سُوۡرَةُ آل عِمرَان ۔103: وَٱعۡتَصِمُواْ بِحَبۡلِ ٱللَّهِ جَمِيعً۬ا وَلَا تَفَرَّقُواْۚاور سب مل کر الله کی رسی (قرآن) کومضبوطی سے تھام لو اور فرقہ نہ بناؤ
سُوۡرَةُ الاٴنعَام ۔ 159 :
إِنَّ ٱلَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَہُمۡ وَكَانُواْ شِيَعً۬ا لَّسۡتَ مِنۡہُمۡ فِى شَىۡءٍۚ إِنَّمَآ أَمۡرُهُمۡ إِلَى ٱللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُہُم بِمَا كَانُواْ يَفۡعَلُونَ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی جماعتیں بن گئے تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں ان کا کام الله ہی کے حوالے ہے پھر وہی انہیں بتلائے گا جو کچھ وہ کرتے تھے۔
حدیثِ نبوی: حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: میری اُمت میں وہ سب برائیاں آئیں گی جو بنی اسرائیل میں آئی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے تو میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو گی۔ یہ سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک گروہ کے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲﷺ وہ کون سا گروہ ہو گا؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ: وہ گروہ جو اُس راستے پر ہو گا جس پر مَیں (ﷺ) ہوں اور میرے اصحاب (ہؓ) ہیں۔ (جامع ترمذی.)
مندرجہ بالا رائے میری ذاتی رائے نہیں ہے، بلکہ بہت سے علمائے حق کی رائے ہے، جن سےسب کا متفق ہونا ضروری نہیں کہ ہم سارے مسلمان توقرآن و حدیث کے سارے فرمودات سے بھی پورے کے پورے متفق نہیں ہوتے۔
- دین اسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ”مکمل“ ہوچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ تو اسلام میں کوئی اضافی کیا جاسکتا ہے اور نہ کمی۔ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں اسلام کا عملی نمونہ بھی موجود ہے۔ اس دور میں یا ادوار خلافت راشدہ میں مزارات ”دین اسلام کا حصہ“ نہ تھے۔ اور وہی ادوار تاریخ اسلام کے رول ماڈلز ہیں۔ حالانکہ اُن ادوار میں وفات اور شہید ہونے والے جید صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا مقام بعد کے اولا ئے کرام رحمۃ اللہ علیہ سے کہیں زیادہ بلند تھا مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کسی بھی ”ولی اللہ“ کا مزار نہیں بنایا کہ ان کا سالانہ عرس کیا جاسکے۔
- ”مذہبی عقائد، عبادات و رسومات“ میں صرف اور صرف وہی عقائد، عبادات و رسومات جائز اور مبنی بر حق ہیں، جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں اور جن کا عملی نمونہ ادوارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ میں نظر آتا ہے۔ ان کے علاوہ دین اسلام میں بعد میں ”داخل“ کئے جانے والے جملہ ”مذہبی عقائد، عبادات و رسومات“ سب حرام ہیں۔
- ”دنیوی معاملات“ میں سب کچھ جائز اور حلال ہیں، ماسوائے اُن گنتی کی چند اشیاء اور اعمال کے، جنہیں قرآن وحدیث میں حرام قرار دیا گیا ہے۔
آپ صرف علماء کا لفظ استعمال کرتے تو بہتر تھا۔۔۔کیونکہ جب آپ نے علمائے حق کا لفظ استعمال کیا تو سوال یہ پیدا ہوا کہ آپ کو کس نے بتایا کہ یہ رائے رکھنے والے جو لوگ ہیں، یہ علمائے حق ہیں ۔ (اگر آپ بلبلے نامی ڈرامہ دیکھتے ہیں تو اس میں محمود صاحب اس جملے کو کس طرح ادا کرتے ہیں ، اسی طرح یہاں بھی سمجھ لیجئے یعنی۔۔یہ جو رائے رکھنے والے لوگ ہیں، یہ علمائے حق ہیں؟)۔۔۔مندرجہ بالا رائے میری ذاتی رائے نہیں ہے، بلکہ بہت سے علمائے حق کی رائے ہے، جن سےسب کا متفق ہونا ضروری نہیں کہ ہم سارے مسلمان توقرآن و حدیث کے سارے فرمودات سے بھی پورے کے پورے متفق نہیں ہوتے۔
خلق می گوید کہ خسرو بت پرستی می کند
آرے آرے می کنم، با خلق ما را کار نیست
لوگ کہتے ہیں کہ خسرو بت پرستی کرتا ہے، ہاں ہاں کرتا ہوں، لوگوں کے ساتھ مجھے کوئی سروکار نہیں ہے کیونکہ ع - یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں اور ع - لوگوں کا کیا سمجھانے دو انکی اپنی مجبوری یا بقول بلھے شاہ
تینوں کافر کافر آکھ دے توں آہو آہو آکھ
بقول شخصے، اس کو اگر پہلے کافر کے بعد ایک وقفہ دیکر پڑھیں تو مطلب زیر و زبر بھی ہو جاتا ہے۔
تینوں کافر۔۔۔ کافر آکھ دے تو آہو آہو آکھ
کیونکہ
اگر عشقِ بُتاں کفر است بیدل
کسے جز کافر ایمانی ندارد
بیدل اگر عشقِ بتاں کفر ہے تو کافر کے سوا کوئی ایمان نہیں رکھتا۔
بھائی اگر بر موقع ، بر محل بات کی جائے تو وزن رکھتی ہےجی میدان کیا بہن جی، بس ایسے ہی کچھ اشعار اور مصرعے ذہن میں آئے تو موقع محل کی نسبت سے لکھ دیے۔
محترم بھائیاس دھاگہ میں پوسٹ کردہ مزار شریف کو سجدہ کرنے والی تصاویر، پنڈت صاحب کی نظم (کہتی ہے ’مجھ‘ کو خلق خدا ۔۔۔ ۔ ) یا فرقہ واریت سے منع کرنے والی قرآنی آیات ا ور حدیث میں سے جس کسی سے بھی اگر کسی محفل کی دل آزاری ہوئی ہو تو دلی معذرت خواہ ہوں۔ مقصود احباب کی دل آزاری نہ تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ احباب کو کون سی بات بُری لگی اور کیوں؟ کیا مزار شریف کو سجدہ کرنے والی تصویر حقیقت پر مبنی نہیں ہے؟ کیا عرس کے مواقع پر مرد و زن کا مخلوط دھمال اب ٹی وی اور اخبارات کی زینت نہیں بنتا؟ اور کیا یہ سب کچھ اسلام کے عین مطابق ہے؟ اگرنہیں تو اس کی نشاندہی کرنے پر اظہار ناراضگی کیوں؟ ہاں پنڈت صاحب کی نظم پر ”اعتراض“ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ میاں پنڈت! تم کون ہو ہمارے ”اعمال“ پر گرفت کرنے والے؟ دین ہمارا، عمل ہمارا، ہم جو مرضی کریں۔ لیکن بہر حال پنڈت صاحب نے جس ”خوبصورتی“ سے ہم پر طنز کیا ہے، اس کی داد تو دینی ہی چاہئے، باذوق محفلین کو۔ یا در جواب آن غزل کے طور پر ہی کچھ پیش کرنا چاہئے تھا۔ یہ نظم نیٹ ورلڈ میں برسوں سے گشت کررہی ہے۔ مجھے ابھی تک اس کا کوئی ”منظوم جواب“ نظر نہیں آیا۔ رہی بات قرآنی آیات اور احادیث کی تو یہ آیات صاف صاف ہم سے کہہ رہی ہے کہ ہم فرقوں سے بالا تر ہوکر صرف اور صرف مسلمان بن جائیں۔ آج یا کل ہم سب نے قبر میں جانا ہے، جہاں کسی سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ دنیا مین وہ کس فرقہ، کس مذہب، کس پیر سے وابستہ رہا ہے۔ جو پوچھا جائے گا وہ یہ کہ من ربک، من دینک اور من رسولک۔ تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ اور تمہارا رسول کون ہے؟ ۔ آئیے ہم سب مرنے سے قبل قبر کے انہی سوالات کے جوابات کی تیاری کرتے ہوئے صرف اور صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا رشتہ قوی کرنے کے لئے قرآن اور سنت کو مضبوطی سے تھام لیں۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ ایک بار پھر جملہ احباب سے دلی معذرت۔