کاش کہ تم لوگ جانتے ،نائٹی“
ایک روز میں نے اپنے رہنما سے دریافت کیا ۔”آپ کون ہیں،کہاں ہیں ؟کیاکرتے ہیں ؟اور روحانیت کے کس مقام پر فائز ہیں؟“
جواب ملا۔”پہلے تین سوال فضول ہیں،ان کا جواب تمہیں کبھی نہیں ملے گا ،باقی رہی روحانیت کے مقام کی بات ،اس طویل راستے پرکہیں کہیں گھاٹیاں اورکہیں کہیں سنگ ِمیل آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں ۔منزل یامقام کا کسی کو علم نہیں ۔اس سڑک پر سب راہی ہیں۔کوئی آگے کوئی پیچھے ۔منزل صرف ایک بشر کو ملی ہے جس کے بعد اور کوئی مقام نہیں۔ اس بشر کا نام محمد ﷺہے تم اس کا نام رٹتے تو بہت ہو لیکن کیا کبھی اس کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش بھی کی ہے؟اگرایسا کرتے تو آج ایک کچی دیوار پر گوبر کے اُپلے کی مانند چسپاں نہ ہوتے جس پر مکھیاں تک بھنبھنانا چھوڑدیتی ہیں “۔
یہی میرا سلسلہ اویسیہ تھا ،جس کی رہنمائی میں اس گنہگارنے راہِ سلوک پر چند قدم ڈگمگانے کی سعادت حاصل کی(تصوف کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ زندہ بزرگوں کی بجائے مردہ بزرگوں میں طاقت اور صلاحتیں لامحدود ہوجاتی ہیں۔ان کی روحیں اپنے مریدوں کی پکارلاکھوں ،ہزاروں میل سے ناصرف سنتی ہیں بلکہ ان کی قدم قد م پر رہنمائی اور مد د کرتی ہیں۔استغفراللہ العظیم) ۔زندگی کے اس طرح کے باطنی تجربات اور مشاہدات کو بیان کرنے کی سکت مجھ میں نہیں ،البتہ مختصر طورپر ان کا تھوڑا سا ذکر کرتاہوں ۔یہ موضوع میرے لیے اجنبی ہے اس لیے اپنے بیان اور اظہار میں مَیں نے بزرگان سلف کی تصنیفات ،مکتوبات ،ملفوظات اور فرمودات کی زبان اورکلام سے بے دریغ استفادہ کیاہے ،تجربات اور مشاہدات میرے ہیں۔ان کا اظہار حتی الوسع ان کے الفاظ میں ہے تاکہ سہواً یا اپنی کم فہمی کی وجہ سے کوئی فاش غلطی نہ کر بیٹھوں۔
خاص طور پر یہ بات مجھ پر بالکل صاف اورواضح ہوگئی کہ سلوک یا تصوّف میں کسی قسم کا کوئی راز یا اسرار پوشیدہ نہیں ،اذکار،اشغال اورمراقبات وغیرہ کوئی ڈھکی چھپی باتیں نہیں بلکہ عام طور پر جانے پہچانے معمولات ہیں جو ہر سلسلے میں اپنے اپنے طریق پر اظہر من الشمس ہیں البتہ اذکار ،اشغال اور مراقبات کے دوران سالک پر جو کیفیات اور مشاہدات اپنی اپنی استعداد کے مطابق وارد ہوتے ہیں ان کا ذکر کرنا بے معنی اور فضول ہے ۔ اس لیے ان کاذکر عام ِطور پر ممنوع قراردیا جاتاہے(چونکہ یہ تمام طریقے شریعت سے متصادم ہیں لہذا ان کے بھید کے کھل جانے کے ڈر سے ان کا ذکر ممنوع کردیا جاتاہے )۔اس کی مثال شادی کی ہے ،شادی کوئی خفیہ راز نہیں ،میاں بیوی کے رشتہ ءازدواج میں منسلک ہونے کے مقاصد ،عوامل او رعواقب سب پر روزِروشن کی طرح عیاں ہوتے ہیں۔لیکن حجلہ ءعروسی کی تفصیلی روئیداد کوئی بیان نہیں کرتااور نہ ہی زندگی بھرزن وشوہر کے خِلوت خانوں کی داستانیں برسرِ عام سنائی جاتی ہیں۔
شریعت کی طرف مائل کرنے کے لیے طریقت کاکنڈر گارٹن سکول لذت وسرور کے علاوہ بعض انتہائی خوشگواراور پرلطف انکشافات سے مالا مال ہوتاہے ۔سالکوں کی ایک بڑی تعداداس لذّت وسرور کی مستی میں محو ہوکر یہیں کی ہو رہتی ہے اور اپنے اصلی مقصد یعنی شریعت کی جانب قدم بڑھانے کی بجائے جمود کا شکار ہوکر اپنی منزل کھوٹی کر بیٹھتی ہے ۔یہ بدقسمت لوگ کہیں ڈبہ پیر بن کر ابھر تے ہیں، کہیں مصنوعی دکانیں سجاکر تصوّف کی بلیک مارکیٹ کرتے ہیں،کہیں طریقت کی آر میں شریعت کی خلاف ورزیاں کرتے ہیں۔ان کی پیری فقیری جعلسازی کاگورکھ دھندا ہوتی ہے اوران کا سارا کاروبار مداریوں اوربازیگروں کی طرح شعبدہ بازی کا کرتب بن جاتا ہے ۔(شریعت کی صراط مستقیم کے بجائے چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیوں پر چلنے کا یہی انجام ہوتاہے )جو اس راہ میں ان پرکشش اور پرفریب گڑھوں میں منہ کے بل گرنے سے بچ جائیں ان کا انعام یہی ہوتاہے کہ چلتے چلتے انجام کار ان کے قدم شریعت کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں،سلوک اور تصوّف کا اس کے علاوہ اور کوئی نہ مقصد ہے نہ مفہوم۔
(ذکر واذکار کا تذکرہ کرتے ہوئے شہاب صاحب رقمطراز ہیں )ذکرکی کوئی حد نہیں۔نماز ،روزہ ،زکوٰة،حج سب کی حد ہے لیکن ذِکر لامحدود ہے ۔اللہ کے ذِکرمیں ایک عجیب توانائی ،لطیف نشاط اورعمیق سکون ہے ۔عام طور پر ذِکر کی چار قسمیں ہیں جنہیں آسانی سے آزمایا جا سکتاہے ۔اول ناسُوتی جیسے لا اِلہ اِلاَّاللہُ دوسرے ملکوتی جیسے اِلاَّاللہ،تیسرے جبروتی جیسے اَللہُ،چوتھے لا ہوتی جیسے ہُو، ہُو، زبان کے ذکرکو ناسوتی ،دل کے ذکرکو ملکوتی ،روح کے ذکرکو جبروتی اور سارے وجود کے اجتماعی ذکر کو لا ہوتی کہتے ہیں۔(شریعت میں ان ازکار کی قسموں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا)
ذکر کی ان چارقسموں میں بھی ایک ایک قسم کے کئی طریقے ہیں،جن طریقوں کی تھوڑی بہت مشق مجھے نصیب ہوئی ،ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں ۔
اسم ذات یعنی اَللہ اَللہ کا ذکر یک ضربی ،دو ضربی ،سہ ضربی اور چہار ضربی ۔اگر ا س ذکر کو ہر ضرب میں اس تصور کے ساتھ کیا جائے کہ جدھر منہ پھیرو ادھر ہی خدا ہے ،تو استغراق اور محویّت کی کیفیت پیدا ہوکر ہر شئے سے ذکر کی آواز سنائی دینے لگتی ہے اور قرآن مجید کے اس فرمان کی کامل تصدیق ہوجاتی ہے کہ دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو خداکی حمد کی تسبیح نہ کرتی ہو ۔حضرت داود ؑ کا یہ معجزہ تھا کہ جب وہ خود ذکر تے تھے تو پہاڑ اور طیور بھی ان کا ساتھ دیتے تھے۔
اسم ذات کا دوسرا ذکر پاس انفاس ہے ،سانس باہر کرتے وقت لفظ اللہ کو سانس میں لائے اور سانس کو لیتے وقت ھُوکو اندر لائے اور تصور کرئے کہ ظاہر وباطن میں ہر جگہ اللہ ہی کا ظہور ہے(صوفیا کہتے ہیں کہ انسان کے اندر جو روح ہے وہ اللہ کی روح ہے بلکہ کہتے ہیں یہ اللہ کی صفات میں سے اس کی ایک صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات غیر مخلوق ہیں اس لیے انسان کے اندر روح بھی ان کے نزدیک غیر مخلوق ہے اسی عقیدے کی بنا پر حسین بن حلاج نے خدائی کا دعویٰ کیاتھا۔چناچہ مولانا اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں کہ :لوگوں نے خدائی دعوے کیے ہیں مگر حسین بن منصور پر شبہ نہ کیا جائے کہ انہوں نے (اناالحق )میں خدائی دعویٰ کیا تھاکیونکہ ان پر ایک حالت طاری تھی ورنہ وہ عبدیت کے بھی قائل تھے چناچہ وہ نماز بھی پڑھتے تھے کسی نے پوچھا کہ جب تم خود خداہو نما ز کس کی پڑھتے ہو؟جواب دیا کہ میری دو حیثیتں ہیں ایک ظاہر ایک باطن،میر اظاہر میرے باطن کو سجدہ کرتاہے (الافاضات الیومیہ جلد1 صفحہ 256)۔یعنی حلاج اپنے آ پ کو باطن میں خدامانتاتھا اور باطن سے مراد روح ہے ) ۔اس ذکر کی اس قدر غیر معمولی کثرت کرئے کہ سانس ہمہ وقت ذکرکی عادی ہوجائے،اس طرح پاسِ انفاس سے بہرہ ورہوکر قلب غیر اللہ سے صاف اور دیگر کدورتوں سے پاک ہو کر انور ِالہٰیہ کا محوربن جاتاہے ۔
نفی واثبات (لا اِلہ اِلاَّاللہُ )کو پاس ِانفاس میں رچانا ایک خوشگوارعمل ہے سانس لیتے وقت صرف سانس سے اِلاّ اللہ ُکہے اور سانس باہر آتے وقت لَا اِالٰہ کہے ،منہ بالکل بند رکھے اور زبان کو ادنیٰ حرکت بھی نہ دے اور اس قدر پاپندی اور استقلال سے کام لے کہ سانس خود بخود بِلاارادہ ذِکر کرنے لگے۔(شریعت میں ایسے خود ساختہ طریقوں کی کوئی مثال نہیں ملتی یہ سب بدعات وخرافات ہیں )
اسی طرح حبسِ نفی واثبا ت اور ذِکر اسم ذات کے بھی کئی طریقے ہیں ۔ان اذکار کے ساتھ کئی طرح کا اشغال بھی وابستہ ہیں ۔مثلاً شغل سلطاناً،نصیراً،شغل سلطاناً محموداً،شغل سلطان الاذکار ،شغل سرمدی وغیرہ۔ ہر ذکر اور شغل میں لطف وانبساط کا اپنا اپنا رنگ ہے لیکن شغل سرمدی نے خاص طور پر مجھے اپنے نشاط کی گرفت میں دبوچ لیا ۔اگر خداکی مدد شامل حال نہ ہوتی تو ممکن تھا کہ میں اسی شغل کی سرمستی وبے خودی میں منہمک ہوکر ساری زندگی اسی میں ضائع کردیتا ۔اس شغل کی خصوصیت یہ تھی کہ شروع میں دماغ پر پہاڑی پر جھرنے کی طرح پانی گرنے کی آواز آنے لگی ۔پھر رفتہ رفتہ اس نے سمندر کی لہروں کے ایک بلند آہنگ اور مستانہ سازینے کا روپ دھارلیا ،بجلی کی لہر کی طرح اس سازینے کی آوازتمام بدن میں سرایت کرکے گنبد کی طرح گونجنے لگی جسے اصطلاح صوفیہ میں صوتِ حسن وہمس کہتے ہیں ۔اس آواز سے کبھی الہام کی شعاعیں پھوٹنے لگتی ہیں،کبھی اس میں عجیب وغریب عارفانہ علوم ورموزمنکشف ہوتے ہیں ،کبھی بجلی کی سی کڑک ،گرج اور کوند ظاہر ہوتی ہے جس سے جسم کانپنے لگتاہے اور بے خودی اور محویت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ،کبھی چاند ،سورج اور بجلی کی طرح کا روشنی کا سیلاب اُمڈ آتا ہے جسے سالک غلطی سے نور ِحق کی تجلی سمجھ بیٹھتا ہے لیکن یہ نورِذات کی تجلی نہیں ہوتی بلکہ راہِ سلوک پر ایک دلفریب اور خوشنما رکاوٹ ہوتی ہے جو شخص یہاں پر آ کر اٹک گیا وہ یقینا منزلِ شریعت کی راہ سے بھٹک گیا ۔ان کیفیات پر میرا اپنا دل بھی بُری طرح لٹّو ہورہاتھا لیکن خدا بھلا کرئے میرے رہنما کا،جس نے ایسی ڈانٹ پلائی کہ کانوں کے کیڑے جھڑ گئے اورگردن سے پکڑ کر مجھے اس جنجال سے نکال باہرکیا۔(اس کے باوجود شہاب صاحب کا کہنا ہے کہ: تصوّف کے سارے سلسلے چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیاں ہیں جو اپنے اپنے طریق سے انجام کار شریعت کی شاہراہ سے جاکر مل جاتی ہیں،ناقابل فہم ہے بلکہ یہاں وہ اعتراف کررہے ہیں کہ ان سلسلوں میں پڑھ کر کئی تو گمراہ ہو جاتے ہیں اور کئی گمراہ ہونے کے بالکل قریب پہنچ جاتے ہیں جبکہ ہما را موقف یہ ہے کہ یہ سب سلسلے انسان کو صرف گمراہ ہی کرسکتے ہیں ،ہدایت نہیں دے سکتے اس لیے کہ یہ راہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی سنت سے متصادم ہے )