فرخ منظور
لائبریرین
تعبیر
مجھے یقیں تھا کہ تم نہیں ہو
تھکے ہوے کھڑکیوں کے چہرے
جلی ہوئی آسماں کی رنگت
سیاہ آفاق تک بگولے
لہو کے آتش فشاں کی ساعت
وجود پر ایک بوجھ سا تھا
نہ صبح ِوعدہ نہ شامِ فرقت
اسی مہیب آتشیں گھڑی میں
کسی کی دستک سنی تو دل نے
کہا کہ صحرا کی چوٹ کھائے
کوئی غریب الدیار ہو گا
یہ سچ کہ دل کی ہر ایک دھڑکن
تمہارے درشن کے واسطے تھی
حیات کا ایک ایک لمحہ
تمہاری آہٹ کا منتظر تھا
مگر ایک ایسے دیارِ غم میں
جہاں کی ہر چیز خشمگیں ہو
مجھے یقیں تھا کہ تم نہیں ہو
زمین سکتے میں ہے کہ کیونکر
زمین پر ماہ تاب ابھرا
یہ آگ کیسے بنی شبستاں
کہاں سے آنکھوں کا خواب اترا
روایتوں کی ہزار صدیوں
سے بڑھ کے یہ لمحہ حسیں ہے
لہو میں پھولوں کے حاشیے ہیں
اداس کاسے میں انگبیں ہے
یہ تم ہو یہ ہونٹ ہیں یہ آنکھیں
مجھے یقیں ہے، مجھے یقیں ہے
مجھے یقیں تھا کہ تم نہیں ہو
تھکے ہوے کھڑکیوں کے چہرے
جلی ہوئی آسماں کی رنگت
سیاہ آفاق تک بگولے
لہو کے آتش فشاں کی ساعت
وجود پر ایک بوجھ سا تھا
نہ صبح ِوعدہ نہ شامِ فرقت
اسی مہیب آتشیں گھڑی میں
کسی کی دستک سنی تو دل نے
کہا کہ صحرا کی چوٹ کھائے
کوئی غریب الدیار ہو گا
یہ سچ کہ دل کی ہر ایک دھڑکن
تمہارے درشن کے واسطے تھی
حیات کا ایک ایک لمحہ
تمہاری آہٹ کا منتظر تھا
مگر ایک ایسے دیارِ غم میں
جہاں کی ہر چیز خشمگیں ہو
مجھے یقیں تھا کہ تم نہیں ہو
زمین سکتے میں ہے کہ کیونکر
زمین پر ماہ تاب ابھرا
یہ آگ کیسے بنی شبستاں
کہاں سے آنکھوں کا خواب اترا
روایتوں کی ہزار صدیوں
سے بڑھ کے یہ لمحہ حسیں ہے
لہو میں پھولوں کے حاشیے ہیں
اداس کاسے میں انگبیں ہے
یہ تم ہو یہ ہونٹ ہیں یہ آنکھیں
مجھے یقیں ہے، مجھے یقیں ہے
آخری تدوین: