پیش لفظ
سعادت حسن منٹو نے اپنے خاکوں میں فرشتوں کا مونڈن کیا اور آج ہم خاکہ نگاروں کے ہاتھوں خاکہ نگاری کا مونڈن ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اِن دنوں شائع ہونے والے خاکوں کے مجموعوں میں ہمیں’ فرشتوں کا اجتماع‘ نظر آتا ہے۔ جس میں ہر فرد دھلا منجھا اور تقریباً ہر انسانی کم زوری سے مبرّا دکھائی دیتا ہے۔ شاید منٹو کے ساتھ ہی فرشتوں کے مونڈن کا رواج بھی اٹھ گیا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے خاکہ نگار اب پورے انسان کو زیرِبحث لائے جانے کے قابل ہی نہیں سمجھتے یا پھر اُن میں سے جراءت اظہار ہی جاتی رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خاکہ نگاری بے حد مشکل صنف ہے۔ جس کا تمام حسن سچائی دیانت داری اور اُس کے غیر جانب دارنہ اظہار میں ہی پوشیدہ ہوتا ہے۔ خاکہ نگار کی مثال ایک ایسے فرد کی سی ہے ،جو اپنے ہاتھوں میں آئینہ لیے پھرتا ہے اور جو فرد اس آئینے میں تصویر ہوتا ہے اُسے پوری ایمان داری سے بے کم و کاست کاغذ پر نقش کردیتا ہے ۔ یہ عمل بڑی ریاضت چاہتا ہے اور ہمارے ہاں محنت سے جی چرانے کا چلن عام ہے اور شاید لوگوں میں اب اتنی اخلاقی جراءت بھی باقی نہیں رہی کہ وہ پورے قد سے بولتے آئینے تک کا سامنا کرسکیں۔ میرے نزدیک، خاکہ نگاری کی زبوں حالی کی بڑی وجہ لوگوں کا اپنی اصل سے انکار اورسچائی سے آنکھ چرانے کا وتیرہ ہے۔
خاکہ نگاری کی یہ بدحالی آج کی بات نہیں ہے۔ کیا اردو ادب کی پوری تاریخ میں آپ خاکہ نگاری کا کوئی عہدِ زرّیں کرسکتے ہیں؟ شاید نہیں، زیادہ سے زیادہ منٹو، عصمت چغتائی، اشرف صبوحی، شاہد احمد دہلوی اور مولوی عبدالحق وغیرہ کے دور کو خاکے کا عہدِ زرخیز قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اُس دور میںبھی جو خاکے تحریر کیے گئے اور جن کا بہت شہرہ بھی ہوا۔ کیا وہ تمام کے تمام خاکے صنف ِخاکہ نگاری کے تمام مطالبات پورے کرتے تھے؟ میںایسا نہیں سمجھتا، کیوںکہ اِن خاکوں میں بھی پورے انسان کو تصویر نہیں کیا جاسکا۔ ایسا کیوں ہو ا،اُس پر تو بحث آگے چل کر ہوگی۔ فی الحال تو میرے ذہن میں یہ سوال سَر اٹھا رہا ہے کہ وہ کیا چیز ہے ،جس نے ہمارے قلم کاروں کو خاکے کی صنف سے والہانہ دل چسپی لینے سے روک دیا؟ یہ خاکہ نگاروں کی کیسی کم نصیبی ہے کہ وہ خاکہ نگاری کا ایک عہد ِزرّیں تک دریافت نہیں کرپاتے اور بمشکل عہدِزرخیر تک پہنچ کر اٹک جاتے ہیں۔
میرے خیال میں اِس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خاکہ نگاری کو نہ تو کوئی بڑا خاکہ نگار مل سکا اور نہ ہی کسی اہم نقّاد نے اِس صنف پر سنجیدگی سے توجہ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک منٹو کے علاوہ ہمیںکوئی دوسرا خاکہ نگار یادہی نہیں آتا، جس نے ہمیں بہ یک وقت بہت سے مکمّل انسانوں کے ملاحظے کا موقع دیا ہو۔ جی ہاں، میں نے ملاحظے کا لفظ ہی استعمال کیا ہے۔ کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ خاکہ بھی دراصل ایک ’قلمی تصویر‘ ہوا کرتی ہے۔ ایک مکمّل، زندہ اور زیادہ جان دار تصویر، جس میں صاحبِ تصویر چلتا پھرتا، ہنستا بولتا، روتا گاتا، سوچتا، عمل کرتا، محبت اور منافقت سے کام لیتا اور دانائی اور سادگی سے معاملہ کرتا دکھائی دیتا ہے اور یہ قلمی تصویر کا تحرّک ہی ہے جوخاکہ نگار کے لیے اُس کے کام کو اِس درجے دشوار بنا دیتا ہے۔ خاکہ نگاری پر بحث کرتے ہوئے انور ظہیر خان کہتے ہیں:
”خاکہ نگار کو خاکے کے چوکھٹے میں شخصیت اپنے پورے وجود اور سائے کے ساتھ آئینہ کرنی پڑتی ہے۔“
اپنے خاکہ نگاروں کی کارکردگی دیکھتے ہوئے، اُن سے یہ ایک کڑا مطالبہ ہے کہ ابھی تو وہ پوری شخصیت تک تصویر کرنے کا ہنر نہیں سیکھ سکے ۔ اگر ہم اردو میں خاکہ نگاری کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو سوائے چند چنگاریوں کے ہمیں دور دور تک راکھ بکھری دکھائی دیتی ہے۔ خاکہ نگاروں نے تو خیر بری بھلی کوششیں کی بھی ہیں۔ حیرت تو نقادانِ ادب کے رویے پر ہوتی ہے، جنھوں نے اِس صنف پر سنجیدگی سے توجہ دی ہی نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے نقّادوں نے خاکہ نگاری کی کوئی جامع اور بھرپور تعریف تک مرتّب کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حالاںکہ ےہ نقّادانِ ادب کی ذمے داری تھی کہ وہ ہمےں بتاتے کہ اِس صنف کے بنیادی اصول، اِس کی ماہیت، اِس کے تنقیدی معیارات اور حدودکےا ہوں گے؟ ادب میں اِس صنف کی حیثیت اور اہمیت تو خیربعد کے مرحلے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ خاکہ نگاری کے نام پر، جس نے جو لکھا ،اُس کے اصول اور معیارات بھی خود اُسی نے طے کیے اور تعریف بھی وہی بیان کی جس پر اُس کی اپنی تحریر پوری اترتی ہو۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فنِ خاکہ نگاری قلم کاروں میں اپنا ایک اجتماعی شعور راسخ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا، اور عدم مرکزیت کا شکار ہوتا چلا گیا۔ بہ قول ڈاکٹر بشیر سیفی:
”ہمارے ہاں اب تک جو خاکے لکھے گئے ہیں ،انھیں بڑی آسانی سے چند خانوں میںبانٹا جاسکتا ہے۔ یعنی تعارفی خاکے (چراغ حسن حسرت، رئیس احمد جعفری)، مدحیہ خاکے (رشید احمد صدیقی)، نفسیاتی خاکے (ممتاز مفتی) اوریک رخے خاکے (دوزخی، عصمت چغتائی اور جوش ملیح آبادی از شاہد احمد دہلوی) وغیرہ۔“
ڈاکٹر بشیر سیفی کی اِس تقسیم در تقسیم میں دو قباحتیں ہیں۔ ایک تو وہی خاکے کی اجتماعی شعور سے محرومی اور دوسری، انسانی شخصیت کا اپنے بہت سے رنگوں سے محروم رہ جانا۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا خاکوں کو خانوں میں بانٹ کر ہم اِس صنف کی حقیقی پَرداخت اور ترقی کے لیے کوئی مثبت پیش رفت کرسکتے ہیں؟ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ممکن ہے۔
جس طرح ہم انسانوں کو خانوں میں بانٹ کر اُن کی کلّیت مجروح کرتے ہیں ، اِسی طرح خاکوں کی تقسیم سے فن کو اُس کے اجتماعی تصوّر سے محروم کردیتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب جو خاکے لکھے جا رہے ہیں، اُن میں ہمیں یہی شتر گربگی کار فرما نظر آتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ، خاکہ نگاری کی کوئی حتمی تعریف قائم نہیں کی گئی۔ اِس کا منطقی انجام یہی ظاہر ہونا تھا، جو آج ہمارے سامنے ہے، لیکن کیا ہمیں اِس صورت ِحال کو بعینہِ قبول کرلینا چاہیے؟ کیا ہمیں یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ خاکہ دراصل کیا ہے؟ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کون سے اصول ہیں ، جو خاکہ تخلیق کرتے ہوئے ہمارے پیشِ نظر رہنے چاہئیں اور وہ کون سے اجزائے ترکیبی ہیں، جن سے مل کے خاکہ اپنی تکمیل کو پہنچتاہے۔ ہمیںیہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مضمون اور خاکے میں بنیادی فرق کیا ہوتا ہے۔ شاید اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوسکے گا کہ ہم تعارفی خاکوں، مدحیہ خاکوں، نفسیاتی خاکوں اور سوانحی خاکوںایسی بدعتوں سے چھٹکارا پاسکیں۔
ہم جانتے ہیں کہ مضمون لکھتے ہوئے ہم ایک بنیادی سوال قائم کرتے ہیں اور پھر مختلف جہتوں سے اُس کا جائزہ لے کے اِسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی شخصیت پر مضمون لکھتے ہوئے بھی ہمارا رویہ کم و بیش یہی ہوتا ہے، مثلاً اگر ہم کسی شاعر کے فن کو موضوع بناتے ہیں، تو اُس کے کلام کے فنّی محاسن، شاعری کے موضوعات، کلام میں لفظوں کا برتائو،اُس کا معنوی حسن اور نغمگی وغیرہ، ہمارے مضمون کا مواد بنتے ہیں ،لیکن ہمارے مضمون کا دائرہ اُس شاعر کی شاعرانہ حیثیت ہی تک محدود رہتا ہے۔ اِس کے برخلاف، جب ہم خاکہ لکھنے بیٹھتے ہیں، تو فرد کا پورا وجود ہمارا موضوع ہوتا ہے۔ بہ قول ِانور ظہیر خان:
” خاکہ نگار کو شخصیت کا سارا لیکھا جوکھا پیش کرنا پڑتا ہے۔ خاکہ کسی بھی شخصیت کا جنم پترہوتا ہے۔ اُس میں شخصیت کو اُس کے اصلی چہرے مہرے، رفتار و افکار اور احوال و آثار کے ساتھ ایک شگفتہ و شیریں، سلیس ورواں پیرائے میں پیش کیا جاتا ہے۔“
جب ہم کسی شخصیت کا تعارفی ، مدحیہ یا سوانحی خاکہ تحریر کرتے ہیں تو گویاہم خود کو اپنے ممدوح کی ذات کے ایک محدود حصّے کا پابند کرلیتے ہیں اور یوں ہم اُس انسان کو، پورے انسان کے طور پر پیش کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ایسی تحریروں میں غیر جانب داری اور دیانت دارانہ سچائی سے کام لیا ہی نہیں جاسکتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ایک آدھی ادھوری تصویر بناپاتے ہیں۔ سلیم احمد صاحب نے درست کہا تھا کہ محبت اور نفرت تعلق ہی کی دو صورتیں ہیں اور خاکہ نگار اِن کے بغیر اپنے فن کا اظہار کر ہی نہیں سکتا۔ میں اِس بات میں تھوڑا سا اضافہ کرنے کی جسارت کروں گا۔ میرا خیال ہے کہ محض محبت یا محض نفرت کی بنیاد پر لکھا جانے والا خاکہ شاید ہی معیاری ہونے کی سند پاسکتا ہے۔ آپ کسی فرد سے صرف محبت یا محض نفرت کا تعلق تو رکھ سکتے ہیں،لیکن اگرآپ اِس میں سے کسی ایک کیفیت میں رہ کے اُس فرد کاخاکہ تخلیق کریں گے تو خدشہ ہے کہ یہ خاکہ یک رخا رہ جائے گا۔ یہاں مجھے ایک بار پھر انور ظہیر خان کے الفاظ یاد آرہے ہیں، جو خاکہ نگار کو ایک مشاہد، مصوّر اور مبصّر قرار دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کے خاکہ نگاری کے لیے محبت اور نفرت کا آمیزہ درکار ہوتا ہے اور بہ قول انور ظہیر خان:
” شخصیت شناسی کی وہ تمیز و نظر جو سچّے اور پکّے عارف میں ہُوا کرتی ہے۔ خاکے میں توازن پیدا کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ خاکہ نگار غیر جانب داری سے کام لے۔ “
میرا خےال ہے کہ محض تمیز و نظر کا ہونا ہی کافی نہیں ہوتا ورنہ خاکہ نگار اپنے ممدوح کی ایسی تصویر پیش کرے گا جو اُس کی شخصیت کا وہ عکس ہوگا جیسا کہ خاکہ نگاراُسے دیکھنا یا دوسروں کو دکھانا چاہتا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا گیا خاکہ نگاری ایک نہایت مشکل صنف ہے۔ خاکہ نگار کے راستے میں ہزار دقتیں ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کبھی کبھی خاکہ نگار کے لیے اپنے ممدوح سے قربت بھی دیوار بن جاتی ہے۔ در حقیقت انسانی شخصیت کے اتنے رنگ اور اِس قدر پہلو ہیں کہ پورے انسان کو گرفت کرنے میں خاکہ نگارہانپ ہانپ جاتا ہے۔ ہر انسان میں بہروپ بھرنے کی ایک عجیب و غریب فطری صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ وہ ہر آن اپنا روپ بدل لینے میں کمال رکھتا ہے۔ اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ اُس کی ذات کا صرف وہی حصّہ ظاہر ہو جو پسندیدہ قرار پائے۔ اپنے عیوب اور کم زوریوں کو چھپانے کے لیے وہ کئی کھیل کھیلتا ہے۔ اِس کھیل میں اپنی کامیابی کے لیے اُسے سیکڑوں جتن کرنے پڑتے ہےں، ہزار نقابیں بدلنی پڑتی ہےں۔ ایک اچھا خاکہ نگاروہ ہے جس کی نگاہ اِن نقابوں میں پوشیدہ اچھے برے آدمی کو کھوج سکتی ہو اور جس کا قلم پوری صحت کے ساتھ اُسے بیان کردینے کی قدرت رکھتا ہو۔ خاکہ نگار کی غیر جانب داری اور اپنی ذات سے بلند ہوکر دیانت دارانہ اظہار کا اصل امتحان اُس وقت شروع ہوتاہے جب وہ خود اپنی ذات کو خاکے کا موضوع بناتا ہے۔ ایسے خاکے کم سامنے آئے ہیں ،جن میں خاکہ نگار نے خود اپنی شخصیت کو چاک پر چڑھایا ہو، اور ایسا جب بھی ہوا ہے تو یا تو خاکہ نگار خود ترسی کا شکار ہوگیا ہے یا اُسے اپنی خوبیاں یا خامیاں بہت زیادہ نظر آنے لگی ہیں۔ اِس مقام پر توازن قائم رکھنا، خاکہ نگار کا اصل کمال ہوتاہے۔ ہمیں مایوسی سے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے اکثر خاکہ نگار اِن اوصاف سے محروم ہیں۔ یہاں مجھے ایک بار پھر ڈاکٹر بشیر سیفی یاد آتے ہیں، جن کا کہنا ہے :
”ہمارے یہاں ابھی تک خاکہ نگاری ،ایک ثانوی صنفِ ادب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اکثر اوقات اہلِ قلم کی وفات، تعارفی تقاریب اور شامِ اعتراف کے مواقع پر خاکے لکّھے اورپڑھے جاتے ہیں جن میںاکثر شخصیت کے دونوں رخ نمایاں نہیں ہوتے۔“
میرا سوال یہ ہے ،کہ اگر کسی خاکے میں شخصیت کے دونوں رخ نمایاں نہیں ہوتے تو کیا ہم ایسی تحریر کو خاکہ قرار دے سکتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ جن خاکوں میں صاحبِ خاکہ کی پوری شخصیت وجود نہیں پاتی ایسی تحریروں کو خاکے کی صف میں شمار نہیں کیا جانا چاہیے۔ خاکہ وہ ہے جس میں شخصیت کے تمام یا اکثررنگ اظہارپاتے ہوں۔ عام طور پر خاکہ نگاری کے اِس بنیادی مطالبے سے پہلو تہی کے لیے خاکہ نگار اپنے مزاج کے دھیمے پن، شائستگی اور رکھ رکھائو کو آڑ بناتے ہیں۔ اُنھیں یہ تو گواراہے کہ اُن کی تخلیق ادھوری رہ جائے، لیکن وہ اِس کے روادار نہیں ہوتے کہ اُن کے ممدوح کی ذات کی سلوٹیں زیرِ بحث آئیں ۔ میرا خیال ہے کہ ایسے خاکہ نگار یا تو جراءت رندانہ جیسے کم یاب وصف سے عاری ہوتے ہیں، یا پھر اُنھیں اپنے جذبات کے اظہار سے خوف آتا ہے۔ میں آج تک یہ بات نہیں سمجھ سکا ،کہ جو تحریریں خاکے کے چوکھٹے میں پوری نہیں بیٹھتیں، اُنہیں سیدھے سادے طریقے سے مضمون کیوں نہیں کہا جاسکتا؟ کیا خاکہ قرار دیے جانے سے اِن تحریروں کو کوئی انفرادی خصوصیت حاصل ہوجاتی ہے، یا خاکہ نگاری، مضمون نویسی سے افضل کوئی صنف ہے؟کیاخاکے کے نام پر کچھ بھی لکھ کرلوگ خاکے کی دَم توڑتی صنف میں روح پھونکنے کی مخلصانہ کوششوں میں مصروف ہیں؟ انور ظہیر خان نے درست لکھا ہے کہ صنفِ خاکہ نگاری ایک پامال اور نظراندازصنف بن کے رہ گئی ہے۔
اس تمام بحث سے ایک بات تو بالکل واضح ہے ،کہ خاکہ نگاری ایک بھاری پتھر ہے، جسے ہمارے اکثر خاکہ نگار محض چوم کر چھوڑ دینا ہی کافی سمجھتے ہیں۔ میںیہ بات اِس بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران شائع ہونے والے خاکوں کے مجموعوں سے یہ بات صاف ظاہر ہے۔ یاد رہے کہ ان میں جناب احمد ندیم قاسمی اور محترم نذر الحسن صدیقی جیسی معروف شخصیات کے مجموعے بھی شامل ہیں۔ یہاںمجھے سلیم احمد یاد آرہے ہیں، جنھوں نے عسکری صاحب کی خاکہ نگاری کو زیرِ بحث لاتے ہوئے اُسے ایک ناکام تجربہ قرار دیا تھا اور اِس کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ عسکری صاحب جذبات کے اظہار سے ڈرتے تھے۔ سلیم احمد نے ایک کلیدی نکتہ یہ بیان کیا تھاکہ عسکری صاحب کے لیے دوسروں سے جڑنا ممکن نہ تھا۔ گویا سلیم احمد یہ کہنا چاہتے تھے کہ عمدہ خاکے کی تخلیق کے لیے ضروری ہے کہ خاکہ نگار جذبات کے اظہار سے نہ گھبراتا ہو اور اسے دوسروں سے جڑنے کا ہنر آتا ہو۔
سلیم احمد صاحب یہاں دوسروں سے جڑنے سے کیا مراد لے رہے ہیں؟کیا انھوں نے جڑنے کے عمل کو ضم ہوجانے کے معنوں میں برتا ہے؟ یہ ایک بنیادی بات ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید سلیم احمد یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عسکری صاحب خاکہ نگاری میں اس لیے ناکام رہے کیونکہ کہ انھوں نے خود کو بھی اپنے دائرے میں قید رکھا اور دوسروں کو بھی اِس دائرے کے نزدیک نہیںپھٹکنے دیا۔ اگر ہم عسکری صاحب کے عام رویّے کو پیش نظر رکھیں تو سلیم احمد کی بات درست نظر آتی ہے۔ یہاں خدشہ ہے کہ شاید سلیم احمد صاحب کے اِس بیان کو صحیح تناظرمیں نہ دیکھا جائے۔ اس لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ محمد حسن عسکری کی ناکام خاکہ نگاری پر بغلیں بجانے کا کوئی محل نہیں ہے۔ یہ ایک بڑے آدمی کی ناکامی تھی ،جو ناکام ہوتے ہوئے بھی بعض چھٹ بھیّوں کی کامیابی سے کہیں بڑی ہے ۔ سلیم صاحب کے اِس بیان سے ظاہر ہے کہ عسکری صاحب کی خاکہ نگاری کے ناکام تجربے کا بنیادی سبب یہی دوسروں سے نہ جڑنے کی مجبوری تھی۔
میرا خیال ہے کہ سلیم احمد صاحب یہی کہنا چاہتے ہیں کہ جس طرح کوئی پینٹر اُس وقت تک کوئی شاہکار تخلیق نہیں کرسکتا، جب تک وہ اپنے تخیل، خیال یا ماڈل میں پوری طرح ضم نہ ہوجائے ،کیوںکہ اِس کے بغیر اُسے اُس کی تمام ترخوب صورتی یا بدصورتی یا دونوں کاعرفان حاصل نہیں ہوسکتا۔ خاکہ نگار کا کام تو اس سے بھی کہیں کٹھن ہے، اُسے تواپنی قلمی تصویر میں، پورے وجود کو سمونے کے علاوہ، کاغذپرآدمی کو زندہ کر دینے کا معجزہ بھی دکھانا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے کتنے خاکے ہوں گے جو اس معیار پر پورے اترتے ہیں؟ ایسے خاکہ نگاروں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے، جنھوں نے عمدہ خاکے تحریر کیے۔ مولوی عبدالحق کا نام دیومالی، عصمت چغتائی کا دوزخی، اشرف صبوحی کا کویل زنانہ اورمٹّھو بھٹیارا ، اِس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ رہے منٹو کے گنجے فرشتے، اُن کا توخیر کہنا ہی کیا۔ ہمارے زمانے میں لے دے کے چند نام ہیں ،جن کے دَم سے خاکہ نگاری کا اعتبار قائم ہے۔ جن میں ممتاز مفتی، آفتاب احمد خان، جناب ڈاکٹر اسلم فرّخی، قرة العین حیدر اور ڈاکٹر دائود رہبرکے نام شامل ہیں۔ اِن بزرگوں کے بعد کی نسل میں بھی کچھ قلم کاروں نے خاکے لکھے ہیں ، لیکن ابھی اُن کے کام کی حیثیت اور مرتبے کے بارے میں فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اِس ساری بحث سے میرا مدّعا یہ ہے، کہ ہمارے خاکہ نگاروں نے تواتر سے اچھے خاکے تخلیق نہیں کیے۔
کبھی کبھی مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اِس صنف کو کسی بھی ادیب نے پوری ذمے داری اور والہانہ پن سے اختیار نہیں کیا ۔جس کسی نے خاکہ لکھا، اُس نے اِسے محض وقت گزاری کا مشغلہ سمجھا،اور شاید اِسی لیے اس کے تقاضوںپر توجہ نہیں دی ۔یہاں یہ سوال ایک بار پھر اٹھتا ہے، کہ ادیبوں اور نقّادوں کی خاکہ نگاری کی جانب سے اِس عام بیزاری کا اصل سبب کیا ہے؟ کیا خاکہ نگاری کو اِس لیے نظر انداز کیا گیا، کیوںکہ اُسے غیر اہم صنف گردانا گیا یا اِس کا سبب خاکہ نگاری کی مشکلات ہیں؟ میرے نزدیک ،خاکہ نگاری حقیقت کو افسانہ بنانے کا عمل ہے۔ جس کے لیے توازن، زیرکی، قوتِ مشاہدہ اور حسنِ بیاں درکار ہوتا ہے۔اِس کے لیے ایک الگ قسم کے جوہر کی ضرورت پڑتی ہے، اور ضروری نہیں کہ ہر نثر نگار میں یہ منفرد صلاحیت موجود ہو۔ یہاں میں ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کا وہ تبصرہ نقل کرنا چاہتا ہوں، جو انھوں نے انور ظہیر خان کے خاکوں کے مجموعے ”مت سہل ہمیں جانو“ پر تحریرفرمایا ہے۔
ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:
”خاکہ نگاری کا یہ مجموعہ جراءت مندانہ اظہار، صاف گوئی، بے باکی اور حقائق نگاری کا مرقّع ہے۔“
میں سمجھتا ہوں اگر اب اچھے خاکے سامنے نہیں آرہے ، تو اس کی وجہ یہ تو نہیں ہے کہ ہمارے خاکہ نگار اُن ضروری اوصاف سے محروم ہو چکے ہیں جن کا تذکرہ ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب نے فرمایا یا پھر وہ بہ وجوہ اس نوعیت کے اظہار سے کنّی کتراتے ہیں۔ میرے اس سوال کا جواب آگے چل کے خود ڈاکٹر صاحب نے اپنے اسی تبصرے میں مرحمت فرمادیا ۔ وہ کہتے ہیں:
”ہم سچ بولنے اور سچ سننے سے گھبراتے ہیں اور ہمارے اس خوف نے ایک طاقتور معاشرتی رُجحان کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔“
اگر ہمارے ادیب اس طاقتور معاشرتی رُجحان کے دباو میں سچ سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں تو یہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ تو کیا، یہ قیاس غلط ہوگا کہ یہی طاقت ور معاشرتی رُجحان خاکے کے ساتھ اب دیگر اصنافِ ادب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور ہمارے عہد میں ادبی انحطاط کا ایک بڑا سبب بھی یہی ہے؟
انور ظہیر خان ،خاکہ نگاری کے بارے میں مثبت اور بالکل واضح سوچ رکھتے ہیں۔ مجھے اُن کی سوچ اپنے خیالات سے قریب ترین محسوس ہوتی ہے، جس کا اندازہ اِس گفتگوسے لگایاجاسکتا ہے جس میں اُن کو بار بار حوالہ بنایا گیا ہے۔ خاکے کے بارے میں اُن کے خیالات کتنے ہی وقیع سہی، لیکن میں انور ظہیر خان کے حوالے سے یہ ضرور کہوں گا کہ خود وہ بھی اپنے اکثر خاکوں میں اُن تمام شرائط کو پورا کرتے نظر نہیں آتے جن کا اُنھوں نے اپنے مضمون میں تذکرہ کیا ہے۔
اب آخر میں چند باتیں ،خاکے کے زیرِ نظر مجموعے ”تصویر خانہ“ کے بارے میں ۔ اِس مجموعے میں شامل تقریباً تمام خاکے میں نے اپنے شاعر دوستوں پر تحریر کیے ہیں اور دیانت دارانہ کوشش کی ہے کہ اِن احباب کو ایسا ہی دکھا سکوں، جیسا کہ یہ میرے تجربے کا حصّہ ہیں۔میں یہاں اِس بات کی وضاحت بھی ضروری خیال کرتا ہوں کہ اس کتاب میں شامل اکثر خاکے میں نے اپنے دوستوں کی زندگی میں تحریر کےے اور اُن میں سے اکثردوستوں نے نا صرف اِن کا مطالعہ کیا،بلکہ مجھے اپنے ردِّعمل سے بھی سرفراز کیا۔مجھے ایک متنازعہ خاکہ نگار کا تعارف حاصل ہے اور شاید یہی میرے تخلیقی عمل کی سچّائی کا ثبوت بھی ہے ۔میں اپنی اِس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوسکا ہوں۔ اِس کا آخری فیصلہ تو آپ ہی کریں گے، لیکن مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ اِس حوالے سے میں اپنے ضمیر پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتا۔ کتاب کی اشاعت میں جن احباب نے مجھ سے معاونت کی یہاں اُن میں سے چند کا تذکرہ میں ضروری خیال کرتا ہوں، ان میں ڈاکٹر اقبال پیرزادہ، زیب اذکار حسین،رائو وقار انجم ، موسی کلیم، ممتاز سومرو اور معراج جامی صاحب وغیرہ شامل ہیں ۔ میں اپنے اہلِ خانہ کا بھی ممنون ہوں جنھوںنے میری تحریری مصروفیت کی ہمیشہ ہمت افزائی کری۔مجھ پر اپنے بہت سے اور مہربانوں کا شکریہ ادا کرنا قرض ہے لیکن کسی ایک یا چند افراد کا تذکرہ کرکے میں باقی افراد کی حق تلفی کرنے کی خود میں جراءت نہیں پاتا۔ میرے لیے وہ سب محترم ہیں اور میں اُن سب کا بے حد ممنون ہوں۔